Balochistan, Pehchan Ke Qatal Ka Noha
بلوچستان، پہچان کے قتل کا نوحہ

یہاں ناموں کے ساتھ تقدیریں لکھی جاتی ہیں، شناختی کارڈ کی بنیاد پر زندگی اور موت کا فیصلہ ہوتا ہے اور جو مزدور روزی روٹی کی تلاش میں نکلتے ہیں، وہ اکثر تابوت میں لپٹے واپس آتے ہیں۔ بلوچستان کی زمین، جس کے نیچے سونے، چاندی، تیل اور گیس کے خزانے دفن ہیں، اوپر لہو سے رنگی جا رہی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ بلوچستان میں تشدد کیوں ہے، سوال یہ ہے کہ بلوچستان میں امن کیوں نہیں؟
بارکھان ہو یا موسیٰ خیل، مستونگ ہو یا تربت، کہانی ایک جیسی ہے۔ گاڑی رُکتی ہے، مسافر اتارے جاتے ہیں، شناختی کارڈ چیک کیے جاتے ہیں اور پھر وہ جو کسی اور صوبے کے باسی ہوتے ہیں، انہیں لائن میں کھڑا کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ وہ مزدور جو ایک دن پہلے اپنی ماں، اپنے بچوں، اپنی بیوی سے روزی کی تلاش میں نکلے تھے، انہیں اگلی صبح شناخت کی بنیاد پر گولیوں سے چھلنی کر دیا جاتا ہے۔ ان کا جرم؟ کیا وہ پاکستانی نہیں بلکہ کیا وہ انسان نہیں۔
یہ کہانی بارکھان میں قتل ہونے والے سات مسافروں کی بھی ہے، جو کوئٹہ سے فیصل آباد جا رہے تھے۔ ان کے چہروں پر تھکن تھی، آنکھوں میں نیند تھی اور دماغ میں اپنے بچوں کی تعلیم، گھر کا کرایہ اور آنے والے مہینے کے راشن کی فکر تھی۔ مگر وہ اس سفر سے زندہ واپس نہ جا سکے۔ یہ کہانی اگست 2024ء کے موسیٰ خیل قتل عام کی بھی ہے، جہاں 23 مسافروں کو شناخت کی بنیاد پر مار دیا گیا، ان میں سے 20 کا تعلق پنجاب سے تھا۔ بلوچستان کے پہاڑوں میں جو جنگ لڑی جا رہی ہے، وہ اب ایک سیاسی تنازع سے آگے نکل کر دہشت گرد کی بھیانک جنگ بن چکی ہے۔ یہاں ظلم کے دائرے بن چکے ہیں۔
بلوچستان میں خون کی لکیر کھینچی جا چکی ہے۔ یہ وہ لکیر ہے جو شناختی کارڈ پر موجود پتہ، نام، یا زبان کے فرق سے بنتی ہے۔ 2004ء کے بعد سے انتہا پسند عسکری گروہوں نے پہلے ریاستی فورسز کو نشانہ بنایا، پھر مزدوروں کو اور اب عام مسافروں کو، صرف شناخت کے نام پر انسانی جان کا چھین لئے جانا ایک مذموم سازش ہے۔ بلوچ لبریشن آرمی (BLA)، بلوچستان لبریشن فرنٹ (BLF) اور بلوچ ریپبلکن آرمی (BRA)اب شناخت کی بنیاد پر حملے کر رہے ہیں۔ یہ حملے صرف انتقام نہیں، ایک پیغام ہیں کہ بلوچستان میں غیر بلوچوں کا داخلہ ممنوع یہ پیغام ہے جو ہر حملے کے ساتھ پھیلایا جا رہا ہے۔ یہ وہی حکمت عملی ہے جو دنیا کے مختلف تنازعات میں دیکھی جا چکی ہے، جب بغاوت مسلح تشدد میں بدلتی ہے، تو سب سے پہلے مزدور اور عام شہری مارے جاتے ہیں۔
یہ کوئی اتفاق نہیں کہ پنجابی، سرائیکی اور پشتوں مزدور، ٹرک ڈرائیور اور کاروباری افراد عسکریت پسندوں کے نشانے پر ہیں۔ 2015ء سے 2024ء کے درمیان 150سے زیادہ پنجابی مزدوروں کو شناخت کے بعد قتل کیا جا چکا ہے۔ یہ خونریزی کوئی اچانک حادثہ نہیں، بلکہ ایک طویل اور مسلسل منظم منصوبے کا حصہ ہے۔ ریاست نے ہر دہشت گردی کا جواب طاقت سے دیا، مگر طاقت نے کبھی مسئلہ حل نہیں کیا۔ انتہا پسند گروہ بلوچ نوجوانوں کی برین واشنگ کرکے تعلیم اور روزگار کے بجائے پہاڑوں پر بھیج رہے ہیں اور جو مزدور بلوچستان آتے ہیں، وہ واپس زندہ نہیں جا رہے۔
