ChatGPT Aur DeepSeek
چیٹ جی پی ٹی اور ڈیپ سیک

Sam Altman (سام آلٹ مین) ایک امریکی کاروباری شخصیت اور انویسٹر ہے۔ Sam اور اس کے چند ساتھیوں نے آرٹیفیشل انٹیلی جنس (مصنوعی ذہانت) پر ریسرچ کرنے کیلئے ایک کمپنی OpenAI کے نام سے 2015ء میں امریکہ میں قائم کی تھی۔ شروعات میں یہ کمپنی ایک Non-Profit Organization تھی جس کا مقصد منافع کمانے کی بجائے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے شعبے میں ریسرچ کرنا تھا مگر 2019ء میں Open AI کو ایک منافع کمانے والی کمپنی میں تبدیل کردیا گیا اور سام آلٹ مین اس کمپنی کے پہلے سی ای او (CEO) بن گئے۔
30 نومبر 2022ء کو Open AI نے اپنے پہلے آرٹیفیشل انٹیلی جنس ChatBot کو ChatGPTکے نام سے لانچ کرکے انسانوں کے تقریباً 100 سال پرانے خدشے اور ڈر کو حقیقت میں بدل دیا تھا۔ انسانوں کا ڈر کہ ایک دن انسان ایسی مشین ایجاد کرلے گا کہ جو انسانوں سے اگر زیادہ نہیں۔۔ تو کم سے کم دماغی لحاظ سے ان کی ہم پلہ ضرور ہوگی اور پھر ایک دن یہ مشین انسانوں سے ذہنی صلاحیت میں آگے نکل کر انسانوں کو اپنا غلام بنا لے گی۔
امریکہ میں اس موضوع پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہے۔ ہالی ووڈ میں اس موضوع پر بہت سی فلمیں بھی بن چکی ہے اور مجھے یقن ہے کہ آپ میں سے بہت سے لوگوں نے یہ فلمیں دیکھ بھی رکھی ہوگی۔ اب پتا نہیں مستقبل قریب میں یہ تھیوری سچ ثابت ہوتی ہے یا نہیں یہ کہنا تو قبل از وقت ہوگا۔ مگر مشینیں اور وہ بھی ایسی مشینیں جو خود سے سوچ سو سکتی ہے، فیصلہ کرسکتی ہے اور نتائج کا تعین کرسکتی ہے کیا ایسی مشینیں مستقبل میں انسانوں کا نعم البدل ثابت ہوسکتی ہے تو اس کا جواب ہے جی ہاں اور ChatGPT کے لانچ کے بعد اس کی ایک چھوٹی سی جھلک نظر آنا بھی شروع ہوگئی ہے۔
ChatGPT ایک ChatBot ہے جو کہ مصنوعی ذہانت یا Artificial Intelligence کی مدد سے انسانوں سے بات کر سکتا ہے، اُن کے سوالوں کے جوابات دے سکتا ہے، میڈیکل میں ڈاکٹروں کا معاون ثابت ہو سکتا ہے، سٹوڈنٹس کیلئے اسائنمنٹ (Assignment) لکھ سکتا ہے، ریاضی میں پروفیسروں کی مدد کرسکتا ہے، مشکل سے مشکل سائنسی تھیوریز کو نا صرف سمجھ سکتا ہے بلکہ اُن کو حل کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ یہی نہیں ChatGPT کہانیاں لکھ سکتا ہے، لمبی کہانیوں جیسے ناولز کیلئے پلاٹ تحریر کرسکتا ہے، یوٹیوب ویڈیوز کیلئے Content تحریر کرسکتا ہے اور انسانوں کو نئے نئے آئیڈیاز بھی Suggest کرسکتا ہے۔ بات صرف یہی تک محدود نہیں ChatGPT ہی کی ایک شاخ DALL-E کے نام سے بھی موجود ہے۔ آپ DALL-E پر ٹیکسٹ لکھ کر مصنوعی ذہانت پر مبنی تصاویر بنا سکتے ہیں اور ChatGPT ہی کے ذریعے کمپیوٹر کے پروگرام اور موبائل کی ایپس اور گیمز کیلئے کوڈنگ بھی کر سکتے ہیں۔
مگر ChatGPT کے صرف کچھ فیچرز ہی فری میں available ہے باقی سروسز کیلئے آپ کو ڈالرز Pay کرکے اس کی Subscription خریدنا پڑتی ہے۔ جیسے کہ آپ ChatGPT سے فری میں لیٹر تو لکھوا سکتے ہیں مگر DALL-E پر تصاویر بنانے کیلئے یا ChatGPT پر کوڈنگ کیلئے آپ کو ڈالر ادا کرنے پڑتے ہیں۔ اسی طرح انٹر نیٹ مارکیٹ میں باقی دوسرے بہت سارے سافٹ ویئرز اور ویب سائٹس بھی موجود ہے جو کہ مصنوعی ذہانت ہی کی مدد سے ٹیکسٹ سے بہترین قسم کی تصاویر اور یہاں تک کہ ویڈیوز تک بنا سکتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ویڈیوز اور تصاویر کو ایڈٹ کرسکتے ہیں، کمپنیز اور کاروباری افراد کیلئے لوگوز (Logos) بناسکتے ہیں اور ایسے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے سافٹ ویئرز بھی موجود ہے جو کہ ایک Click پر پوری کی پوری ایپس کیلئے کوڈنگ کرسکتے ہیں مگر یہ سب Paid سافٹ ویئرز ہے جن کو استعمال کرنے کیلئے آپ کو ڈالرز ادا کرنے پڑتے ہیں۔
