Tuesday, 11 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Omair Mahmood
  4. Aap Kis Ke Novel Parhte Hain?

Aap Kis Ke Novel Parhte Hain?

آپ کس کے ناول پڑھتے ہیں؟

کہانیاں پڑھنے کا میرا سفر شاید رسالے "تعلیم و تربیت" سے شروع ہوا تھا۔ تعلیم و تربیت کے بعد نونہال، پھول، بچوں کا باغ، آنکھ مچولی اور اس طرح کے دیگر رسائل پڑھے۔ پھر کہانیوں کی کتابیں بھی پڑھنے لگا۔ ٹارزن کے کارنامے پڑھتے جنگلوں کی سیر کی، عمرو عیار کی زنبیل حاصل کرنے کی خواہش کی جس سے جو چاہیں نکالا جا سکتا ہے۔

پھر میرا تعارف اشتیاق احمد سے ہوا۔ ان کا لکھا جو پہلا ناول میں نے پڑھا اس کا عنوان "نیلا دانت" تھا۔ کہانی یاد نہیں لیکن عنوان یاد رہ گیا ہے۔ اسی طرح پہلی فلم جو میں نے دیکھی اس کا عنوان "قاتل کون" یا "قاتل کی تلاش" تھا۔ اس فلم کے نام کے علاوہ بس یہ یاد ہے کہ اداکار ندیم نے غالباً مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

بات اشتیاق احمد کے ناولوں کی ہو رہی تھی، وہ ناول پڑھنا بھی ایک منفرد ہی تجربہ تھا۔ کہانی ایسی ہوتی کہ پڑھنے والے کو تجسس کی رسی سے باندھ لیتی۔ ان کے ناولوں کے کرداروں کی دو جوڑیاں تھیں۔ ایک جوڑی تھی انسپکٹر جمشید، ان کے بچے محمود، فاروق اور فرزانہ اور دوسری جوڑی تھی انسپکٹر کامران مرزا، ان کے بچے آفتاب، آصف اور فرحت۔ دونوں انسپکٹر صاحبان اپنے بچوں کے ساتھ مل کر کیس حل کیا کرتے تھے۔ جرائم کا سراغ لگایا کرتے تھے۔ زیادہ تر ناولوں میں کرداروں کی بس ایک ہی جوڑی ہوا کرتی، انسپکٹر جمشید اور ان کے بچے، یا انسپکٹر کامران مرزا اور ان کے بچے۔ لیکن خاص نمبروں میں یہ چھ کے چھ کردار ہوتے۔ حالاں کہ کرداروں کی یہ دونوں جوڑیاں یکساں صلاحیتوں کی حامل تھیں، ان کرداروں میں بہادری، حاضر جوابی، سبھی کچھ ایک جیسا تھا لیکن پھر بھی پتہ نہیں کیوں مجھے انسپکٹر جمشید اور ان کے بچے زیادہ پسند تھے۔

پھر مظہر کلیم ایم اے کی لکھی عمران سیریز بھی پڑھی۔ پاکیشیا سیکرٹ سروس کا چیف ایکس ٹو، اصول پسند سر رحمان، نٹ کھٹ علی عمران، جولیانا اور دیگر کردار۔ ان ناولوں کا اسلوب اشتیاق احمد کے لکھے ناولوں سے بالکل مختلف تھا اور دونوں ہی ایسے دل چسپ کہ پڑھنے کے لیے اٹھاؤ تو پھر رکھ نہ پاؤ۔

تھوڑا اور بڑا ہوا تو سب رنگ ڈائجسٹ، جاسوسی ڈائجٹ، سسپنس ڈائجسٹ سے روشناس ہوا۔ اس کے بعد سرگزشت ڈائجسٹ پڑھنا شروع کیا۔ اردو ڈائجسٹ اور حکایت بھی پڑھا کرتا تھا لیکن ان میں کہانیاں کم ہوتی تھیں اس لیے رغبت بھی کم رہی۔ خواتین ڈائجسٹ، شعاع اور پاکیزہ وغیرہ پر بھی ہاتھ صاف کیے۔

والد صاحب ریڈرز ڈائجسٹ پڑھتے تھے لیکن میں اس میں سے صرف لطیفے اور لوگوں پر بیتے دل چسپ اور مختصر واقعات ہی پڑھا کرتا۔ ان میں سے بھی اکثر سر پر سے گزر جایا کرتے۔

