Aqal To Atiyah Khuda Wandi Hai
عقل تو عطیہ خداوندی ہے

پاپولر بیانئیے کی آواز بننا یا پاپولریٹی کی ہوا پر اڑنا ہونا بہت آسان ہوتا ہے۔ لاکھوں لائکس اور فالورز۔ بس بڑھی ہوئی بات کو مزید بڑھانا ہی تو ہوتا ہے۔ جعلی تجزئیے، جھوٹی خبریں، بے سر و پا ہانک بازی اور بس۔ یہ کام وہ کرتے ہیں جن کے پاس دنیا کو دکھانے کے لیے اپنی ذات میں کوئی ہنر نہیں ہوتا۔ ڈالرز کی کمائی، پاپولریٹی سے متاثر پبلک کی جانب سے واہ واہ اور آپ کی ذات کی دستار بندی سمیت آپ کی ناموس پر پہرہ دیتا کلٹ اس عمل کی کمائی ہیں مگر آپ اس میں ایسا پھنس جاتے ہیں کہ اگر نکلنا چاہیں تو یہی لوگ آپ کی ماں بہن ایک کرکے رکھ دیں گے۔
میرے لیے بھی بہت آسان تھا اور ہے کہ میں اس سماج میں پھیلے پاپولر سٹانس کی آواز بن جاؤں۔ یہ سب سے آسان کام تھا اور ہے۔ مگر میرا سوشل میڈیا سے کوئی مفاد وابستہ ہی نہیں۔ میری یہاں نہ کوئی کمائی ہے نہ کمانے والا میرا منشور ہے۔ اپنی جاب سے کماتا ہوں، اپنی فرم کی کنسٹلٹنسی سروسز سے کماتا ہوں، اپنے دیگر ذرائع یا فن سے کماتا ہوں۔ یوٹیوب چینل ہے تو اس پر صرف سنجیدہ گفتگو ہوتی ہے اور سنجیدہ گفتگو سے آپ اس سماج میں کیا کما سکتے ہیں؟ وہ بھی ماہ میں ایک بار یا کبھی دو ماہ میں ایک بار کسی شخصیت سے گفتگو کر لیتا ہوں۔ وہ کوئی پاپولر چینل ہے نہ وائرل سٹف میں نے پروڈیوس کیا ہے نہ ہی ایسا ارادہ ہے۔ وائرل ہونا ہو تو اپنے مہمانوں سے بہت سنسنی خیز گفتگو، سنسنی خیز تھمب نیلز دے دوں۔ کیا مشکل ہے؟
اس واسطے میں سوشل میڈیا کی غلام گردشوں، پاپولر بیانیوں کی آواز بننے اور مقتدرہ کی توجہ حاصل کرنے کی جستجو سے مکمل آزاد ہوں۔ جو سوچتا ہوں، جو دیکھتا ہوں اور جو سمجھتا ہوں وہی لکھتا، بولتا اور سناتا ہوں۔ میں نے ساری زندگی کسی کے زیر اثر یا کسی قدغن میں بسر نہیں کی۔ مجھے خدا نے آزاد پیدا کیا تھا اور میں اپنی راہ خود بناتا چلتا رہا ہوں۔ اس سماج میں دو بیانئیے بہت پاپولر ہیں۔ ایک تو وہ سیاسی بیانیئہ جو آپ سب جانتے ہیں اور دوسرا مذہبی نمائندوں کا مذہب کارڈ۔ میں دونوں سے دور رہا اور دونوں کو پسند نہیں کرتا۔
مجھے اپنے قارین سے یہ امید ہوتی ہے کہ وہ میری رائے کو سیاسی و مذہبی تعصب سے بالا ہو کر پڑھیں گے مگر ایسا اس سماج میں ممکن نہیں۔ جس کو پسند نہیں آتی وہ توں تڑاں پر اُتر آتا ہے اور جس کو پسند آ جائے وہ واہ واہ کر دیتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ میری وال ہے اور یہاں میں جو سمجھتا ہوں وہ لکھوں گا۔ کسی کی رائے سے، کسی کے کہنے پر یا اکسانے پر نہیں لکھوں گا۔ مجھے اس سے کیا فرق پڑے گا کہ کوئی پسند کرے یا نہ کرے؟ میرا یہاں کونسا مالی مفاد وابستہ ہے کہ جس کے سبب میں لوگوں کی رائے فالو کرنے پر مجبور ہوں؟ آئے روز سیاسی و مذہبی جنونی لوگ فارغ کرتا رہتا ہوں۔
