Tuesday, 11 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sardar Shokuat Iqbal
  4. Asaab Ki Jang (2)

Asaab Ki Jang (2)

اعصاب کی جنگ (2)

"یہ اعصاب کی جنگ ہے اور میں اس کا ماہر ہوں" یہ جملہ جب عمران خان کہہ رہا تھا تو مجھ سمیت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کے عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنے والا یہ شخص کیا کر گزرے گا۔ مخالفین تو چند دنوں سے گھنٹوں کا کھیل سمجھ رہے تھے بلاشبہ خود عمران خان کی سیاسی زندگی کا سب سے مشکل اور آزمائش بھرا دور وہ تھا جب انہیں وزیراعظم کے عہدے سے برطرفی کے بعد ایک ایسی جنگ لڑنی پڑی جس میں عدالتوں، جیل کی سلاخوں، ریاستی مشینری اور سیاسی مخالفین کے ہمہ جہت حملوں کا سامنا تھا۔

یہ وہ وقت تھا جب ان کے لیے نہ صرف اقتدار کے دروازے بند ہوئے بلکہ انہیں اپنی سیاسی جماعت، ذاتی آزادی اور یہاں تک کہ بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے بھی جدوجہد کرنی پڑی۔ اپریل 2022 میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ان کی حکومت کے خاتمے کو انہوں نے بیرونی سازش قرار دیا۔ یہ بیان ان کی آئندہ سیاست کا مرکزی نکتہ بن گیا۔ ان کا اصرار تھا کہ یہ اقدام پاکستان کی خودمختاری کے خلاف ایک منصوبہ بند عمل تھا جس میں ملکی اور غیرملکی عناصر شامل تھے۔ اس واقعے کے بعد عمران خان نے عوامی رابطے کا وہ طریقہ اختیار کیا جو ان کی پہچان بن چکا تھا۔ وہ براہ راست عوام سے بات کرتے، سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے پیغامات پہنچاتے اور ہر فورم پر اپنی آواز بلند کرتے رہے۔

ان کے اس موقف نے نوجوان نسل کو خاص طور پر متاثر کیا۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ ان کے احتجاجی مظاہروں میں شامل ہوئے جن میں آزادی مارچ نمایاں تھا۔ یہ مظاہرے نہ صرف سیاسی اجتماعات تھے بلکہ ایک ایسی تحریک کی شکل اختیار کر گئے تھے جس میں معاشرے کے مختلف طبقات نے شرکت کی۔ کسانوں، مزدوروں، طلبہ، پیشہ ور افراد اور خواتین کی بڑی تعداد نے ان احتجاجوں کو ایک سماجی تحریک کا روپ دیا۔ ان اجتماعات میں عمران خان کا خطاب ہمیشہ دو نکات پر مرکوز ہوتا۔ بیرونی مداخلت کے خلاف مزاحمت اور ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ نظام عوام کی آواز کو دباتا ہے اور طاقت کے مخصوص مراکز کو تقویت دیتا ہے۔

اس دوران ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔ پہلے ہی توشہ خانہ کیس، الیکشن کمیشن کیس اور مالی بدعنوانی کے الزامات موجود تھے لیکن اب ان میں اضافہ ہوتا گیا۔ ہر نیا کیس ان کے لیے ایک نئی رکاوٹ بن کر سامنے آیا۔ کوئی دو سو کے قریب بوگس آیف آئی آر کاٹی گئی انہیں عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑے، وارنٹوں سے نمٹنا پڑا اور کئی بار گرفتاری کے عمل سے گزرنا پڑا۔ ان کی ہر گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پرتشدد احتجاجی مظاہرے ہوتے جن میں پہلے سے زیادہ شدت آتی گئی ریاستی ردعمل سخت ہوتا، جس کے نتیجے میں سیکڑوں کارکنوں کی گرفتاریاں عمل میں آتیں۔ یہ ایک ایسا چکر بن گیا جہاں ہر قانونی کارروائی پر عوامی ردعمل اور اس پر ریاستی دباؤ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہا۔

مئی 2023 میں جب انہیں پہلی بار گرفتار کیا گیا تو ملک میں سیاسی بحران نے انتہائی سنگین شکل اختیار کر لی۔ ان کی جماعت کے کارکنوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر جمع ہو کر شدید احتجاج کیا جس پر بدترین ریاستی تشدد ہوا جس کے بعد فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کی بات سامنے آئی۔ یہ واقعہ عمران خان اور فوجی قیادت کے درمیان کشمکش کے نئے باب کا آغاز تھا۔ اس کے بعد سے ان پر مختلف دفعات میں درجنوں مقدمات قائم کیے گئے جن میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل تھیں۔ ہر کیس کے پیچھے ایک الگ کہانی تھی، لیکن نتیجہ ایک ہی نکلتا عدالتوں کے چکر، ضمانت کی سماعتیں اور عوامی حمایت میں اضافہ۔

