Abba Ji, Peoples Party Aur Bhutto
ابا جی، پیپلز پارٹی اور بھٹو

میرے والد مرحوم پیپلزپارٹی کے سخت حامی تھے۔ گو کہ وہ پارٹی ممبر تھے نہ ہی سیاسی جلسوں میں جایا کرتے تھے (ماسوائے ان کارنر میٹنگز کے جو انتخابات کے موسم میں محلے میں ہوا کرتیں)۔ بس ابو کو پیپلزپارٹی سے ہمدردی تھی۔ سنہ 82 میں میری پیدائش ہوئی۔ بھٹو صاحب کو پھانسی چڑھے تین سال بیت چکے تھے۔ والد اور والد کے دوست خود کو فخر سے لیفٹ یا بائیں بازو کے نظرئیے اور کبھی کبھی خود کو سوشلسٹ نظرئیے کا داعی کہلوانا پسند فرماتے تھے۔ مجھے ان سب کی کیا سمجھ ہو سکتی تھی۔ بس مجھے یہ معلوم تھا کہ پیپلزپارٹی ایک پارٹی ہے اور ابا اس کو ووٹ دیتے ہیں اور ابا کے کچھ دوست ہیں جو ماسکو میں برف گرنے کی خبر پر خوشی و اداسی کا ملا جلا اظہار کرتے ہیں۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔
میں سن بلوغت کو پہنچا تو تھوڑا جاننے کا اشتیاق پیدا ہوا۔ یہ نوے کی دہائی تھی۔ اگر میں بھول نہیں رہا تو میرا میٹرک کا دور تھا۔ نوازشریف صاحب کا دوسرا دور تھا۔ ایک دن یونہی ابا سے سوال و جواب کر رہا تھا کہ اچانک کسی سوال کے جواب پر وہ کچھ سوچنے لگے۔ پھر بولے "چار اپریل سنہ 1979 کی صبح سات بجے ریڈیو پاکستان کے پانچ منٹ کے نیوز بلیٹن میں شاید پانچ خبریں تھیں۔ پانچویں اور آخری یہ تھی۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو آج نصف شب کو راولپنڈی جیل میں پھانسی دے دی گئی اور اب موسم کا احوال۔۔ "
مجھے یاد ہے کہ اتنا کہہ کر وہ پھر چپ ہو گئے۔ اس سے پہلے کہ میں مزید کچھ پوچھتا، وہ خود ہی بول پڑے "ریڈیو پاکستان کو چھوڑتے ہوئے میں نے ریڈیو پر سوئی گھما کر بی بی سی کا پروگرام سیربین لگا دیا۔ سیربین پروگرام میں پروگرام کے روایتی میوزک کے بجائے بھٹو کی آواز نشر ہوئی اور پھر یہ آواز کم ہوتی چلی گئی اور پھر میزبان نے کہا آج یہ آواز ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی۔۔ "
اس کے بعد ابا نے بھٹو کو پھانسی کی سزا سنانے والے لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انوار الحق کی "شان" میں کچھ کلمات ادا کئیے جو یہاں بیان کرنا مناسب نہیں۔ سچ پوچھیں تو مجھے اس وقت اس سارے قصے اور پس منظر کی سمجھ نہیں آئی۔ مولوی مشتاق اور انوار الحق کا نام بھی پہلی بار سنا تھا اور وہ یاد بھی نہیں رہا تھا۔
برسوں بعد، بہت برسوں بعد جب ابا کو دنیا سے گزرے گیارہ سال ہو چلے تھے میں ایک دن یونہی سندھ کے دورے پر پنجاب سے کراچی جاتے جاتے گاڑی کو گڑھی خدا بخش کی جانب گھما بیٹھا۔ یہ سنہ 2017 تھا۔ مجھے ذاتی طور پر پیپلز پارٹی سے کوئی رغبت ہے نہ میں اس پارٹی کو اینٹی سٹیٹس کو یا پاور پالیٹیکس کی دوڑ سے باہر سمجھتا ہوں۔ مجھے بس اشتیاق تھا کہ ایک بار بھٹو صاحب اور بینظیر صاحبہ کا مقبرہ دیکھتا چلوں۔ دوپہر کو گڑھی خدا بخش پہنچا۔ قبروں پر تازہ گلاب کی پتیوں کا انبار لگا تھا۔ اگر بتیوں کی خوشبو پھیلی تھی۔ مقبرے کے باہر تازہ پھول بیچنے والے موجود تھے۔ لوگ آ جا رہے تھے۔ یہ ایک عام سا دن تھا مگر لوگ کافی موجود تھے اور پھر ان لوگوں کے چہروں پر عقیدت کی جھلک کے ساتھ آنکھوں میں نمی بھی جھلکتی دیکھی تھی۔
شاید مجھے معلوم ہی نہ پڑتا کہ بھٹو صاحب کی سنگ مرمر سے بنی قبر پر انگریزی میں تحریر لکھی ہوئی ہے۔ کیونکہ قبر پھولوں کی پتیوں تلے چادروں سے ڈھکی تھی۔ اچانک ایک مجاور نے آ کر صفائی کی غرض سے چادریں ہٹانا شروع کیں۔ اس کام سے قبل انتظامیہ نے کئیں لوگوں کو احاطہ قبر سے نکال دیا۔ مجھے شاید میرے باؤ حلیے یا پنجابی جان کر کچھ نہ کہا۔ خیر، اس دن میں نے سنگ مرمر کی قبر پر کندہ تحریر دیکھی
ذوالفقار علی بھٹو
تاریخِ پیدائش: پانچ جنوری 1928۔
تاریخِ شہادت: چار اپریل 1979۔
ایک شاعر اور انقلابی۔۔
اس سے چار برس قبل میں فیصل مسجد اسلام آباد کے دورے پر ضیاء الحق کی قبر دیکھ چکا تھا۔ ضیاء الحق کے سنگ مرمر کے لوح قبر پر لکھا تھا
صدرِ پاکستان، چیف آف آرمی سٹاف جنرل محمد ضیا الحق۔
نگرانِ مقبرہ: چوہدری محمد ارشد
تیار کردہ: الغنی انٹر پرائزز (بلڈرز اینڈ کنٹریکٹر)۔
اس دن شاید میں پہلا یاتری تھا۔ کیونکہ مزار پر تازہ پھول تھے نہ میرے سوا اور لوگ تھے۔ کیا کسی کو معلوم ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انوار الحق کی قبریں کہاں ہیں؟ کوئی تو فاتحہ پڑھنے جاتا ہی ہوگا۔

