Friday, 20 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sheraz Ishfaq
  4. Bohran Zada Qaum

Bohran Zada Qaum

بحران زدہ قوم

پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال ایک کشمکش کی عکاسی کرتی ہے جہاں فوج سیاستدانوں، اور نوجوانوں کے درمیان جاری جنگ نے ملک کو ایک سنگین بحران میں مبتلا کر رکھا ہے۔ یہ بحران پاکستان کی 75 سالہ تاریخ کی تلخ حقیقتوں کا نتیجہ ہے، جس میں اقتدار کی جنگ نے عوام کے مفادات کو نقصان پہنچایا ہے۔ آج کی صورتحال میں عوام کی آزادی، انصاف اور عدلیہ کی خودمختاری کو نظرانداز کیا جا رہا ہے، اور طاقتور حلقے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہر حد پار کرنے کو تیار ہیں۔

پاکستان میں فوج کا سیاسی کردار ہمیشہ سے متنازع رہا ہے۔ 75 سالوں کے دوران ملک نے متعدد فوجی بغاوتیں دیکھیں جنہوں نے جمہوریت کے فروغ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔ فوج نے ہر بحران کے وقت اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا، اور سیاستدانوں نے اپنی اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے فوج کا سہارا لیا۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، اور موجودہ سیاسی بحران میں فوج کے کردار پر عوام کے سوالات مزید شدت اختیار کر گئے ہیں۔ عوام کی نظر میں فوج کی سیاسی مداخلت اور اس کے نتیجے میں جمہوریت کی کمزوری ایک اہم مسئلہ بن چکی ہے۔

موجودہ حکومت اور سیاسی جماعتیں عوامی مفاد کی بجائے اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے آپس میں اتحادی ہیں۔ یہ اتحاد بظاہر ملک کی بہتری کے نام پر کیا گیا ہے، لیکن اس کے پیچھے چھپے مقاصد کچھ اور ہیں۔ یہ اتحاد عوام کے حقوق کی حفاظت کرنے کے بجائے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ سیاستدانوں کے اس اتحاد نے عوام کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا ہے، کیونکہ عوام کو اب یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ ان کے مسائل کا حل موجودہ حکومت کے سیاستدانوں کے ہاتھوں میں نہیں جنہوں نے ہمیشہ اپنے مفادات کو ترجیح دی۔

ایک اہم پہلو جو موجودہ سیاسی بحران کو مزید پیچیدہ بنا رہا ہے، وہ ہے سوشل میڈیا کا کردار۔ سوشل میڈیا حالیہ چند سالوں میں عوامی اظہار کا ایک طاقتور ذریعہ بن چکا ہے جہاں نوجوان طبقہ اپنی آواز بلند کرتا ہے۔ یہ نوجوان اپنی ناگواری اور احتجاج کو سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلا رہے ہیں، جہاں وہ حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں، فوجی مداخلت کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے احتجاج کرتے ہیں۔ لیکن حکومت اور سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا پر سرگرم ان نوجوانوں کی آواز کو دبانے کے لیے طاقت کا استعمال کر رہی ہیں۔

سوشل میڈیا پر سرگرم نوجوانوں کو حکومت کی جانب سے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ ان کی پوسٹس اور ویڈیوز کو حذف کیا جا رہا ہے، ان کے اکاؤنٹس کو معطل کیا جا رہا ہے، اور ان کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔ بعض معاملات میں، ان نوجوانوں کو گرفتاریوں کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے، اور ان کے خاندانوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ حکومت کی غلط پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں کو خاموش کرایا جا سکے۔

حکومت نے مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر قدغنیں لگا کر آزادیٔ اظہار کو محدود کر دیا ہے، اور سوشل میڈیا صارفین کے خلاف کریک ڈاؤن کی پالیسی اختیار کی ہے۔ سوشل میڈیا پر نوجوانوں کی بیداری اور احتجاج نے حکومت کو پریشان کر دیا ہے۔ لیکن یہ کوششیں ناکام ہو رہی ہیں۔ نوجوانوں کا احتجاج زور پکڑ رہا ہے، اور ان کے مطالبات میں شفاف انتخابات، عدلیہ کی آزادی، اور فوج کا سیاسی کردار ختم کرنے کی بات شامل ہے۔ لیکن حکومت اور سیاسی جماعتیں اس احتجاج کو سننے کے بجائے اسے دبانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

