Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Aalu Garnede

Aalu Garnede

آلو گرنیڈ

فواد چوہدری کو ہمارے ایک صحافی دوست نجی محفل میں "آلو گرنیڈ" کہتے ہیں۔ ان کی توجیہہ یہ ہے کہ فواد وہ آلو ہے جو ہر سبزی کے ساتھ چل جاتا ہے۔ مشرف تا پیپلزپارٹی تا تحریک انصاف، شاید ہی کوئی مرکزی جماعت بچی ہو جس کے ساتھ فواد چوہدری شامل نہ ہُوا ہو اور پھر گرنیڈ کی وضاحت میں کہنے لگے کہ یہ شخص نہ صرف بڑبولا ہے بلکہ ہاتھ چھوڑنے والا بھی ہے۔ ایک تو نان سینس بکے گا اوپر سے جاہلوں کی مانند ہاتھ بھی چلا لیتا ہے وہ بھی اپنی ہی پارٹی کے لوگوں یا ہمدردوں پر۔ پہلے سمیع ابراہیم کو تھپڑ مار چکا ہے۔ آج اس نے شعیب شاہین کو اڈیالہ جیل میں تھپڑ مار کے گرا دیا ہے۔

بدقسمتی سے جماعت کا معیار بھی تو یہی بن چکا ہے۔ وہاں جو جتنا بڑبولا ہے اتنا ہی اوپر ہے۔ "وڑ گیا" والے صاحب کو بھی لڑائی سے راتوں رات شہرت ملی تھی اور پھر وہ خود کو سپر ہیرو سمجھنے لگے۔ اب خود وڑ گیا ہے۔

ہماری سیاست کے ڈی این اے میں یہی کچھ ہے۔ یہ آج کی بات نہیں، مگر گزرتے وقت کے ساتھ سیاسی زبان مزید خراب اور سیاسی کارکنان، ہمدردان یا پولیٹیکل ایکٹویسٹس مزید بدتمیز ہوتے گئے ہیں۔

اوائل سے ہی اقتدار پر قابض افسر شاہی نے اپنے مخالفین کو غدار کہنا شروع کر دیا۔ خان عبدالغفار خان، جی ایم سید، حسین شہید سہروردی غدار قرار پائے۔ وزیراعظم لیاقت علی خان نے ایک تقریر میں بنگال کے سابق وزیراعلیٰ اور تحریک آزادی کے سرکردہ رہنما حسین شہید سہروردی کو ہندوستان کا بھیجا ہوا ایجنٹ قرار دے دیا۔ ایوب خان کے زمانے میں ہمارے سیاسی کلچر میں مزید نئے عناصر داخل ہوئے۔

سرکاری مشینری نے فاطمہ جناح کی کردار کشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ فاطمہ جناح کو نیشنل عوامی پارٹی اور عوامی لیگ کی حمایت حاصل تھی جس کے رہنما سہروردی اور غفار خان کو پہلے ہی غدار کا لقب دیا جاچکا تھا سو فاطمہ جناح بھی غدار قرار دے دی گئیں۔ ایوب خان نے بعد ازاں اپنی کتاب "فرینڈز ناٹ ماسٹرز" میں لکھا کہ ہم نے قائداعظم کی بہن ہونے کے ناطے فاطمہ جناح کا خیال رکھا ورنہ ہم بہت کچھ کہہ سکتے تھے۔ گویا بانی پاکستان کی ہمشیرہ کو غدار قرار دینے کے بعد بھی کچھ گنجائش باقی تھی!

بھٹو صاحب اقتدار میں آئے تو انہوں نے بھی دوسری جماعتوں کے لیڈروں کو القاب دینے سے گریز نہیں کیا۔ مولانا مودودی کو "اِچھرہ کا پوپ" اور قیوم خان کو "ڈبل بیرل خان" کے القابات انہوں نے ہی دیے۔ جواب میں مخالفین نے بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ ایئر مارشل اصغر خان نے بھٹو کوکوہالہ کے پل پر پھانسی دینے کا اعلان کیا تو پی پی پی کی طرف سے اصغر خان کو "آلو" قرار دے دیا گیا۔ بھٹو مخالف پی این اے تحریک نے بھٹو کے لئے"گنجے کے سر پر ہَل چلے گا" کا نعرہ لگایا۔

سیاسی اخلاقیات کا زوال مزید اس وقت آگے بڑھا جب ضیاء الحق کی موت کے بعد موجودہ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے تمام اخلاقی حدود کو پامال کرکے رکھ دیا۔ بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کی تصاویر کو جعلسازی کے ذریعے بیہودہ رنگ دے کر جلسوں میں تقسیم کیا۔ ملک میں باقاعدہ مہم چلائی گئی کہ ایک عورت کسی اسلامی مملکت کی حکمران نہیں ہوسکتی۔ ماضی میں بھی ایسی مہم محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف چلائی گئی تھی۔