اگست 2023 میں توشہ خانہ کیس میں سزا نے ان کی جدوجہد کو ایک نئی جہت دی۔ اس فیصلے کے بعد انہیں انتخابات میں حصہ لینے کے نااہل قرار دے دیا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب ان کی جماعت کو نہ صرف قیادت کے بحران کا سامنا تھا بلکہ اس کے اندر سے بھی اختلافات کی آوازیں اٹھنے لگی تھیں۔ کئی رہنماوں نے جماعت چھوڑ دی یا خاموشی اختیار کر لی۔ ان حالات میں عمران خان نے جیل سے ہی اپنی رہنمائی جاری رکھی۔ وہ وکیلوں کے ذریعے پیغامات بھیجتے، عدالت میں پیشی کے موقعے پر میڈیا سے بات کرتے اور اپنے حامیوں کو متحرک رکھنے کی کوشش کرتے۔ الیکشن کمیشن کے متنازعہ فیصلے کے تحت تحریک انصاف کو ختم کیا گیا انتخابی نشان چھین لیا گیا اُمیدواروں کو اغواء کیا گیا، کاغزات چھینے گئے انتخابی عمل کو مکمل مینج کیا گیا۔

جیل میں ان کی زندگی کے حالات خود ایک داستان ہیں۔ اڈیالہ جیل کی تنہائی نے انہیں جسمانی طور پر تو محدود کر دیا لیکن ان کے فکری اثر کو روک نہ سکی۔ انہوں نے قید کے دوران لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا، خطوط کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کیا، جیل میں بیٹھ کر بین الاقوامی میڈیا کو انٹرویو دئیے کالم لکھے اور رجیم کو بے نقاب کیا جس سے یہ بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئے عمران خان پر مذید سختی شروع کر دی۔ ان کی صحت کے مسائل نے صورتحال کو مزید گمبھیر بنایا۔ کمر اور گھٹنے کے دائمی درد کے باوجود انہیں بنیادی سہولیات تک محدود رسائی حاصل تھی۔ طبی علاج کی فراہمی کو لے کر ان کے حامیوں اور حکومت کے درمیان تنازعات پیدا ہوتے رہے کہ عمران خان کی شخصیت اب ایک فرد سے بڑھ کر ایک علامت بن چکی تھی۔ وہ نظام کے خلاف ایک عام آدمی کی جدوجہد کے استعارے کے طور پر پیش کیے جانے لگے۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ عمران خان کی اس دور کی حکمت عملی میں کئی سطحیں تھیں۔ ایک طرف وہ عدالتوں کے ذریعے اپنی بریت چاہتے تھے، دوسری طرف عوامی دباؤ بڑھا کر ریاستی اداروں کو مجبور کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کی داخلی صورتحال کو اٹھانے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں بعض مغربی ممالک کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ تاہم، ان کی اس پالیسی کو ملک دشمنی کے طور پر بھی پیش کیا گیا اور ان پر قومی مفادات کو نقصان پہنچانے کے الزامات عائد کیے گئے۔

ان تمام تر مشکلات کے باوجود عمران خان کی سیاسی بصیرت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ انہوں نے اپنے خطابات میں معیشت کی بحالی، عدالتی اصلاحات اور خارجہ پالیسی میں توازن جیسے مسائل کو اجاگر کرنا جاری رکھا۔ ان کا اصرار تھا کہ موجودہ نظام عوامی مرضی کے بغیر چل رہا ہے اور اس میں تبدیلی ناگزیر ہے۔ ان کی یہ بات خاص طور پر نوجوانوں میں گہرا اثر رکھتی تھی جو ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور سماجی ناانصافی سے تنگ تھے۔

عمران خان کی قید کے دوران پی ٹی آئی کو جو سب سے بڑا چیلنج درپیش تھا وہ تنظیمی ڈھانچے کو برقرار رکھنا تھا۔ جماعت کے بہت سے رہنماوں کو گرفتار کر لیا گیا، کچھ نے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کی، جبکہ بعض نے علانیہ طور پر جماعت چھوڑ دی۔ ان حالات میں عمران خان نے جیل سے ہی پارٹی کی قیادت کرنے کی کوشش کی۔ وہ وکیلوں کے ذریعے ہدایات جاری کرتے، خفیہ خطوط بھیجتے اور یہاں تک کہ بعض اہم فیصلوں میں براہ راست شامل ہوتے۔ ان کی یہ کوششیں کسی حد تک کامیاب رہیں کیونکہ پی ٹی آئی کا بنیادی کارکن طبقہ ابھی تک متحرک تھا۔

