Farz Shanas Police Afsar Ki Giraftari, System Ki Nakami
فرض شناس پولیس افسر کی گرفتاری، سسٹم کی ناکامی

دو روز سے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بہت زیادہ وائرل ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ملتان میں ویسٹ انڈیز کی کرکٹ ٹیم کا روٹ گزر رہا ہے اس موقع پر ایک پچاس سالہ شخص موٹر سائیکل پر روٹ کی گاڑیوں کے قریب آگیا تو اس موقع پر ڈیوٹی پر مامور ملتان کے ایس ایچ او شفیق خان نے اس کو روکا جس پر اس بابے نے مزاحمت کی اور ایس ایچ او کو ہاتھ سے مارا جس پر شفیق خان نے اس کو کالر سے پکڑ کر روکا تو وہ پھر مزاحمت کرنے لگا جس پر اس نے بابے کو کالر سے پکڑ کر نیچے گرادیا، ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اس دوران روٹ کی گاڑیاں چنگاڑتی ہوئی گزر رہی ہیں۔
ویڈیو وائرل ہوئی تو سول سوسائٹی کے ٹھیکیدار سماجی ابلاغی پالتو دانشور اس ایس ایچ او پر چڑھ دوڑے اور اس فرض شناس پولیس افسر کو کوسنے لگے، سوشل میڈیا کا دباؤ اتنا بڑھ گیا ہے کہ پڑھے لکھے سرکاری افسران بھی ڈرنے لگے ہیں، آر پی او ملتان سہیل چودھری نے عوامی دباؤ کم کرنے کیلئے ایس ایچ او شفیق خان کو فوری طور پر معطل کردیا پھر اس کیخلاف مقدمہ بھی درج کرادیا، سوشل میڈیا سے ڈری پنجاب حکومت بھی دباؤمیں آگئی اور وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے شہری پر نام نہاد تشدد کا نوٹس لیا اور عوامی حمایت حاصل کرنے کیلئے ایس ایچ او شفیق خان کو گرفتار کرنے کا حکم دیدیا۔
جمعہ کو سارا دن یہ سب کچھ دیکھ کر خون کھولتا رہا کہ پنجاب میں کیا جنگل کا قانون ہے کہ جس پولیس افسر نے اپنا فرض نبھایا اس کو ہی گرفتار کرادیا، وزیراعلی پنجاب کی ناراضی کے ڈر سے آر پی او ملتان نے ایس ایچ او کو گرفتار کرکے حوالات میں بند کرکے اس کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل کرادی اور خود کو بہت انصاف پسند ظاہر کرنے اور وزیراعلی کی خوشنودی حاصل کی انتہائی گھٹیا اور چھوٹی حرکت کی اور پھر اس بابے کو دفتر پلا کر چائے بھی پلائی جس کی فیس بک پیج پر تصاویر لگا کر سلمان خان اور شاہ رخ خان بننے کی کوشش کی۔
آر پی او ملتان کو تعینات کرنیوالوں کی عقل پر ماتم کرنے کو دل کرتا ہے جس نے ایک قابل پولیس افسر کو تعینات کرنے کے بجائے ایک تھڑے والے کی سوچ رکھنے والے افسر کو جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے شہر ملتان میں پولیس کا سربراہ تعینات کیا ہے، اس شخص کی اتنی حیثیت ہی نہیں ہے کہ وہ اس سیٹ پر بیٹھے، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ آر پی او ملتان اپنے ماتحت کی فرض شناسی کی تعریف کرتے اور حکومت کے سامنے کھڑے ہوجاتے کہ میرے افسر نے اپنا فرض پورا کیا ہے اور جان کی پرواہ بھی نہیں کی۔
