Fitrat Ki Shayari
فطرت کی شاعری
وادی کمراٹ خیبر پختونخواہ کے اپر دیر ضلع میں واقع ایک ایسی جگہ ہے جہاں قدرت نے اپنی تمام تر خوبصورتی کو سمیٹ دیا ہے۔ یہ وادی ہندوکش کی عظیم چوٹیوں کے دامن میں بسی ہے جو اپنے سرسبز جنگلوں، برف پوش پہاڑوں، چمکتی ہوئی ندیوں اور شاندار آبشاروں کے لیے مشہور ہے۔ جب آپ اس وادی میں قدم رکھتے ہیں، تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آپ کسی خواب میں داخل ہو گئے ہوں، جہاں ہر منظر، ہر آواز اور ہر خوشبو آپ کو مسحور کر دیتی ہے۔ صبح کے وقت، جب سورج کی کرنیں برف سے ڈھکی چوٹیوں پر پڑتی ہیں، تو یہ وادی سنہری رنگ میں نہا جاتی ہے اور جنگلی پھولوں سے بھرے میدانوں کی خوشبو ہوا میں رقص کرتی ہے۔ یہ ایک ایسی جنت ہے جہاں وقت ٹھہر جاتا ہے اور دل کو سکون ملتا ہے۔ بہار کے موسم میں تو یہ جنتِ ارضی اپنے عروج پر ہوتی ہے، جہاں پھولوں کی چادر اوڑھے پہاڑ، شفاف دریاؤں کی مسکراہٹیں اور جنگلوں کی پراسرار خاموشی آپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
اسلام آباد سے کمراٹ وادی کا فاصلہ تقریباً 370 کلومیٹر ہے، جو سڑک کے ذریعے 8 سے 9 گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ یہ سفر کوئی معمولی راستہ نہیں، بلکہ ایک شاعری ہے جو ہر موڑ پر نئے مصرعے باندھتی ہے۔ اسلام آباد سے ایم ون موٹر وے پہ سفر کی شروعات ہوتی ہے جو کرنل شیر خان انٹرچینج تک آپ کا ساتھ دیتی ہے۔ پھر ایم 16 سوات موٹر وے آپ کو چکدرہ کے قریب لاتی ہے اور این 45 روٹ سے گزرتے ہوئے دیر کا راستہ کھلتا ہے، جہاں سے کمراٹ کی طرف سفر ایک خواب بن جاتا ہے۔ شہروں کی ہنگامہ خیزی پیچھے چھوٹتی ہے اور پہاڑوں کی خاموشی آپ کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔ کبھی ہریالی سے بھرے کھیت نظروں کو بھاتے ہیں، کبھی بلند چوٹیاں دل کو مسحور کرتی ہیں اور یوں یہ سفر کمراٹ کی خوبصورتی کا پیش خیمہ بن جاتا ہے جو آپ کو اس جنت کی طرف کھینچتا چلا جاتا ہے
اس وادی کی تاریخ بھی اس کی خوبصورتی کی طرح دلفریب ہے۔ کبھی یہ جگہ صرف مقامی لوگوں اور چند نڈر سیاحوں کے لیے جانی جاتی تھی، مگر اب یہ دنیا بھر کے فطرت پرستوں کی توجہ کا مرکز بن چکی ہے۔ حالیہ برسوں میں، جب سے سڑکیں بہتر ہوئیں اور اس وادی کی شہرت پھیلی، یہ ایک ایسی جنت بن گئی ہے جہاں ہر من چلا آنا چاہتا ہے۔
کمراٹ وادی ایک ایسی کتاب ہے جس کے ہر صفحے پر فطرت کا نیا رنگ بکھرا ہے۔ یہاں کی ہر جگہ آپ کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے اور ہر منظر آپ کے دل میں اترتا چلا جاتا ہے۔ جہاز بانڈہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں زمین آسمان سے ملتی ہے۔ اس کے سرسبز میدان جنگلی پھولوں سے جگمگاتے ہیں، جیسے ستاروں نے زمین پر اپنا بسیرا کر لیا ہو۔ صبح کے وقت، جب دھوپ ان میدانوں پر سونے کی چادر بچھاتی ہے، تو یہ منظر کسی جادوئی کتاب سا لگتا ہے۔ یہاں کھڑے ہو کر آپ محسوس کریں گے کہ وقت رُک گیا ہے اور سکون آپ کے تن من میں سمایا جا رہا ہے، یہ ایک ایسا جادوئی میدان ہے جہاں زمین اور آسمان کا فرق مٹ جاتا ہے۔ یہاں کی گھاس کی ہری بھری چادر پر لیٹ کر اگر آپ آنکھیں بند کریں، تو شاید آپ کو بادلوں کے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سنائی دے۔ موسمِ بہار میں یہ میدان گلِ بنفشہ، لالہ اور کستوری پھولوں سے ایسے سجتا ہے جیسے فطرت نے رنگوں کی بارات بھیج دی ہو۔ مقامی چرواہے اپنی بھیڑوں کے ریوڑ لے کر گزرتے ہیں تو لگتا ہے جیسے زمانۂ قدیم کے قصے زندہ ہو گئے ہوں۔