عدالتی کارروائیوں کے تناظر میں ایک اہم موڑ وہ تھا جب سائفر کیس میں ان پر غداری کے الزامات عائد کیے گئے۔ یہ کیس ایک ڈپلومیٹک دستاویز کے غلط استعمال سے متعلق تھا جسے عمران خان نے اپنی حکومت کے خلاف سازش کا ثبوت قرار دیا تھا۔ اس مقدمے نے نہ صرف ان کی سیاسی بلکہ ذاتی آزادی کو بھی خطرے میں ڈال دیا کیونکہ اس میں سخت سزائیں تجویز کی گئی تھیں۔ اس دوران ان کے وکلاء نے جو دفاعی حکمت عملی اپنائی وہ قانونی تاریخ کا ایک دلچسپ باب ہے۔ انہوں نے آئین کے مختلف دفعات، بین الاقوامی قوانین اور سابقہ عدالتی فیصلوں کو استعمال کرتے ہوئے ایک پیچیدہ مگر مضبوط کیس پیش کیا۔

عمران خان کی جدوجہد کا ایک اہم پہلو میڈیا کے ساتھ ان کا تعلق تھا۔ ریاستی میڈیا نے ان کے خلاف مہم چلائی جبکہ پرائیویٹ چینلز پر ان کی کوریج بتدریج کم ہوتی گئی۔ اس صورتحال میں سوشل میڈیا ان کا اہم ہتھیار بنا۔ ان کے حامیوں نے ٹک ٹاک، ٹویٹر اور فیس بک جیسے پلیٹ فارمز پر ان کی آواز کو پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہاں تک کہ جیل میں ہونے کے باوجود ان کے پیغامات ویڈیو ریکارڈنگز اور تحریری بیانات کی شکل میں وائرل ہوتے رہے۔ سوشل میڈیا عمران خان کا مضبوط ترین ھتیار بن گیا جس سے مخالفین نمٹنے میں نکام رہے۔

ان تمام تر کوششوں کے باوجود عمران خان کو اپنی جدوجہد میں شدید رکاوٹوں کا سامنا رہا۔ عدالتی نظام کی سست رفتاری، میڈیا سینسرشپ اور ریاستی اداروں کے ساتھ کشمکش نے ان کی راہ میں اکثر رکاوٹیں کھڑی کیں۔ بعض اوقات ایسا لگتا تھا کہ ہر قدم پر نئی مشکل سامنے آ رہی ہے۔ تاہم، ان کی استقامت نے نہ صرف ان کے حامیوں کو متحرک رکھا بلکہ انہیں بین الاقوامی سطح پر بھی توجہ کا مرکز بنا دیا۔

عمران خان کی اس جدوجہد کو سمجھنے کے لیے پاکستانی سیاست کے تاریخی تناظر کو دیکھنا ضروری ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کوئی سابق وزیراعظم اتنی شدید قانونی اور سیاسی جنگ لڑ رہا تھا۔ یہاں تک کہ بینظیر بھٹو یا نواز شریف جیسے رہنماؤں کے ساتھ بھی اتنی متنازعہ صورت حال پیدا نہیں ہوئی تھی۔ عمران خان کا یہ موقف کہ وہ ایک غیرجماعتی نظام کے خلاف لڑ رہے ہیں، انہیں روایتی سیاستدانوں سے الگ شناخت دیتا ہے۔

ان کی شخصیت کے حوالے سے دو متضاد آرا پائی جاتی ہیں۔ ایک طرف ان کے حامی انہیں پاکستان کی اصل "تبدیلی کا واحد" امیدوار سمجھتے ہیں تو دوسری طرف مخالفین ان پر ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں عمران کی بڑھتی مقبولیت مخالفین اور اسٹبلشمنٹ کے لئے سر درد بن چکی۔ آئے روز مخصوص افراد کے ذریعے ڈیل کا نیا شوشہ چھوڑا جاتا یے تاھم ابھی تک عمران خان کے موقف میں کوئی تبدیلی محسوس نہیں ہوئی۔

گزشتہ ہفتے سے متنازع پیکا ایکٹ کا قانون جس انداز میں منظور کروایا گیا اس سے اس نظام کی بوکھلاہٹ اور خوف کا اندازہ کیا جا سکتا ہے اس کیخلاف ملک بھر کی صحافتی تنظیموں نے بھرپور احتجاج کیا ہے خدشہ یہ ھیکہ اس قانون کا استعمال سوشل میڈیا صارفین کی کیخلاف کیا جائے گا جس سے موجودہ رجیم کو شدید خطرات لاحق ہیں دیکھتے ہیں عصاب کی یہ جنگ آگے کیا رخ اختیار کرتی ہے اب کی مجموعی صورتحال میں عمران خان اعصاب کی اس جنگ کا خود کو کھلاڑی ثابت کر چکا۔

جاری ہے۔۔

Check Also

Adab Ka Haqeer Sa Talib Ilm

By Mubashir Ali Zaidi