عوام کو یاد ہوگا کہ جب لاہور میں سری لنکا کرکٹ ٹیم میں دہشتگردوں نے لبرٹی چوک میں حملہ کیا تھا تو ملک کی دنیا بھر میں کتنی بدنامی ہوئی تھی اور پھر تقریباً ایک دہائی تک پاکستان پر انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے بند ہوگئے تھے اب اگر ملتان میں خدا نخواستہ کوئی واقعہ ہوجاتا تو سوچیں ملک کا کتنا نقصان ہوتا اور محسن نقوی جو وفاقی وزیرداخلہ اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بھی ہیں وہ فروری میں چیمپئنز ٹرافی کرالیتے جس میں حصہ لینے کیلئے کئی ممالک کی کرکٹ ٹیمیں پاکستان آرہی ہیں۔
سری لنکا کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد پاکستان کو غیرملکی ٹیموں اور کھلاڑیوں کو پاکستان لانے کیلئے کتنے جتن کرنا پڑے تھے اس کا اندازہ سب کو ہے، جب انٹرنیشنل کرکٹ پاکستان میں ختم ہوگئی تو نجم سیٹھی نے پی ایس ایل شروع کرکے کرکٹ کو زندہ کیا جس میں دنیا کے چند بڑے کھلاڑی پاکستان آئے اور اس طرح انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا راستہ ہموار ہوا اور پھر سب سے پہلے زمبابوے کی کرکٹ ٹیم پاکستان آئی۔
زمبابوے کی کرکٹ ٹیم جب پاکستان آئی تو میں اس وقت سپورٹس بورڈ پنجاب کے میڈیا سیل میں بطور چیف نیوز ایڈیٹر ملازمت کررہا تھا، اس کے وقت کے ڈی جی سپورٹس پنجاب عثمان انور نے زمبابوے کرکٹ ٹیم کو پی سی ہوٹل لاہور میں ڈنر کا اہتمام کیا، سپورٹس بورڈ پنجاب اور پی سی بی کے دفاتر آمنے سامنے ہیں، ڈنر کے روز عثمان انور نے سپورٹس بورڈ پنجاب کی ٹیم سے کہا کہ میری انتظامیہ سے بات ہوگئی ہے، دونوں ٹیمیں جب پریکٹس کرکے ہوٹل روانہ ہونگی تو سپورٹس بورڈ پنجاب کی ٹیم کی کوسٹر اسی روٹ میں ٹیموں کے ساتھ ہوٹل جائے گی۔
میں بھی اس ٹیم میں شامل تھا، جب ٹیمیں روانہ ہوئیں تو سکیورٹی اتنی سخت تھی کہ آج تک ایسی سخت سکیورٹی نہیں دیکھی، قافلہ روانہ ہوا تو ہماری کوسٹر سب سے پیچھے تھے اور کوسٹر سے پیچھے بھی تین سے چار سکیورٹی کی گاڑیاں تھیں، پندرہ منٹ میں ہم پی سی ہوٹل پہنچے، راستے میں قافلے کی سپیڈ اور باہر سکیورٹی دیکھ کر خوف آنے لگا، جب ٹیمیں پی سی ہوٹل پہنچیں تو ہوٹل کو بھی سکیورٹی نے اپنے حصار میں لے لیا تھا اس وقت وہ محاورہ سمجھ آیا کہ "کوئی چڑیا پَر بھی نہیں مارسکتی"۔
زمبابوے ٹیم کے دورہ پاکستان کے بعد دھیرے دھیرے کرکٹ سیمت انٹرنیشنل سپورٹس ملک میں خدا خدا کرکے بحال ہوئی تھی، اب اگر ویسٹ انڈیز کی ٹیم پاکستان آئی ہوئی ہے تو اس موقع پر سکیورٹی کا بریچ یا لیپس ہوجاتی تو کیا پاکستان اس کا متحمل ہوسکتا ہے جبکہ چیمپئن ٹرافی کے انعقاد میں اب چند روز باقی رہ گئے ہیں۔
ایس ایچ او شفیق خان کو سیلوٹ کرتا ہوں جس نے جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انٹرنیشنل کرکٹ ٹیم کے روٹ میں گھسنے والے کو روکا، کیا علم وہ بابا خودکش بمبار ہوتا تو شفیق خان تو جان سے گیا تھا پھر اسی آر پی او ملتان سہیل چودھری، آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور اور وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے بیانات جاری کرنے تھے کہ شفیق خان نے جان دیکر ملک کی عزت رکھ لی۔
