2020 Ke Mukhtalif Roop (1)
2020 کے مختلف روپ (1)
بہت سارے لوگ یہ کہتے ہے یہ اچھا سال تھا وہ اچھا نہیں لیکن ایسا ہرگز صحیح نہیں۔ وقت ہمیشہ بہتر اور پاک ہوتا ہے۔ اللہ پاک کا فرمان ہے کہ وقت مجھ سے منسوب ہے لہذا اسے ہرگز برا نہ کہو۔ دنیا میں صرف تغیر یعنی تبدیلی کو دوام حاصل ہے۔ دنیا میں مختلف تبدلیاں رُونما ہوتی ہے اور یہ تخلیق کائینات سے چلتا آ رہا ہے۔ وقت اللہ کی نعمت بھی ہے اور آزمائیش بھی۔ وقت انسان کیلئے اور انسان وقت کیلئے نہیں، بلکہ دونوں اللہ کے حکم کے تابع ہے۔ انسان وقت سے عاجز بھی ہے اور عاجز بھی نہیں۔ اگر صیح معنوں میں تفکر کیا جائے۔ اللہ کے حکم کے بغیر وقت انسان کا نہ بگاڑ سکتا ہے نہ بنا سکتا ہے۔ ہاں مگر یہ اللہ ہی ہے جس نے وقت کو انسانی زندگی پہ غالب فرمایا ہے تاکہ اسے آزمائیں۔ اسلئے انسان وقت کا غُلام قرار پاتا ہے جو کہ ربّ کا ہی منشہ ہے۔
انسان وقت سے نہ آگے اور نہ پیچھے جاسکتا ہے غرض انسان وقت کی قید میں ہے ہاں جب اللہ چاہے۔ انسان سمجھتا ہے کہ وقت شاید چلاجاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ کو وقت کی نعمت سے دور کیا جاتا ہے۔ پھر بلا آپ نے اس میں کیا کچھ کیا ہاں مگر وہی کیا ہوگا جو ربّ کو آپ سے مقصود ہوتا۔ یہاں یہ بات غور کرنے کے لائق ہے کہ انسان خود کچھ بھی نہیں کرسکتا نہ نیکی نہ بدی ہاں جو اللہ چاہے وہی کرسکتا ہے۔ توفیق الہٰی کے ساتھ اور اس کیلئے اللہ آپ کو وقت جیسی نعمت عطا فرماتے ہیں۔ غرض وقت سے سبھی عاجز ہے۔ لیکن وقت خود عاجز ہے اللہ کے حکم سے اور بنا حکم الہٰی یہ انسان کو عاجز نہیں کرسکتا لیکن اکثر ناداں ہے اس بھید کو نہیں سمجھ پاتے۔
جہاں تک سال گزشتہ کا تعلق ہے یعنی 2020 بھی ہی وقت ہی ہے جسے بنی آدم اپنے نظریے سے مختلف صورت میں دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں۔ اس بات سے چونکہ کائنات کا ذرہ تک بھی ناواقف نہیں کہ سال گزشتہ نے اس دنیا کو کیسے رنگ دکھائے۔ ہر ایک شے کیلئے یہ سال مختلف اور منفرد تھا اور پھر اول و آخر کائینات کے مالک کا بھی اپنا منشہ اور مقصد تھا۔ جہاں تک لوگوں کی اس بات کا تعلق ہے کہ کونسا سال ان کیلئے غم اور کونسا خوشی کا ہے۔ شاید یہ سال منفرد بھی تھا اور منفرد بھی نہیں۔ کیوں کہ روزِ اول سے ہی ہر وقت ہر لمہے بنی آدم اچھے اور بُرے، خوشی اور غم کا مزا چکھتا آرہا ہے۔ ہر سال میں امواتیں بھی ہوتی ہیں۔ جن کو وقت معینہ برابر ہوتا وہ اس عارضی دنیا سے کوچ کرجاتے ہیں اور جنہیں اس فانی دنیا پہ اللہ کو لانا مقصود ہوتا یے وہ جنم لیتے ہیں۔ اس سال بھی یہی موت اور حیات کا ہی سلسلہ چلا نہ کہ اس سے مختلف۔ وجوہاتِ موت پہ اگر انسان سوچتا ہے، وجہ تو موت کا کبھی خوشی دینے والا نہیں ہوتا۔ چاہے کوئی مرض سے مرے یا تندرست ہوکر یا اچانک کسی حادثے کے بغیر لیکن انجام تو جدائی اور غم ہی ہوتا ہے۔ اور پھر مرنے والا کس موسم میں مرے سرد ہو یا گرم، دنیاوی حالات کیسے ہوں جانے والے کی منزل صرف موت ہی ہوتی ہے اور حالات کا اس میں کوئی تعلق نہیں۔ جہاں تک انسانی جنم کا تعلق ہے آج تک دنیاوی نظر و فکر کے مالک اس انسان نے کبھی وجہ جاننے کی کوشش نہ کی اور وہ فقط اسے خوشی کہتا ہے اور کچھ بھی نہیں۔
پھر بلا موت کے اَمر میں ایسا کیوں نہیں۔ غرض اس پوری دلیل کا مدعا یہ ہے کہ سال گزشتہ پورے روئے زمین کیلئے لوگوں کی نظر سے غمناک اور قیامت خیز سال تھا۔ کیوں کہ پورے عالم کو اللہ کی ایک چھوٹی ذرہ نما مخلوق یعنی کرونا وائرس نے عاجز کیا اور اپنے لپیٹ میں لیا اور یہ انسانی نظروں سے چین کے شہر وُہان میں جنم لیا اور پھر پوری دنیا پہ چھاگیا اور حکمران سے لے کر ایک آم آدمی تک پہنچ گیا۔ دنیا کی مغرور طاقتیں جنہیں اپنے دنیاوی بالادستی اور عروج پہ ناز تھا سب اسکے سامنے بے بس ہوکر رہ گئی۔ اور اُن کی ابھی تک کچھ بھی نہیں چلی اور بلا چلتا بھی کیسے یہ مخلوق کی جنگ تھوڑی تھی بلکہ کائینات کے ربّ کا منشہ جو اک ذرے سے مغرور انسان کو اپنا ظہور دکھاتا ہے۔ سال گزشتہ چونکہ اب کرونا کا سال ہی کہلاسکتا ہے۔
سال گزشتہ میں لاکھوں میں امواتیں ہوئی۔ تقریبا کسی نے ماں، کسی نے باپ، کسی نے بہن اور کسی نے بیٹا غرض کئی ساروں نے اپنے پیاروں کو کھویا اور کسی نے خود کو کھودیا۔ غرض اُن کیلئے یہ سال غمناک قرار پایا۔ اب جبکہ جسے دہائیاں ہوئی دیکھتے ہوئے اپنوں کو بے گناہ مرتے ہوئے، قیدوں میں بند ہوتے ہوئے ظُلم و ستم میں پستے ہوئے اور بھوک سے مرتے ہوئے جنہوں نے بنا کسی مرض کے بلکہ تندرست اور جواں ہوکے بھی کھودیے جو کسی کے اکلوتے بیٹے اور اور کسی کے اکلوتے بھائی تھے۔ جنہوں نے غربت جیلتے ہوئے عمریں گزار دی۔ انہیں کیا بلا ہم سالوں میں فرق سکھائے اُن کیلئے تو ہر ایک سال اندھیرا اور قید خانہ ہے۔