اب یہ سب یاد کرتے ہوئے خیال آ رہا ہے کہ کتنا وقت ہوتا تھا میرے پاس۔

بچپن میں انگریزی کی کچھ کہانیاں پڑھنے کی کوشش ضرور کی لیکن زیادہ رغبت پیدا نہ ہوئی۔ جاسوسی ڈائجسٹ میں کسی انگریزی ناول کی (غالباً تلخیص شدہ) کہانی شائع کی جاتی تھی۔ ایک لکھاری جیمز ہیڈلے چیز کا نام یاد ہے۔ ان کی تقریباً ہر کہانی میں مجرم سراغ رساں کی ذہانت سے نہیں بلکہ بس اتفاق سے پکڑا جاتا تھا۔ اب یہ واقعی ایسا ہوتا تھا یا جو چند ایک کہانیاں میں نے پڑھیں ان میں ایسا ہوا، بہرحال جیمز ہیڈلے چیز صاحب مجھے زیادہ پسند نہ آئے۔

پھر اٹھارہ انیس سال کی عمر میں سڈنی شیلڈن کا نام سنا۔ جن سے سنا انہوں نے ایک خاص معنی خیز انداز میں یہ نام لیا تھا، کہ سڈنی شیلڈن کی تحریروں میں فحش گوئی بہت ہے۔ جس تحریر سے فحش گوئی منسوب ہو جائے وہ چھپ چھپ کر تو پڑھی جا سکتی ہے لیکن دکان پر جا کر سڈنی شیلڈن کے ناول مانگنے کے خیال سے ہی کان سرخ ہو جایا کرتے۔ اس لیے ایک طویل عرصے تک یہ ناول پڑھنے کی ہمت ہی نہ کر پایا۔

یہ سن 2000 کی بات ہے۔ تب انٹرنیٹ زیادہ عام نہ تھا۔ فیس بک آنے اور مقبول ہونے میں ابھی کئی سال تھے۔ انٹرنیٹ پر ان جان لوگوں سے گپ شپ لگانے کے لیے چند وسائل دستیاب تھے جن میں ایم آئی آر سی نامی ایک پروگرام ہوا کرتا تھا۔

تو انٹرنیٹ کے ہی کسی پلیٹ فارم پر کسی نے سڈنی شیلڈن کا ناول The Best Laid Plans پڑھنے کا مشورہ دیا۔ جب یہ مشورہ دیا گیا تب میں راولپنڈی میں ہوتا تھا۔ اس کے تقریباً دو سال بعد لاہور منتقل ہوا۔ لاہور میں کسی جگہ گھومتے اس ناول پر نظر پڑی تو برسوں پہلے دیا گیا مشورہ یاد آ گیا۔

ناول لے کر ہاسٹل میں آیا اور یاد نہیں کتنے دن میں پڑھا لیکن ختم ہونے تک ناول نے جکڑے رکھا اور بالکل آخر میں کہانی جس غیر متوقع انجام کو پہنچی اس نے تو ہلا کر رکھ دیا۔ سڈنی شیلڈن کی شہرت جس حوالے سے سنی تھی وہ بے باکی تو ناول میں تھی ہی لیکن کہانی کا حصہ تھی، کہانی پر غالب نہ تھی۔ اس کے بغیر بھی کہانی کی بنت لاجواب تھی۔

ایک اور مزے کی بات یہ ہے کہ میں سڈنی شیلڈن کو خاتون سمجھتا تھا۔ تو ناول کے آغاز میں لکھاری کا جو تعارف دیا گیا ہوتا ہے اس میں سدٹی شیلڈن کو مذکر لکھا گیا تھا، میں تو اسے لکھنے والے کی غلطی سمجھا۔ بہت بعد جا کر ادراک ہوا کہ سڈنی شیلڈن تو مرد ہیں۔ ایک ایک کرکے ان کے تمام ناول پڑھ ڈالے۔ سڈنی شیلڈن نے کُل لکھے ہی 18 ناول ہیں، شاید۔