کٹورہ جھیل، جو بلند چوٹیوں کے دامن میں چھپی ہے، ایک ایسی جھیل ہے جس کا پانی آسمان کو اپنے سینے میں سموئے ہوئے ہے۔ اس کا نیلا رنگ اتنا گہرا اور جادوئی ہے کہ لگتا ہے جیسے فطرت نے اپنی خوبصورت تصویر یہاں بنا دی ہو۔ پیدل سفر کرتے ہوئے اس جھیل تک پہنچنا ایک تپسیا ہے مگر یہاں پہنچنے پہ آپ کو پتہ چلے گا کہ سکوت یہاں کی زبان ہے اور ہوا اس کی آواز۔ کالا چشمہ کے مقام پہ پانی کی بل کھاتی لہریں چٹانوں سے ٹکراتی ہوئی ایسے گرتی ہیں جیسے کوئی دیوی اپنے بال بکھیر رہی ہو۔ آبشار کے نیچے بننے والی جھیل کا پانی اتنا شفاف ہوتا ہے کہ اس میں ڈوبتے سورج کی کرنیں پانی کی تہہ تک جگمگاتی نظر آتی ہیں۔۔ اگر آپ کے پاس وقت ہو تو شام کے سناٹے میں آبشار کی گونج سنیں، یہ آواز نہیں، فطرت کا مراقبہ لگتی ہے۔ یہاں کا دریا اپنی نیلی چادر میں سونے کی چمک سموئے ہوئے ہے۔ یہ دریا سوات کی وادیوں سے ہوتا ہوا یہاں تک پہنچتا ہے اور اس کی ریت میں سونے کے ذرّات ملتے ہیں۔ یہاں ریور رافٹنگ کا انتظام بھی ہے اور یہ ایک ایسا جوشیلا تجربہ جو آپ کو دریا کے سینے سے لگا کر اس کی دھڑکنوں سے آشنا کر دے گا۔
وادی کے دامن میں بکھرے کالامٹ اور کوزا بانڈہ جیسے گاؤں ایسے ہیں جیسے کسی نے وقت کی گھڑی کو روک دیا ہو۔ یہاں کے لکڑی کے بنے ہوئے گھر، جن کی بالکونیوں سے جنگلی پھول لٹک رہے ہوتے ہیں، قدیم فنِ تعمیر کی یاد دلاتے ہیں۔ کمراٹ کی راتیں دن سے بھی زیادہ دلکش ہیں۔ جب پہاڑوں پر چاند چڑھتا ہے، تو درختوں کے سائے زمین پر ناچتے نظر آتے ہیں۔ مقامی لوگ آگ کے گرد جمع ہو کر پشتو لوک گیت گاتے ہیں، جن کی دھنیں ہوا میں گھل کر روح تک اتر جاتی ہیں۔ اگر آپ خوش نصیب ہیں، تو کسی بزرگ کے منہ سے خٹک ڈانس کی داستان سنیں گے، ایک ایسی رقص کی رسم جو تلواروں کی جھنکار کے ساتھ شروع ہوتی ہے اور محبت کے نغموں پر ختم ہوتی ہے۔ رات گئے تک چائے کے کٹورے اور شہد کی مٹھاس کے ساتھ یہ محفلیں سجتی رہتی ہیں۔
کمراٹ کے قدیم دیودار کے جنگلوں میں ٹریکنگ ایک جادوئی تجربہ ہے۔ جب دھوپ پتوں سے چھن کر زمین پر سونے کی لکیریں کھینچتی ہے، تو لگتا ہے کہ فطرت نے اپنا خزانہ آپ کے سامنے کھول دیا ہو۔ کٹورہ جھیل تک کا پیدل سفر ہو یا بلند چوٹیوں کی سیر، ہر قدم آپ کو فطرت کے اسرار سے روشناس کرتا ہے۔ یہاں کی ہوا آپ کے پھیپھڑوں میں نئی زندگی بھرتی ہے اور ہر منظر آپ کے دل میں اترتا چلا جاتا ہے۔ رات کو کمراٹ کے آسمان کے نیچے کیمپ لگائیں، جہاں کہکشائیں آپ کے سر پر جگمگاتی ہیں۔ آگ کی چٹخنیں رات کی خاموشی کو توڑتی ہیں اور ستاروں کی چادر آپ کو اپنے سحر میں لپیٹ لیتی ہے۔ ندی کے کنارے کیمپنگ ہو یا جہاز بانڈہ کے میدانوں میں، یہ راتیں آپ کو فطرت کی گود میں سلا دیتی ہیں۔ مری زندگی کی اک حسین یاد، دریا کنارے الاؤ کے گرد اپنے پانچ دوستوں کے ہمراہ گپیں ہانکتے رات گزارنے کی ہے جو آج بھی یاد آئے تو دل خوشی سے جھوم اٹھتا ہے۔
کمراٹ وادی آپ کو محض سیاحت کے لیے نہیں، بلکہ خود کو تلاش کرنے کے لیے بلاتی ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں دنیا کی دوڑ دھوپ بھول جاتی ہے اور آپ فطرت کے ساتھ ایک ہو جاتے ہیں۔ یہاں کا سکون آپ کے زخموں کو بھرتا ہے، اس کی خوبصورتی آپ کے دل کو چھوتی ہے اور اس کی روح آپ میں نئی زندگی پھونکتی ہے۔ کمراٹ کی وادی اس بہار میں اپنے سینے پر لاکھوں پھول سجائے بیٹھی ہے۔ یہاں کی ہوا میں گندھے ہوئے جنگلی پھولوں کی خوشبو، پہاڑوں کی خاموش گفتگو اور دریا کی لہروں کی موسیقی، یہ سب مل کر آپ کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔ کمراٹ کو دیکھ کر لگتا ہے جیسے فطرت نے اپنا سب سے قیمتی خزانہ یہیں چھپا رکھا ہو۔ تو پھر انتظار کیسا؟ یہ وادی نہ صرف آپ کے قدم چومے گی، بلکہ آپ کے دل میں ایک ایسا گیت بھر دے گی جو ہمیشہ گونجتا رہے گا۔ چلئے، اس بہار میں کمراٹ کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں ورنہ وقت اسے بھی اک ارمان بنا کہ گزر جائے گا۔