Monday, 10 February 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Aqal Ki Kami Ka Koi Ilaj Nahi

Aqal Ki Kami Ka Koi Ilaj Nahi

عقل کی کمی کا کوئی علاج نہیں

مجھے سب سے زیادہ حیرت ان لوگوں پر ہوتی ہے جو کسی ملک کے عوام اور حکومت میں تفریق نہیں کرپاتے۔ پاکستان کی مثال لیجیے۔ یہاں ماضی کی حکومتوں نے جہادی گروپوں کی سرپرستی کی۔ طالبان کو بنایا۔ لیکن عوام جنگجو نہیں ہیں۔ عوام نے بھارت سے جنگیں شروع نہیں کیں۔ عوام نے ٹیرر فنانسنگ نہیں کی۔ اب زلزلہ یا سیلاب آئے تو عوام کو الزام نہیں دیا جائے گا کہ پاکستان نے دہشت گردی کی سرپرستی کی اس لیے خدا نے عذاب بھیجا۔

آپ کے پاس عقل ہے تو نریندر مودی کے اقدامات کا ذمے دار ہندوستانی عوام کو قرار نہیں دیں گے۔ ہندوستان میں پاکستان سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں۔ ان کے بارے میں سوچنا پڑے گا۔

نیتن یاہو کو اسرائیلیوں کی اکثریت پسند نہیں کرتی۔ امریکی انتظامیہ ان سے بیزار ہے۔ اقوام متحدہ کو شکایات ہیں۔ نیتن یاہو کی حرکتوں پر تمام اسرائیلیوں کو مطعون کرنا، ان کے جینے کا حق چھیننے اور ان کا وطن صفحہ ہستی سے مٹانے کی بات کرنا شدت پسندی ہے۔

اب مطلب کی بات پر آجائیں۔ امریکی انتظامیہ کی پالیسیوں کی سب سے زیادہ مخالفت خود امریکا میں کی جاتی ہے۔ اس ملک سے بڑا آزادی اظہار کا علمبردار کوئی نہیں۔ اس ملک کا نظام ایسا ہے کہ صدر، چیف جسٹس اور جرنیل تک اس کے خلاف نہیں جاسکتے۔ ٹرمپ نے بائیڈن سے شکست نہیں مانی لیکن خود ان کے نائب صدر نے کانگریس میں بائیڈن کی کامیابی کی توثیق کی۔ اب وہ دوبارہ وائٹ ہاوس جارہے ہیں لیکن نیویارک کے ایک عام سے جج نے انھیں مجرم قرار دے دیا ہے۔ یہ اس نظام کی قوت ہے۔

میں اپنی مثال دیتا ہوں۔ وائس آف امریکا میں ملازمت کا مسئلہ ہوا تو ایک امریکی سینیٹر سے بات کی۔ انھوں نے کہا، میں آپ کے ادارے سے جواب طلب کروں گا اور انھوں نے کیا بھی۔ لیکن مجھے پہلے ہی صاف صاف بتادیا کہ میں دباؤ نہیں ڈال سکتا۔ اگر کسی امیجیٹ باس یا ایچ آر افسر نے فیصلہ کرلیا ہے تو سینیٹر کیا، صدر بھی کچھ نہیں کرسکتا۔

یہ امریکی نظام کی خوبصورتی اور کمال ہے کہ کسی کے کام میں کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔ ہر شخص اور ادارہ اپنے کام کا ذمے دار خود ہے۔

امریکی انتظامیہ کیا خارجہ پالیسی بناتی ہے، کس ملک کی مدد کرتی ہے، کس سے جنگ اور کس پر پابندیوں کا فیصلہ کرتی ہے، اس کے عوام ذمے دار نہیں۔ میڈیا شور مچا سکتا ہے اور مچاتا ہے، تھنک ٹینک منظرنامہ پیش کرسکتے ہیں اور پیش کرتے ہیں، یونیورسٹی کے اسکالرز رائے دے سکتے ہیں اور دیتے ہیں، عوامی تنظیمیں احتجاج کرسکتی ہیں اور کرتی ہیں، لیکن کوئی نہ انتظامیہ کی پالیسیوں کا ذمے دار کہا جاسکتا ہے اور نہ انھیں بدلواسکتا ہے۔

امریکا کی یونیورسٹیوں میں سب سے زیارہ فنڈنگ یہودی کرتے ہیں۔ اس کے باوجود ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں غزہ جنگ پر شدید احتجاج ہوا ہے۔ اب بھی جاری ہے۔ پاکستان میں کتنا احتجاج ہوا؟

یہ مسلمانوں کا رویہ ہے جس کی وجہ سے امریکا میں ٹرمپ اور یورپ میں دائیں بازو کے رہنما مضبوط ہورہے ہیں۔ وہ امیگریشن کے مخالف ہیں کہ اربوں کی امداد اور لاکھوں مسلمانوں کو پناہ دینے کے باوجود ان کا معاندانہ رویہ نہیں بدل رہا۔ پھر کیوں انھیں اپنے ٹیکس گزاروں کا پیسہ دیں۔ کیوں اپنے ملک میں جگہ دیں۔

لاس اینجلس کی آگ پر مسلمانوں اور خاص طور پر پاکستانیوں کا رویہ بے حد افسوس ناک ہے۔ اس شہر میں پانچ لاکھ مسلمان رہتے ہیں۔ ہزاروں پاکستانی بلکہ جماعتی بھی رہتے ہیں۔ پاکستان میں ان کے رفیق آگ پر بغلیں بجارہے ہیں۔ مجھے افسوس کم ہوتا ہے اور ان کی ذہنی حالت پر ترس زیادہ آتا ہے۔ علم کی کمی مطالعے سے پُر کی جاسکتی ہے۔ تجربے کی کمی مشاہدے سے دور کی جاسکتی ہے۔ عقل کی کمی کا کوئی علاج نہیں۔

Check Also

Tabdeeli Ab Nahi Aaye Gi

By Saira Kanwal