یونیورسٹی میں ریڈیو کے سربراہ ارشاد حسین صاحب کو ناولز میں میری دل چسپی کا علم ہوا تو انہوں نے جان گرشم کے ناول پڑھنے کو دیے۔ ان کے جتنے ناول پڑھے وہ تمام ہی کسی نہ کسی قانونی اور عدالتی کارروائی کے گرد گھومتے تھے۔ جان گرشم صاحب خود بھی وکیل رہے ہیں شاید اسی وجہ سے۔ ان کے ناولوں سے کچھ کچھ اندازہ ہوا کہ کوئی بھی کیس عدالتوں میں کس طرح سے لڑا جاتا ہے اور یہ بھی تھوڑی سمجھ آئی کہ جن ممالک میں جیوری کا تصور ہے، یہ جیوری ہوتی کیا ہے اور کس طرح کیس لڑنے والے وکیل نے جیوری کو قائل کرنا ہوتا ہے۔ جان گرشم کے ناول دل چسپ تو ہوتے تھے لیکن ان کی لت نہ لگی۔ یعنی ایسا نہ ہوا کہ ایک ناول ختم کرنے کے بعد فوراً سے کوئی دوسرا ناول پڑھنے کی چاہ ہو۔

یہ اگاتھا کرسٹی اور آرتھر کونن ڈائل کو تو بہت بعد میں پڑھا۔ کرائم فکشن کی سبھی کہانیاں اس طرح لکھی جاتی ہیں کہ کوئی جرم ہوتا ہے اور ناول کے کرداروں میں سے کسی ایک نے وہ جرم کیا ہوتا ہے۔ قاری ناول پڑھتے پڑھتے اندازہ لگاتا رہتا ہے کہ مجرم کون ہوگا؟ لکھاری کا کمال یہ ہوتا ہے کہ قاری آخر تک درست اندازہ نہ لگا پائے اور جب مجرم سامنے آئے تو قاری حیران رہ جائے۔

انگریزی کرائم فکشن کی میری دنیا صرف سڈنی شیلڈن، اگاتھا کرسٹی، آرتھر کونن ڈائل اور جان گرشم تک ہی محدود رہی۔ پھر میں حالات حاضرہ، تاریخ، سوانح حیات اور اس نوع کے دیگر موضوعات پر کتابیں پڑھنے لگا تو کہانیاں پڑھنے کی زیادہ چاہ بھی نہ رہی۔ کبھی کبھار فکشن کی کوئی کتاب اٹھائی تو بھی پڑھنے میں جی نہ لگا اور رکھ دی۔

ایسا نہیں کہ میں نے فکشن پڑھنے کی کوشش نہ کی تھی۔ اورحان پاموک کا My Name is Red پڑھا۔ اس کا اردو ترجمہ جمہوری پبلی کیشنز نے کیا ہے۔ اقبال خورشید صاحب کا "تکون کی چوتھی جہت" بھی پڑھا۔ اسامہ صدیق صاحب کا "چاند کو گل کریں تو ہم جانیں" پڑھا۔ شمس الرحمان فاروقی کا "کئی چاند تھے سر آسماں" پڑھا۔ لیکن یوں لگا کہ مجھ میں فکشن پڑھنے کی چاہ ہی ختم چکی ہے۔ اسی وجہ سے حالیہ دنوں میں کون سا ناول نگار معروف ہے، اس کے کون سے ناول ہاتھوں ہاتھ لیے جا رہے ہیں، یہ نہ مجھے معلوم تھا اور نہ میں نے کبھی جاننے کی کوشش کی تھی۔

2018 کے آغاز میں کراچی جانا ہوا تو واپسی پر دوست محمد جنید نے ایک ناول دیا The Word is Murder. اسے Anthony Horowitz نے لکھا تھا۔ بتایا نا کہ چند ایک ناموں کے علاوہ میں کسی فکشن نگار سے واقف ہی نہ تھا۔ لیکن یہ ناول پڑھنا شروع کیا تو اس میں کھو کر رہ گیا۔ اسے پڑھتے تجسس کے اُسی گہرے سمندر میں ڈوبا کہ ناول ہاتھ سے رکھنے کو دل نہ کرتا تھا اور کہانی جاننے کے شوق میں صفحوں پر صفحے پلٹتا جاتا۔ خیر، وہ ناول ختم ہوا تو میں پھر سے دیگر موضوعات کی کتابوں کی طرف پلٹ گیا۔