عورت کی حکمرانی کی مذمت کرنے والوں نے ضروری سمجھا کہ عورت کو برا اور بدکردار بھی ظاہر کیا جائے۔ ایک مذہبی پس منظر رکھنے والے رسالے نے بے نظیر کے ایک جلوس کی تصویر سرورق پر شائع کی جس میں وہ دونوں ہاتھ اٹھا کر تالیاں بجا رہی تھیں۔ اس تصویر کے نیچے سرخی لگائی گئی تھی "ٹھمکے پہ ٹھمکہ"۔ اسی زمانے میں ایک اور لفظ ہماری لغت میں شامل ہوا اور وہ تھا "سیکیورٹی رِسک" بے نظیر بھٹو سیکیورٹی رسک قرار پائیں۔ گویا اب وہ ملک دشمن بھی تھیں۔

بینظیر صاحبہ نے پارلیمینٹ میں صدر غلام اسحٰق خان کے خلاف"گو بابا گو" کے نعرے لگوا دئیے۔

ایک دوسرے کے خلاف طعن و تشنیع اور الزام تراشیوں کا یہ کلچر 2013 کے انتخابات کے بعد اور بھی مضبوط ہوا۔ اب تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان سیاست کے مرکزی دھارے میں نمودار ہوئے۔ عمران خان جو آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ ہیں اور جن کو مغربی دنیا کا بہت زیادہ exposure بھی حاصل ہے اُن سے توقع تھی کہ وہ ملک کے سیاسی کلچر کو غیر اخلاقی عوامل سے پاک کرنے کا کام کریں گے لیکن انہوں نے تو اس کلچر کو اور بھی بڑھاوا دے ڈالا۔ ایک پولیس افسر کو جس نے مبینہ طور پر دھرنے کے شرکاء کی پارلیمنٹ کی طرف پیش قدمی کو روکنے کی کوشش کی تھی، اسے دھمکی دی کہ وہ خود اپنے ہاتھ سے اس کو پھانسی دیں گے۔ اُس موقع پر اور 2018 میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد توانہوں نے غیر پارلیمانی زبان استعمال کرنے کو اپنی مستقل عادت بنا لیا۔ چور، ڈاکو، بھگوڑا، یہ الفاظ وہ زرداری اور نواز شریف کے لیے استعمال کرتے رہے۔

فضل الرحمن کو "ڈیزل" اور زرداری صاحب کو "بیماری" کہتے ہیں۔ برسرِ اقتدار آنے کے بعد تحریک انصاف اور اپوزیشن کی جماعتوں کے درمیان الفاظ، الزامات اور جوابی الزامات کی ایک جنگ مستقل جاری ہوئی۔ صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان اور اسی طرح ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان انتہائی قابلِ اعتراض زبان اپنی پریس کانفرنسوں اور ٹی وی کے پروگراموں میں استعمال کرتے رہے۔ ٹی وی چینلوں کے ناظرین کو شاید وہ پروگرام یاد ہو جس میں ڈاکٹر صاحبہ اور کشمالہ طارق الجھ پڑی تھیں اور پھر ڈاکٹر صاحبہ کے منہ سے وہ فقرے ادا ہوئے جو ادا نہ ہوتے تو بہتر ہوتا۔ ڈاکٹر صاحبہ نے پھر مریم نواز صاحبہ کے لیے مسلسل "راجکماری" اور ن لیگ کے خواتین کے لیے "کنیزیں" کے الفاظ استعمال کئیے۔ کارکنان کی جانب سے مریم کے ساتھ "گیراج" کا ذکر اس قدر معمول ہے کہ جماعت کا پروفیسر شہباز گل بھی عام کر لیتا ہے۔

مریم نواز نے بھی عمران خان اور بشری بی بی کی ذات پر حملے جاری رکھے۔ بشری بیبی کو جلسوں میں جادوگرنی کہا گیا۔ اس کے سوا نون لیگ نے ریحام خان کی کتاب کے توسط سے جوابی گھٹیا وار جاری رکھے۔ "زانی، نشئی، پوڈریا، ہومو سیکسوئل" جیسے القابات کا کھُلے عام استعمال کیا جاتا ہے۔

شیخ رشید نے بلاول کو "بلو رانی" کا خطاب دیا۔ جواب میں "تم بیغیرت ہو" کا جملہ بلاول کی زبان پر آ گیا۔

یہ ہماری سیاست کا مختصر خلاصہ ہے۔ ایسے عالم میں تو میں سمجھتا ہوں کہ ہر وہ شخص جو چاہے کسی بھی جماعت سے ہمدردی رکھتا ہو اگر اپنی زبان اور کمنٹس کے الفاظ صاف رکھ کر بات کر رہا ہے تو اس کی قدر کرو اور غنیمت جانو۔

Check Also

Bloom Taxonomy

By Imran Ismail