یہ صحیح ہے کہ کرونا پورے عالم کو موت کے رقس میں آ لپیٹا۔ معاشیت بالکل پامال ہوئی، غربت آسماں چھوگئی، تعلیمی نظام درہم برہم ہوکر رہ گیا، غرض زندگی کا ہر پہلو بری طرح سے متاثر ہوا۔ قیامت کے منظر سے کم نہیں تھا۔ ماں بیٹے سے دور بھاگی اور بیٹا ماں سے۔ غرض جو کل تک اک دوسرے کیلئے جان دینے تک کو راضی تھے آج سبھی انکار اور ندارد۔ سبھی کو اک دوسرے میں موت کے فرشتے معلوم ہوتے تھے۔ ایک چھینک جسے کل تک ہم کوئی معمولی سمجھتے تھے آج یہ موت کی علامت بن گئی۔ بیٹے نے اپنے باپ کے جنازے کو کندہ دینے سے انکار کیا اور باپ نے بیٹے کے جنازے کو۔ ہر طرف نفسی نفسی کا عالم دیکھائی دینے لگا۔ غرض ایسی تبدیلیاں دیکھنے کو ملی جسے کل تک ہم خوابوں میں بھی سوچ نہیں سکتے تھے اور انسانی عقل اس سے بالکل نامحرم تھی۔
غرض جس سمت بھی دیکھیں اور سوچیں سال گزشتہ تاریک تر دیکھنے کو ملا۔ لیکن اس قیامت کے باوجود یہ سال ہمارے لیے چراغ کے مانند کچھ سبق دے کے چلاگیا۔
نتیجہ پھر وہی ہوگا سنا ہے سال بدلے گا
پرندے پھر وہی ہونگے شکاری جال بدلے گا
بدلناہےتو دن بدلو بدلتے کیوں ہو ہندسے کو
مہینے پھر وہی ہونگے سنا ہے سال بدلے گا
وہی حاکم وہی غربت وہی قاتل وہی ظالم
بتاؤ کتنے سالوں میں ہمارا حال بدلے گا؟
طبعی اور صحت کے آئینے میں جب سال 2020 کو دیکھا جائے تو یہ سال محاسبہ اور حقائق کو آشکار کرنے کا سال معلوم ہوتا ہے۔ دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں ایسے امتحان اور فلٹر پیپر میں آگئی کہ پتا چلا کہ کون صحت کے معاملے میں آگے ہیں اور کون پیچھے۔ کل تک جو چاند پہ قدم رکھنے والے کہلاتے تھے اور ایٹم بم کے وارث اور موجد تھے صحت کے معاملے میں ان کی بے بسی روزِ روشن کی طرح عیاں ہوکر رہ گئی۔ جہاں پہ صحت کے اداروں کیلئے بڑی آزمائیش پیش آئی اور کئی سارے عظیم لوگ اپنی صلاحیتیں دکھاتے ہوئے داغِ مفارقت دے گئے وہیں صحت کے نظام کو درست کرنے کی ضرورت سب سے بھاری رہی۔ جو قومیں جوہری اور فوجی طاقت کو ہی بڑا طاقت سمجھتے تھے اور انسانی جانوں کو بموں سے لینا کمال سمجھتے تھے آج خود موت کے رقص میں آ پھنسے اور زندگی کی بھیک مانگنے لگے اور اب انسانی صحت اور فلاہ پہ سوچنے اور کام کرنے پہ مجبور ہوئے۔ سال 2020 پوری دنیا کی طاقتوں کو یہ پیغام دے گیا اور ثابت کرگیا کہ صحت کا نظام کتنا ضروری اور ناگزیر ہے اور حکمرانوں کو سمجھا دیا کہ آیا پہلے انسانی بہبود ضروری ہے یا جنگ و جدل کے مقابلوں میں مسروف عمل رہنا۔ لیکن یہاں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کچھ طاقتیں ایسی بھی دیکھنے کو ملی جو اس نازک وقت میں بھی انسانی جانوں کو بچانے سے زیادہ انسانی جانوں کو لینے میں مسروف رہے اور اپنی کم ظرفی اور عداوت کے خمار میں دنیا کے امن کو بگاڑنے میں پیش پیش رہے۔ (جاری)