Baqa Ke Liye Insani Kamalat
بقا کے لئے انسانی کمالات

کرہ ارض پر بنی نوع انسان کے امتیازی اوصاف میں سے چند ایک وہ کارنامہ جات ہائے زندگی ٹھہرے جنہوں نے آدمی کو جانور سے ممتاز کیا اور ترقی کی نئی راہیں کھولیں۔ ان کارناموں میں سے چند ایک کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے تاکہ آج کے انسان کو معلوم ہو کہ وہ کون سے عوامل رہے جن کی بدولت انسان وہاں پہنچا جہاں آج ہے۔
آج سے قریب ڈیڑھ ملین برس پہلے انسان نے پہلی بار آگ کو اپنی ضرورت کے مطابق قابو کرنا سیکھا۔ یہ سبق آنے والے ترقیاتی دور کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ آگ کو استعمال کرنا سیکھ کر ہی انسان اس جہنمی کمال کے ذریعے کھانا پکانا سیکھا۔ اسی کے ذریعے انسان نے سرد موسم میں خود کو گرم رکھنا سیکھا جس کے بعد انسانیت بقاء کے اعلیٰ درجات کی جانب فائز ہوتی رہی۔ یہ آگ ہی تھی جو جانوروں کے خلاف تحفظ کا کام بھی دینے لگی۔ یہی آگ تھی جو بعد ازاں معاشروں کی بڑھوتری میں مددگار ثابت ہوئی۔
قریب دس ہزار سال قبل مسیح میں انسان نے پہلی بار باقاعدہ طور پر زراعت کو اپنایا۔ شکار کے لیے جانوروں پر منحصر رہنے اور جانوروں کی دستیابی کے عدم سے انسان جب زراعت کی جانب نکلا تو یہاں سے ناصرف مشکل وقت میں دستیاب اناج کے ذریعے بھرے پیٹ کے ساتھ بقاء کا ارتقاء شروع ہوا بلکہ یہیں سے جدید معاشیات کی ابتداء بھی ہوئی۔ یہ عوامل بعد ازاں جدید تہذیب کی راہ آسان کرنے کا سبب بھی بنتے گئے۔
ساڑھے تین ہزار برس قبل مسیح میں بنی نوع انسان نے پہلی بار پہیہ ایجاد کیا۔ کہنے والے اسے بجا طور پر تاریخ کی پہلی ایجاد کہتے اور مانتے ہیں۔ بلاشبہ یہ ایجادات میں سے اہم ترین ایجاد رہی۔ پہیے کی ایجاد کے قریب پانچ سو برس بعد یعنی تین ہزار سال قبل مسیح میں اسے پہلی بار آمد و رفت کے لیے استعمال کیا گیا۔ پہیہ کی ایجاد کے بعد گویا ایجادات کی رفتار کو پہیہ لگ گیا اور انسان تب سے اب تک ترقی کی راہ پر آگے ہی آگے رواں ہے۔
سولہویں اور سترہویں صدی عیسوی میں انسان نے پہلی بار اس بات پر غور کیا کہ یہ سیب درخت سے ٹپک کر اس کے سر کیوں گرا، آخر کیونکر یہ ہوا میں اڑتے ہوئے انسان پر فضلہ برسائے پرندے کو جا کر نہ لگا۔ یہ "کیوں" جس کے جواب کا انسان ہمیشہ سے متلاشی رہا، جدید سائینسی دور کا آغاز ثابت ہوئی۔ نیوٹن، گلیلیو سمیت دیگر انسانوں نے خود کو بطور سائینسدان معروف کروایا اور ابتدائی سائینسی اصول وضع کیے جس کے باعث جدید ترین سائینسی ترقی ممکن ہو سکی۔
قارئین کرام، رات کے اندھیرے میں کی جانے والی محنت سے زیادہ دن کے اجالے میں سامنے والی کامیابی کا دکھایا جانا ایک معمول کی بات ہے۔ اصول البتہ یہ ہے کہ کامیابی کا سہرا جائز حق دار کو ملنا چاہیے۔
مثلاً۔۔ آپ کو یہ تو بتایا گیا ہے کہ آگ کے استعمال پر قدرت پا لینا انسانیت کا عظیم ترین کارنامہ تھا تاہم پھدو کھاتا میڈیا آج تک آپ کو یہ نہیں بتاتا کہ آگ کا استعمال ڈیڑھ کی بجائے تین ملین برس قبل ممکن ہوجاتا اگر شریف خاندان ڈیڑھ ملین برس تک سیدنا زرداری صاحب کی آگ میں پانی نہ ڈالتا رہتا۔ سیدنا زرداری ناکام ہوتے تو پھدو کھاتا میڈیا اور ڈیڑھ ملین برس قبل کے سوشل میڈیا مسخرے ان کا مذاق اڑاتے۔
مثلاً۔۔ آپ کو یہ تو بتایا گیا ہے کہ دس ہزار برس قبل مسیح انسان نے فصلیں اگانا سیکھ لیں مگر پھدو کھاتا میڈیا آپ کو یہ نہیں بتائے گا کہ زراعت ممکن ہی سیدنا آصف علی زرداری صاحب کی انتھک کوششوں سے ہوئی۔ بیس ہزار قبل مسیح سے سیدنا زرداری کا گنا اگتے ہی شریف خاندان اپنے ہاتھی ان کی فصلوں میں چھوڑ دیا کرتا اور پھر ناکامی پر ٹھٹھے لگاتا۔
مثلاً۔۔ پہیہ سات ہزار برس ایجاد ہو سکتا تھا اگر شریف خاندان سات ہزار برس قبل مسیح تا ساڑھے تین ہزار سال قبل مسیح تک پھدو کھاتے میڈیا کے ذریعے "پہیہ پینچو چورس ہوندا اے" کا پروپیگنڈا نہ پھیلاتا۔ اس پر ستم یہ کہ سارے مل کر مذاق الگ اڑایا کرتے۔
مثلاً۔۔ کشش ثقل کی بابت انسان آٹھویں صدی عیسوی میں سوچ لیتا اگر سوتے ہوئے سیدنا زرداری صاحب کے سر پر گرنے والے سیب کا درخت شریف خاندان آٹھ سو برس تک کاٹنے میں نہ لگا رہتا۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ پھدو کھاتا میڈیا بھی ان کے ساتھ رہا اور کئی ہزار برس تک بنی نوع انسان کو اس پروپیگنڈے میں مبتلا رکھا کہ یہ سیب نہیں جو سر پر گرتا ہے بلکہ سر خود جا کر سیب سے لگتا ہے۔
قارئین کرام۔۔ یہ پہلی بار نہیں کہ شریف خاندان کی ایماء پر پھدو کھاتا میڈیا اور ناسمجھ سوشل میڈیا مسخرے سیدنا زرداری کی حکمت کا ٹھٹھہ لگا رہے ہیں۔ یہ تو لاکھوں کروڑوں برس سے ہوتا آیا ہے، جیسے آج تاجکستان کا پانی بلوچستان لانے پر ہو رہا ہے۔
تاہم اصل بات یہ ہے کہ پھدو کھاتا میڈیا اور شریف خاندان ہمیشہ منہ کی کھاتے رہیں گے۔ حق کا بول انشاءاللہ بالا ہوگا۔ سیدنا زرداری کی حکمت و تدبیر کے آگے کائنات کی کوئی طاقت کھڑی نہ پہلے ہو پائی ہے نہ اب ہو پائے گی۔
انشاءاللہ تعالیٰ۔۔