چھ سال بعد جانے کیوں جی میں آئی کہ Anthony Horowitz صاحب کا ہی کوئی اور ناول پڑھا جائے۔ تو یوں ہی Moonflower Murders اٹھا لیا۔ اس ناول کی کہانی یہ ہے کہ ایک ہوٹل میں کئی سال پہلے ایک قتل ہوا ہے۔ ہوٹل کے ہی ایک ملازم پر قتل کا الزام لگتا ہے، وہ جرم قبول بھی کر لیتا ہے اور جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ پھر ایک ناول نگار اس ہوٹل میں جاتا ہے، وہاں موجود افراد سے باتیں کرتا ہے اور ایک ناول لکھتا ہے۔ کئی سال بعد ہوٹل کی مالکن وہ ناول پڑھتی ہے اور اسے لگتا ہے کہ اصل قاتل تو کوئی اور تھا۔ وہ اپنے والدین سے ان خدشات کا اظہار کرتی ہے۔ لیکن اگلے ہی دن وہ غائب ہو جاتی ہے۔ تہہ در تہہ کہانی۔ صاحبو! ایک عرصے بعد رگ رگ میں اترتی اس سنسنی کا مزا لیا، جو شاید جاسوسی ناول پڑھنے والوں کو ہی محسوس ہوتی ہوگی۔ ناول ہاتھ میں ہے تو دنیا کی خبر نہیں۔ کوئی کام ایسا آن پڑا جسے ٹالا نہیں جا سکتا تو بھی ہر وقت ذہن میں اسی ناول کی کہانی گھوم رہی ہے۔ بس نہیں چل رہا کہ دوبارہ سے اپنے گوشہ عافیت میں جا کر کہانی دوبارہ پڑھنی شروع کریں۔ اس ناول نے بھی آخر تک باندھے رکھا۔ بالکل آخری صفحات میں معلوم ہوا کہ قاتل کون تھا۔

یہ ناول ختم کرنے کے بعد اینتھونی ہارووٹز کا ہی ایک اور ناول پڑھا The Sentence is Death. یہ کہانی بھی ایک قتل کی ہے۔ صرف چند کردار ہیں جو ممکنہ طور پر قاتل ہو سکتے ہیں اور ہر کسی پر شک کرنے کی معقول وجوہات موجود ہیں۔ لیکن مجرم ہے کون؟ یہ جاننے کا تجسس لیے صفحوں پر صفحے پلٹتا چلا گیا۔ نہ بھوک لگی، نہ نیند آئی۔ جب تک مکمل پڑھ نہ لیا اس وقت تک ذہن میں ناول ہی گھومتا رہا۔

پھر Anthony Horowitz کو چھوڑ کر Val McDermid صاحبہ کو پڑھنے کا تجربہ کیا۔ ان کا لکھا ناول Beneath the Bleeding اٹھایا۔ یہ بھی اپنی طرح کا ایک منفرد اور دل چسپ ناول ہے۔ اس میں دو کہانیاں ایک ساتھ چل رہی ہیں۔ پہلو بہ پہلو چلتی دو کہانیاں خوب نبھائی گئی ہیں۔

یہ سارا قصہ چھیڑا اس لیے کہ ایک تو آپ کو اس سرشاری میں شریک کروں جو مجھ پر بیتی۔ دوسرا، مجھے لگنے لگا تھا جاسوسی ناولز پڑھنے کا اب میرا مزاج نہیں رہا۔ لیکن غالباً ایسا نہیں تھا۔ ناولز میں Whodunit نام سے باقاعدہ ایک صنف ہے اور مجھے لگتا ہے کہ میں صرف اسی صنف کے ناولز پڑھنے میں دل چسپی رکھتا ہوں۔ اگر یہ ذوق عامیانہ ہے تو ہوتا رہے۔

ابھی ایک ناول نگار Lee Child صاحب کا بھی شہرہ سنا ہے۔ Val McDermid صاحبہ کا ایک اور ناول Kick Back زیر مطالعہ ہے۔ وہ ختم کرنے کے بعد لی چائلڈ کے ناول پڑھنے کا ارادہ ہے۔

جو صاحبان تحریر پڑھتے پڑھتے یہاں تک پہنچے ہیں، یقیناً وہی ہیں جو فکشن پڑھنے میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ تو تجاویز دیجیے کہ مجھے اور کون کون سے ناول پڑھنے چاہییں۔

Check Also

Sehra Kis Ke Sar?

By Syed Mehdi Bukhari