ان آرٹیفیشل انٹیلی جنس پر مبنی سافٹ ویئرز کی مدد سے جو کام ایک سال میں 20 لوگ مل کر کرتے تھے اب اُسی کام کو صرف 5 لوگ کچھ مہینوں میں سر انجام دے سکتے ہیں۔ ان مصنوعی ذہانت والے سافٹ ویئرز نے تصاویر اور ویڈیوز ایڈٹ کرنے والوں اور لوگوز بنانے والے لوگوں کا مستقبل تاریک بنا دیا ہے جبکہ کوڈنگ کرنے والے افراد کو بھی اپنا مستقبل کچھ خاصا روشن نظر نہیں آرہا ہے۔
مگر اب ان سافٹ ویئرز پر بھی خطرے کے بادل منڈلانا شروع ہوگئے ہیں۔ 10 جنوری 2025ء کو ایک چینی کمپنی نے DeepSeek کے نام سے ایک ChatGPT کی طرح کا ChatBot لانچ کرکے انٹرنیٹ کی دنیا میں تہلکہ مچادیا ہے۔ چینی کمپنی کی DeepSeek کی خاص بات یہ ہے کہ یہ مقابلے میں ChatGPTکا ہم پلہ اور کئی معاملات میں اُس سے بہتر ہے ناصرف بہتر بلکہ اس کا Response Time بھی ChatGPT سے تیز ہے اور سب سے اہم بات DeepSeek بالکل فری ہے اس کی کسی سروس کو استعمال کرنے کیلئے آپ کو ڈالرز ادا نہیں کرنے پڑتے۔
اسی وجہ سے DeepSeekنے امریکی انٹرنیٹ کمپنیز کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پچھلے کچھ دنوں میں امریکی انٹرنیٹ کمپنیز کو امریکی سٹاک مارکیٹ میں ایک ٹریلین یعنی ایک کھرب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ لوگ افراتفری میں امریکی انٹرنیٹ کمپنیز کے شیئرز فروخت کر رہے ہیں جس کی وجہ سے امریکی سٹاک مارکیٹ میں ان کمپنیوں کی شیئرز پرائس گرتی جارہی ہے۔ ظاہر ہے جب لوگوں کو مارکیٹ میں فری چیز مل رہی ہے تو لوگ اُس کی بجائے پیسے ادا کرکے دوسری چیز کیوں کر خریدیں گے۔ بس یہی سوچ امریکی کمپنیوں کیلئے ڈراؤنا خواب بنی ہوئی ہے۔
امریکی اسٹاک مارکیٹ میں سب سے زیادہ نقصان NVIDIA کمپنی کا ہوا ہے جو کہ 600 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ NVIDIA دنیا بھر میں واحد کمپنی ہے جوکہ کمپیوٹر Chips تیار کرتی ہے۔ یہ Chips کمپیوٹر مارکیٹ کیلئے کتنے ضروری ہوتے ہے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ان Chips کے بِنا دنیا کا کوئی کمپیوٹر، موبائل اور لیپ ٹاپ کام نہیں کرسکتا۔ امریکہ نے ان Chips کی چین کو فروخت پر 2024ء سے پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اب چین کا دعویٰ ہے کہ اس نے NVIDIA کے کمپیوٹر Chips کے بنِا ہی اپنا DeepSeek سافٹ ویئر بنالیا ہے جس کی وجہ NVIDIA کی حالت خستہ ہوچکی ہے اور اس کے شیئرز کی پرائس مسلسل گرتی جارہی ہے۔ اب صرف دو ہی باتیں ہوسکتی ہے یا تو چین NVIDIA کی Chipsکے حوالے سے جھوٹ بول رہا ہے یا پھر چین نے خود کی کمپیوٹر Chips تیار کرلی ہے ابھی فی الحال یہ بات کسی کو معلوم نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ چین مستقبل قریب میں اپنی کمپیوٹر Chips بھی میدان میں لے آئے۔
NVIDIA کمپنی کے امریکی سٹاک مارکیٹ میں ہونے والے نقصان کو تاریخ میں اب تک کا سب سے بڑا نقصان قرار دیا جارہا ہے۔ اس نقصان میں NVIDIA کمپنی اکیلی شامل نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ گوگل کی پیرنٹ کمپنی الفابیٹ کو 100 ارب ڈالر جبکہ مائیکرو سافٹ کو 7 ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ ابھی یہ نقصان مزید کہاں تک جائے گا اس اندازہ کسی کو نہیں ہے مگر ایک بات حقیقت کی طرح عیاں ہوتی جارہی ہے کہ امریکہ اور چین کی ٹیکنالوجی کی جنگ میں چین کا پلہ فی الحال بھاری نظر آرہا ہے۔