اس صورتحال میں بنگلہ دیش کی مثال ہمارے سامنے ہے، جہاں حالیہ طلبہ کی تحریک نے حکومت کو ہلا کر رکھا۔ بنگلہ دیش میں طلبہ نے کوٹہ سسٹم کے خلاف منظم احتجاج کیا، جس میں سرکاری ملازمتوں کے لیے مخصوص کوٹہ کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس تحریک نے شدت اختیار کر لی اور عوامی دباؤ کے تحت وزیر اعظم کو طلبہ کے مطالبات کے سامنے جھکنا پڑا۔ بالآخر، کوٹہ سسٹم کو جزوی طور پر ختم کرنا پڑا۔ اس واقعے نے یہ ثابت کیا کہ جب نوجوان طبقہ متحد ہو کر اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتا ہے تو وہ حکومتوں کو جھکنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ بنگلہ دیشی طلبہ کی اس تحریک نے پاکستانی نوجوانوں کے لیے ایک مثال قائم کی ہے کہ وہ بھی اپنے حقوق کے لیے متحد ہو کر جدوجہد کریں۔

موجودہ سیاسی بحران میں عدلیہ کا کردار بھی مشکوک نظر آتا ہے۔ عدل و انصاف کے نظام میں جانبداری اور سیاسی دباؤ کا عمل دخل بڑھ چکا ہے، جس کے باعث عوام کا عدلیہ پر اعتماد متزلزل ہو چکا ہے۔ عدلیہ پر یہ الزامات عائد کیے جا رہے ہیں کہ وہ طاقتور حلقوں کے دباؤ میں آکر فیصلے کر رہی ہے۔ سیاسی رہنماؤں اور فوجی عہدے داروں کے خلاف کیسز کو طول دیا جاتا ہے، جبکہ عام شہریوں کو فوری انصاف فراہم نہیں کیا جاتا۔ یہ صورتحال عدلیہ کے کردار کو متنازع بنا رہی ہے، اور عوام میں یہ تاثر مضبوط ہو رہا ہے کہ انصاف کا ترازو اب صرف طاقتوروں کے حق میں جھکتا ہے۔

پاکستان کے عوام نے ہمیشہ جمہوریت اور عدلیہ پر اعتماد کیا ہے، لیکن موجودہ حالات میں عوام کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں ان کی آواز کی کوئی اہمیت نہیں ہے، جہاں ان کے حقوق کا تحفظ کرنے والے ادارے خود اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

یہ کہانی صرف ایک ملک کی نہیں بلکہ ایک ایسے معاشرے کی ہے جو اقتدار کی ہوس ناانصافی، اور آزادیٔ اظہار کے خلاف جبر کا شکار ہو چکا ہے۔ عوام کو اس بات کی فکر ہے کہ کیا وہ کبھی اپنے حقوق حاصل کر سکیں گے؟ کیا ملک میں حقیقی جمہوریت قائم ہو سکے گی؟ کیا عدلیہ آزاد ہو سکے گی؟ یا پھر یہ سیاسی کھیل اسی طرح جاری رہے گا؟ ان سوالات کا جواب ابھی دینا مشکل ہے، لیکن ایک بات طے ہے کہ پاکستان کے عوام کو اپنی جدوجہد جاری رکھنی ہوگی تاکہ وہ اپنے حقوق کی حفاظت کر سکیں۔

پاکستانی سیاست کا بحران ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہم نے اپنے ملک کو کس سمت میں لے جا رہے ہیں۔ کیا ہم اپنے ملک کی ترقی کے لیے متحد ہو سکتے ہیں؟ یا پھر یہ سیاسی جنگ یونہی جاری رہے گی؟ پاکستان کے عوام کو اس بحران سے نکلنے کے لیے ایک مضبوط اور فیصلہ کن اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے، تاکہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے، اور عوام کو ان کے جمہوری حقوق مل سکیں۔

Check Also

Liaqat Ali Ki Fasoon Sazi

By Ilyas Kabeer