آر پی او ملتان کو اپنے افسر کو شاباش دینی چاہئے تھی اور سوشل میڈیا کو شٹ آپ کال دیتا کہ میرے افسر نے اپنا فرض نبھایا ہے کسی دوسرے ملک میں کوئی سکیورٹی روٹ میں آنے کی کوشش کرتا تو اسے گولی مار دی جاتی، یہاں سماجی ابلاغی پالتو دانشور جن میں عقل نام کی کوئی چیز نہیں ہے وہ پولیس کو تنقید کا نشانہ بنانے لگ گئے ہیں، تیس سالہ صحافت میں پہلی بار پولیس کے حق میں لکھ رہا ہوں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ایک افسر اپنی جان کی بازی لگا کر ملک کی عزت بچا رہا ہے تو اس کو شاباش دینے کے بجائے حوالات میں بند کرادیا، یہ ہمارے سسٹم کی ناکامی ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس بابے کیخلاف دہشتگردی کا پرچہ درج کرایا جاتا اور اس بات کی بھی تحقیقات کی جاتی کہ ٹریفک وارڈن کہا ں تھے جن کا کام ٹریفک کو روکنا تھا مگر آر پی او ملتان کو تو وزیراعلی پنجاب کی شاباش چاہئے تھی تاکہ مستقبل میں مزید اچھی پوسٹنگ مل جائے، ایسے افسر پولیس کی وردی پر دھبہ ہےں جو اپنے جوانوں کیلئے سٹینڈ نہیں لے سکتے، فوج اپنے جوانوں کا مورال بلند رکھنے کیلئے ہر حد تک جاتی ہے، پولیس بھی ایک فورس ہے پھر ایسے پولیس افسر کیوں ان سیٹوں پر بٹھائے ہیں جو اپنے ماتحت کے اچھے کام کو سراہنے کے بجائے حکومت کے قدموں میں بیٹھ جاتے ہیں۔
کسی سیاستدان نے درست کہا تھا کہ "کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیاءہوتی ہے"، عہدے تو آنی جانی چیز ہے، حق کیلئے کھڑا ہونا سب سے اہم ہوتا ہے، آر پی او ملتان بتائیں جو حرکت اس نے کی ہے کیا کل کو کوئی پولیس کا جوان اپنے فرض کو قومی جذبے سے نبھائے گا، آئی جی پنجاب کے کردار پر سوال اٹھتا ہے کہ اگر وہ وزیراعلی کو بتاتے کہ ہمارے افسر نے اپنا فرض ادا کیا ہے اس لئے گرفتاری کا حکم نہیں بنتا تو وہ یقیناً مان جاتیں، عثمان انور ریٹائرمنٹ کے قریب ہیں اگر ان کو وزیراعلی کا حکم نہ ماننے پر عہدے سے ہٹا بھی دیا جاتا تو ان کی عزت اپنے جوانوں میں بہت بڑھ جاتی، کسی "انتشاری" لیڈر نے درست کہا تھا کہ مسئلہ یہ ہے کہ ایک تو یہ پڑھے لکھے نہیں دوسرا کوشش بھی نہیں کرتے۔
یوتھ اور بزرگوں کی ہر دلعزیز وزیراعلی نے بھی عوامی دباؤ کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور ایس ایچ او کی گرفتاری کا حکم دیدیا، یہ شفیق خان کو اس کی فرض شناسی کا بہترین صلہ ملا ہے شفیق خان ساری عمر اس سزا پر شرمندہ نہیں بلکہ خوش ہوگا، وزیراعلی کو چاہئے کہ اپنے مشیروں میں پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگ بھی رکھیں کیونکہ اس سے آگے کچھ لکھا تو پیکا ایکٹ مجھ پر لگ سکتا ہے۔