آپ کو کوئی بات ناگوار گزرتی ہے یا اختلاف ہوتا ہے تو اس کو یا تو اگنور کریں یا پھر دلیل کے ساتھ لکھ دیا کریں۔ یہ ٹرول پر اترنا، تیری یہ تیری وہ، مہذب یا غیر مہذب زبان برتتے ہوئے عزت پر حملہ آور ہونا ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ آپ خود سوچیں میں ایسوں کو کیوں برداشت کروں گا؟ میرے کونسا ویوز بڑھ جانے یا ڈالر آ جانے؟ یہ چسکے آپ کو ان یوٹیوبرز یا انفلیونسرز نے لگائے ہوں گے جن کا کُل مشن ویوز لے کر پیسے کمانا ہوتا ہے۔ ان کو عزت بے عزتی کا مسئلہ نہیں ہوتا۔ میرا مسئلہ اور ہے۔ میں سیلف میڈ ہوں اور راہ چلتے کسی ٹویٹرئیے یا فیسبکئیے کی بدتمیزی کیوں برداشت کروں گا؟
ہم نہ ہوں تو تمہارے جنازے کون پڑھائے گا۔ ہم نہ ہوں تو سرحدوں کی حفاظت کون کرے گا۔ انہی دو مائنڈ سیٹ کے سبب سماج کا بیڑہ غرق تھا پھر تیسرا عنصر شامل ہوگیا۔ ہمارا لیڈر نہ ہو تو اس ملک کا کیا بنے گا۔ ایسے سماج میں دوش پر سر سلامت ہے اور شلوار اپنی جگہ بندھی ہوئی ہے تو مولا کا شکر ادا کریں۔
دائیں بازو کی سوچ اس ملک میں بڑے لاڈوں سے پالی پوسی گئی ہے۔ مذہب، عسکریت اور جنس کی بنیادیں گہری ہیں۔ یاد رہے کہ مذہب کا مطلب وہ مذہب جس کا ملا اور ملائیت نے پرچار کیا ہے۔ یہاں مذہب سے مراد دین اسلام نہیں کیونکہ وہ تو سات دہائیوں سے اس ملک میں خطرے میں پڑا ہوا ہے، یہی ہم کو بتایا جاتا ہے۔ جالب ساڑھے تین دہائیوں پہلے ہی کہہ گئے تھے
خطرہ ہے زرداروں کو
دین کے ٹھیکیداروں کو
صدیوں کے بیماروں کو
گرتی ہوئی دیواروں کو
خطرے میں اسلام نہیں
سازشی نظریات یعنی کانسپریسی تھیوریز میں گھرا یہ ملک اور اس کی عوام اپنی مجموعی ناکامیوں کا ذمہ بیرونی عناصر یا پھر اندرونی طاقت کے مرکز پر ڈالتی رہتی ہے اور خود کو بہلاتی رہتی ہے۔ یہی ہوتا آیا ہے۔ یہی ہوتا رہے گا۔ دین کامل ہوئے چودہ سو سال بیت گئے مگر آج تک دین یہاں زیر تعمیر ہے۔ آئے دن ترمیمی فتوے نکلتے ہیں۔ دوسروں کے ایمان کو جج کیا جاتا ہے۔ انسانی زندگی و موت کے فیصلے منبر والے کھلے عام تقریروں کے ذریعے کرتے ہیں۔
دوسری جانب ایک طاقتور طبقہ ہے جس کے زیر اثر سارا نظام مملکت ہے۔ وہ اپنی مرضی و منشا کے مطابق قانون، آئین، نظام کا بازو بھی مروڑنا جانتا ہے پھر بھی عوام ہے کہ ان کی آنکھوں پر وہ کالی پٹی بندھی ہے جو احاطہ عدالت کے باہر مجسمہ عدل پر بندھی ہوئی ہے۔
ایک لکھنے والے، ایک کالم کار، ایک مفکر و محقق کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ طاقتوروں کو اپنے قلم کے ذریعہ مزید طاقت بخشنے لگے۔ اس کا کام اپنے پڑھنے والوں کو سیدھا رستہ دکھانا ہے۔ غلط و صحیح کی تمیز کرنا ہے۔ پاپولر سٹانس تو بھیڑ چال ہوتی ہے۔ یہاں سوشل میڈیا پر بدقسمتی سے اکثریت اسی بھیڑ چال کا شکار ہونے لگتی ہے۔ جہاں ریوڑ چل پڑتا ہے اسی سمت کو یہ بھی چل پڑتے ہیں۔
عقل و شعور میں باریک سا پردہ ہوا کرتا ہے۔ عقل انسان کو مفاد پرستی و موقع پرستی پر راغب کرتی ہے۔ شعور انسان کو راستہ دکھاتا ہے، غلط و صحیح کی تمیز عطا کرتا ہے۔ عقل تو عطیہ خداوندی ہے۔ عقل انسان کی پیدائشی میراث ہے جبکہ شعور انسان کو خود محنت سے حاصل کرنا پڑتا ہے۔ کتابوں، نظریات، آئیڈیل ازم، زندگی میں در آنے والے حوادث و تجربات، محرومیوں و آسائشوں سے کشید کرنا پڑتا ہے۔