Tuesday, 11 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Ahmad Qazi
  4. Falasteen Israel Tanaza (9)

Falasteen Israel Tanaza (9)

فلسطین اسرائیل تنازعہ (9)

ڈیڑھ سال سے جاری فلسطین اسرائیل تنازعہ اور اسرائیلی وحشیانہ کاروائیوں میں وقفہ آیا اور بقول نو منتخب امریکی صدر کے انھوں نے دونوں ملکوں کے درمیان معاہدہ کروایا۔ اس تنازعہ کی وجہ سے انسانی بحران دنیا کا بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ میں جب بھی فلسطین اسرائیل کی بات کرتا ہوں تو جنگ کا لفظ استعمال نہیں کرتا کیونکہ میرے مطابق اسرائیلی بربریت جبکہ جنگ دونوں فریقین کی طرف سے لڑی جاتی ہے۔ بعض جگہ پر تحریری لفاظی کی پابندیوں کی وجہ سے "جنگ" کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس حالیہ وقفے کو عالمی سطح پر اچھا اقدام کہا جا رہا ہے اور امید ہے یہ تنازعہ کے حل کے لئے مثبت ثابت ہوگا۔ اس خون ریز تنازعہ میں ہزاروں بےگناہ جانوں کا ضیاع ہو چکا ہے۔ مگر افسوس کہ بہت دیر بعد اس طرف توجہ دی گئی۔ اس دوران مسلم ممالک کا کردار بھی سامنے آیا اور مسلم حکمران بس گفتار کے غازی بنے رہے۔

اب بھی وقت ہے کہ مسلم ممالک اپنا کردار ادا کریں اور دو ریاستی حل کی طرف بڑھیں تاکہ فلسطینی عوام بھی سکون اور امن سے رہ سکیں۔ پچھلے 75 سالوں میں فریقین اس مسئلے کو حل نہیں کر سکے اور اسرائیل اپنے وحشیانہ و خونی ریز کاروائیوں کی وجہ سے 85 فیصد فلسطینی علاقے پر قبضہ کر چکا ہے۔ اس دوران حقوقِ انسانی کی تنظیمیں بھی خاموش تماشائی بنی رہیں۔ مختلف جگہوں پر علامتی مزمتی جلسے جلوس نکلتے رہے مگر سب بیکار رہے کہ وہ اسرائیل کو ظالمانہ کاروائیوں سے نہ روک سکے کیونکہ ایسے جلسے جلوسوں کو ملکی سطح پر کسی بھی مسلم ملک کی حکومتی پالسی نظر نہ آئ۔ مسلم ممالک کے لئے یہ لمحہِ فکریہ ہے۔ بقول شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال:

گونگی ہوگئی آج کچھ زبان کہتے کہتے
ہچکچا گیا میں خود کو مسلماں کہتے کہتے

اسلامی ممالک کی خاموشی کی وجہ سے اسرائیل دلیر ہوتا گیا اور عالمی قوانین کی خلاف ورزیاں کرکے انسانی حقوق کو پامال کرتا رہا۔ اسرائیلی افواج کی بمباری کی وجہ سے معصوم بچے شہید ہوئے، اسکول، ہسپتال اور رہائشی علاقوں کو نشانہ بناتا رہا۔ اب جو لوگ اپنے گھروں کو واپس لوٹے ہیں وہ اپنے مکانات کو ملبے کا ڈھیر دیکھ کر پریشانی سے دوچار ہیں۔ اس کے علاوہ کھانے پینے کی اشیاء کی قلت بھی بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں تباع ہو چکی ہیں جن کی دوبارہ جلد بحالی بہت ضروری ہے۔

غزہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے جہاں بنیادی خدمات کا نظام مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے مگر زندگی آہستہ آہستہ لوٹ رہی ہے۔ انسانی امداد فوری طور پر پہنچائی جارہی ہے لیکن غزہ کی تعمیر نو کے لیے بڑے پیمانے پر انسانی اور بحالی کی کوششوں کی ضرورت ہوگی جبکہ وسائل اور دیرپا امن کے بغیر غزہ کی بحالی ممکن نہیں۔ غزہ میں فلسطینی اپنے تباہ حال گھروں کی جانب واپس آرہے ہیں تو اب نقصانات واضح ہورہے ہیں۔ مسمار عمارتوں کے ملبے تلے مزید شہدا کی لاشیں برآمد ہورہی ہیں۔ 15 ماہ کی جنگ میں 47 ہزار افراد شہید ہوئے جبکہ اب شہدا کی تعداد میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔

مختلف ممالک کے حکومتی عہدداروں نے بھی بیابات دیے ہیں۔ فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے کہا کہ "ایک سیاسی حل ضرور آنا چاہیے"، انہوں نے گزشتہ 15ماہ کے تنازعے کو "غیر منصفانہ آزمائش" قرار دیا۔ آئرلینڈ کے وزیر اعظم سائمن ہیرس، جو یورپ میں اسرائیل کے سخت ترین ناقدین میں سے ایک ہیں، نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو "غزہ میں استحکام اور نظم و نسق لانے کے لیے نئی فلسطینی اتھارٹی" کی حمایت کرنی چاہیے۔ جرمن چانسلر اولاف شولس کے مطابق غزہ کی جنگ بندی کے بعد اب وقت آ چکا ہے کہ غزہ پٹی کے مستقبل کی منصوبہ بندی کی جائے۔ ان کے بقول غزہ پٹی کے سیاسی اور اقتصادی مستقبل کی تشکیل کے لیے واضح پیش رفت ضروری ہو چکی ہے۔

جنگ بندی کے معاہدے کی شرائط کے تحت اسرائیل کو غزہ سے اپنی فوجیں واپس بلانی ہوں گی اور ابتدائی چھ ہفتوں کے دوران فلسطینیوں کی شمالی حصے میں لوٹنے کی اجازت دینا ہوگی۔ اس دوران کچھ یرغمالوں کو رہا کیا جائے گا۔ جنگ بندی کے 16 ویں دن سے فریقین کو جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کی بات چیت کرنی ہوگی جس میں مستقل جنگ بندی اور اسرائیلی فوجیوں کا مکمل انخلا شامل ہے۔ تیسرے مرحلے میں توجہ تعمیر نو پر مرکوز ہوگی جس پر اربوں ڈالر لاگت آئے گی اور برسوں تک جاری رہے گی۔ اسرائیلی وزیر خارجہ گڈن سار نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر غزہ کی پٹی میں حماس برسر اقتدار رہتی ہے تو دونوں اطراف میں امن، استحکام اور سیکیورٹی نہیں ہوگی۔

تمام ممالک اور خاص کر اسلامی ممالک کو سیاسی و سفارتی سطح پر ملُکر فلسطین اسرائیل تنازعہ کو مکمل طور پر حل کرنا چاہیے۔ اس وقت یہ حقیقی معنوں میں ضروری ہے کہ آگے بڑھا جائے۔ غزہ کی پٹی میں تعمیر نو کرکے اس کی بحالی کی جائے۔ لیکن طویل مدتی معنوں میں دیکھا جائے تو ضروری ہے کہ اصل مسئلے کو حل کیا جائے اور اس محاصرے و قبضے کو ختم کیا جائے جس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ فی الحال مشرقِ وسطیٰ کا امن بے یقینی کا شکار ہے۔ مغربی کنارے کے الحاق کی اسرائیل کی کوئی بھی کوشش معاہدے کو توڑ سکتی ہے۔ اسی طرح اگر اسرائیل جنگ بندی معاہدے کی شرائط سے پیچھے ہٹتا ہے تو دوبارہ جنگ چِھڑ سکتی ہے۔ آج مسلمانوں کو متحد ہونے کی ضرورت ہے تاکہ عظمتِ رفتہ کو برقرار رکھ کراپنا کھویا ہوا مقام واپس لا سکیں۔ بقولِ علامہ اقبال:

آج بھی ہو جو براہیمؑ کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گُلستاں پیدا

Check Also

Adab Ka Haqeer Sa Talib Ilm

By Mubashir Ali Zaidi