Azmaish Baraye Kamyabi
آزمائش برائے کامیابی

محنت اور کامیابی کا ایک دوسرے سے براہ راست تعلق ہے یا دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ محنت اور کامیابی کا ایک دوسرے سے راست تناسب ہے یعنی جس قدر محنت بڑھائی جائے گی اسی تناسب سے کامیابی کے امکانات بھی بڑھتے چلے جائیں گے۔ محنت صرف جسمانی مشقت یا بدنی تھکاوٹ کا نام نہیں۔ پائیدار کامیابی کے لئے ہمہ جہت محنت درکار ہوتی ہے۔ جسمانی مشقت کے ساتھ ساتھ ذہنی کاوش، فنی استعداد، عملِ پیہم، یقین محکم، امکانات کے لئے صبر آزما انتظار، روزمرہ کے مصائب، وقتی حوادث اور کشندہ پا (لیگ پُلر) حضرات سے خندہ پیشانی سے الگ ہونے کی ضروروت ہوتی ہے۔
ہر کسی کو اپنا گزرا دور ہی اچھا لگتا ہے، اس "اچھا لگنے" کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ لیکن فی الدست کام چور یا بہانے بازوں کا ایک جواز زیرِ بحث لاتے ہیں کہ یادِ ماضی میں وقت گزاری کرنے والے اپنے ماضی کی "تابناکی" اور "ناموری" میں ایسے کھوئے رہتے ہیں کہ موجودہ دستیاب وقت کو "فتح" کرنا ہی بھول جاتے ہیں۔ وہ "حال " میں پیش آنے والے مصائب، آزمائشوں اور وقتی پریشانیوں سے محنت جیسی کنجی کھو بیٹھتے ہیں۔ محنت سے ان کا جی ایسے اُچاٹ ہو جاتا ہے کہ سرائیکی میں باقاعدہ محاورہ بن گیا کہ کم جوان دی موت اے (کام کرنے میں جوان کو موت پڑتی ہے)۔
اولاً وہ وقت چونکہ گزر چکا ہوتا ہے، تو اس گزرے وقت کے بارے اب بس سوچا ہی جا سکتا ہے یا اس کی بابت صرف بات ہی کی جا سکتی ہے۔ نہ وہ وقت واپس پلٹ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی کاوش اب اس گئے وقت کو بہتر کر سکتی ہے تو ڈنگ ٹپاوَ پروگرام کے تحت ہر جگہ ماضی کی پوٹلیاں ہی کھول کے بیٹھ جاتے ہیں اور کسی بھی ایک واقعے یا کسی ایک قصے کو طول دے کے پوری زندگی پہ محیط کر دیا جاتا ہے۔
دوم اپنے موجودہ وقت کو بہتر بنانے کے لئے محنت اور کام کرنا درکار ہے۔ لیکن محنت سے تو اب دل کا کوئی یارا نہیں رہا۔ موجودہ وقت کا کلی اختیار صرف خود کے پاس ہوتا ہےاور یہی وہ دورانیہ ہے جس میں اپنی کاوش اور محنت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے سفر کو درست سمت میں ڈال سکتے ہیں اور پھر انفرادی لگن، شوق، صبر اور جہدِ مسلسل ہی اس سفر کی منزل کا تعین کرتی ہے۔
سفر کا آغاز اگرچہ محدود وسائل سے شروع ہو سکتا ہے لیکن اپنے دستیاب وسائل کی بہترین منصوبہ بندی سے آنے والے بہت سے مصائب اور مشکلات سے نبردآزما ہونے میں مدد مل سکتی ہے اور جیسے جیسے سفر آگے اور بہتری کی جانب بڑھے گا ویسے ویسے سفر کی کٹھنائیاں بھی بڑھتی جائیں گی۔ نئے نئے مخالفین، رنگ برنگے تنازعات، متفرق مسائل اور ایسی بہت سے پچیدگیاں صبر آزمانے کو منہ کھولے تیار کھڑی ہوں گی اور گاہے گاہے ان پچیدگیوں کی پچی کاری کی ضرورت پڑتی رہے گی۔
سفر اور سفر سے متعلقہ نفسیات کو سمجھنے کے لئے دورِحاضر کی خوب مثال ہے کہ فی زمانہ نوجوان نسل میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جو "کون بنے گا کروڑ پتی" پروگرام سے واقف نہ ہو۔ 2017ء سے ہر سال باقاعدگی سے نشر ہونے والا یہ پروگرام پہلی مرتبہ جولائی 2000ء میں پیش کیا گیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس پروگرام میں بھی مختلف تبدیلیاں کی جاتی رہیں کہ عوام کی دلچسپی اور پروگرام کی مقبولیت قائم رہے۔ بنیادی طور پہ اس پروگرام میں سوالات کے درست جواب دے کے شرکت کنندہ (پارٹیسیپنٹ) انعامی رقم حاصل کرتے ہیں۔ پروگرام کے ابتدائی چند سوالات نسبتاً آسان ہوتے ہیں۔ چند سوالات کے بعد امیتابھ بچن اپنی مخصوص ثقیل اور صدائے طنین انداز میں کہتے ہیں کہ جیسےجیسے انعامی رقم بڑھتی جائے گی ویسے ویسے سوالات بھی مشکل ہوتے جائیں گے۔
امتحان، امتحان کے لئے محنت، امتحان میں کامیابی اور کامیابی کے بعد ترقی یہی اصول ہر جا کارفرما نظر آئے گا۔ دانائے راز کہتے ہیں کہ امتحان بھی اسی کا لیا جاتا ہے، جس کی ترقی مقصود ہوتی ہے۔ یعنی جتنا مشکل امتحان ہوگا، ویسی ہی سخت محنت درکار ہوگی اور کامیابی کی صورت میں ترقی بھی دوچند اور دوآتشہ ہو کےملے گی۔ بڑی ترقی پانے والے بڑے امتحانوں ہی سے سرخرو ہوکر ہی وہاں تک پہنچے ہوتے ہیں۔ لہٰذا، کامیابی کے لیے لازم ہے کہ ماضی کی کہانیوں میں کھو جانے کی بجائے حال میں محنت کی جائے اور مستقبل کے لیے مضبوط بنیاد رکھی جائے۔ یہی اصول زندگی کی کامیابی کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