ریاست کی ہر بار کوشش رہی کہ عسکری آپریشن سے شورش ختم ہو جائے گی، مگر حقیقت یہ ہے کہ پہلی گولی چلانے والا ہمیشہ ہار جاتا ہے۔ بلوچ نوجوان کیوں ہتھیار اٹھا رہے ہیں؟ وہ کس چیز کے خلاف لڑ رہے ہیں؟ ان کا جواب کون دے گا؟ بلکہ خود ان نوجوانوں کو استعمال کرنے والوں کے پاس بھی جواب نہیں کیونکہ ان کارروائیوں سے زیادہ نقصان بلوچستان کا ہی ہورہا ہے اور تنہائی کا شکار ہوتا جارہا ہے، دوسرے صوبوں میں رہنے والے خوف سے زندگی بسر کرنے لگے ہیں کہ شناخت کرکے شہید کئے جانے والوں محنت کشوں کے قتل کا ردعمل کہیں انہیں نقصان نہ پہنچانا شروع کر دے۔
ریاست ہمیشہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا طاقت سے جواب دیتی رہی ہے کیونکہ دہشت گرد سیکورٹی فورسز کو نشانہ بناتے ہیں، 2024ء میں بلوچستان میں سیکڑوں سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے اور اس کے جواب میں بڑے آپریشن شروع کر دئیے گئے۔ مگر اس سب کا نتیجہ کیا نکلا؟ دوسرے صوبوں سے آنے والے محنت کشوں کو بے دردی اور بے رحمانہ ٹارگٹ کرکے شہید کرنے سے کیا بلوچستان میں امن آجائے گا؟ انتہا پسند اس قسم کی کارروائیوں سے کس قسم کا امن بلوچستان میں لانا چاہتے ہیں۔ بلوچستان کو ترقی، امن اور محبت کی ضرورت ہے، گولیوں اور بارود کی نہیں۔
اس کے لیے کچھ بنیادی اقدامات فوری طور پر کرنے ہوں گے، بلوچستان کے قدرتی وسائل میں بڑا حصہ مقامی حکومت کو دیا جائے، تاکہ وہاں کے عوام کو ترقی میں شامل کیا جا سکے۔ حکومت کو فوری طور پر بلوچستان میں شناخت کی بنیاد پر قتل عام کے خلاف سخت پالیسی لانی ہوگی اور تمام مزدوروں اور غیر مقامی محنت کشوں کے لیے سیکیورٹی فراہم کرنی ہوگی۔ بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کو زیادہ اختیار دیا جائے، تاکہ مقامی لوگ خود فیصلے کر سکیں۔
بلوچستان کے پہاڑوں میں بسنے والے لوگ دشمن نہیں، وہ بھی اسی ملک کے شہری ہیں، اس احمقانہ فلسفے کو تبدیل کرنا ہوگا، جو بھی ہے اور اگر وہ ریاست کے خلاف ہے اور معصوم شہریوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسروں اور اہلکاروں کو دہشت گردی کا نشانہ بناتا ہے تو وہ صرف دہشت گرد ہے، جس کا ایجنڈا ملک دشمن عناصر سے لیا گیا ہے، ان کا مقصد ملک کی سلامتی کو نقصان پہنچانا ہے، ان کا تعلق کسی قوم، وطن یا مذہب سے نہیں، یہ صرف دہشت گرد ہیں اور انتہا پسند ہیں اور فساد فی الارض پھیلانے والے عناصر ہیں۔
اگر مزدوروں کے قتل عام کو نہ روکا گیا، اگر ریاست اور وطن پرست بلوچوں کے درمیان خلیج کم نہ کی گئی، تو بلوچستان میں خون بہتا رہے گا۔ ریاست کے پاس دو راستے ہیں پہلا یہی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف بھرپور طاقت کا استعمال جاری رکھے اور مزید عسکریت پسند پیدا نہ ہونے دے اور دوسرا یہ کہ نظریاتی طور پر بلوچستان کے تمام لسانی اکائیوں کے دل جیتنے کی پالیسی اپنائے اور انہیں ترقی میں شامل کرے۔
بلوچستان کا مسئلہ صرف ایک لسانی اکائی کا نہیں ہے، بلوچستان میں ایک بڑی تعداد دیگر قومیتوں کی بھی ہے جو مخصوص لسانی اکائی سے اکثریت میں ہیں۔ کسی کو بھی بلوچستان کو جیتنا ہے تو زمین پر قبضہ نہیں، دل جیتنے ہوں گے۔ ورنہ تاریخ یہی لکھے گی کہ بلوچستان کے پہاڑ جیت لیے، گئے مگر اس کے باسیوں کے دل ہار دئیے۔