Hasad Ki Aag, Khushiyan Raakh
حسد کی آگ، خوشیاں راکھ

انسان کو انسان سے روزمرہ زندگی سے لیکر تخیل تک، حتٰی کہ ازل سے ابد تک اک منفی سوچ، جذبے اور احساس کا سامنا ہے جو حسد کہلاتا ہے، یہ اسقدر ہیچ قسم کا ناسور ہے جو ہم اپنے انتہائی قریبی رشتوں اور باہمی پُروقار تعلقات میں بھی دیکھتے اور اسکا سامنا کرتے ہیں، ہم اس کو اک نفسیاتی بیماری کہیں یا روحانی بدحالی تو بےجا نہیں ہوگا، کیونکہ یہ ہر دور، حالات اور اوقات میں انسان کی زندگی کو بُرے طریقے سے متاثر کرتی ہے۔
ایسا کیا ہے کہ ہم کسی دوسرے کی خوشی، کامیابی، دسترس یا عطا ہوئی نعمت کو دیکھ کر خود کو ہیچ حد تک گرا لینے کے وسوسے کا شکار ہو کرایسی سوچ، احساس اور کیفیت کا شکار کر لیتے ہیں کہ وہ اُس سے چھن جائے، ہمیں کیوں نہیں حاصل ہوئی اور اُس سے کدُورت، بغض پیدا کرلیتے ہیں، یہ معنوی اعتبار سے حسد کہلاتا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ حسد نے ہر سطح پر تباہی ہی مچائی اور بربادی کو ہی جنم دیا، چاہے وہ بلواسطہ ہو یا بلاواسطہ۔
اس منفی احساس کو شیطان اور شیطانیت سے منسوب کیا جاتا ہے، کہ شیطان نے حضرتِ آدم سے اور ہابیل نے قابیل سے اور حضرتِ یوسف سے اُنکے بھائیوں نے اسکا ارتکاب کیا اور اسکا انجام بھی آپکے سامنے تاریخ کی روشنی میں موجود ہے۔ اسلام نے حسد سے بچنے کی سخت تلقین کی ہے۔ قرآن میں صاف الفاظ میں فرمایا گیا ہے: "کیا وہ لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس چیز پر جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا کی؟" (سورہ النساء: 54)۔ حدیث مبارکہ میں بھی حسد کو خیر و برکت کے لیے تباہ کن قرار دیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتی ہے جیسے آگ لکڑیوں کو جلا دیتی ہے" (ابو داؤد)۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ حسد نہ صرف دنیوی زندگی میں نقصان پہنچاتی ہے بلکہ آخرت میں بھی نیکیوں کو برباد کر دیتی ہے۔
یہ ہم نوع انسان کو معاشرتی سطح پر دفاتر میں، کاروباری دُنیا میں، پیشہ ورانہ تعلقات میں اک دوسرے کے کاروبار، عہدے، طبیعت کےآرام و سکون، وسائل اور ذاتی سطح پر رشتوں کی کسی بھی نوعیت "بہن بھائی، میاں بیوی حتٰی کہ والدین و اولاد" بھی اس خباثت میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ ترقی یافتہ اور علم و دانش رکھنے والے معاشرے ان معاملاتِ زندگی کو مثبت اور مسابقتی انداز میں دیکھتے ہیں اور اُن وجوہات کی طرف مائل ہوتے ہیں تاکہ مستفید ہو سکیں جبکہ ہمارے ترقی پذیر اور ثانوی سوچ کے حامل معاشروں میں یہ نقصان دہ رویوں اور ذاتی عناد والی دُشمنی تک میں بدل جاتی ہے اور اپنی توانائیاں اُس کی راہ میں رکاوٹ اور اُسکو نقصان پہنچانے میں صرف کرتے ہیں۔
اس منفی سوچ و جذبہ کا انسانی دماغ پر اس قدر گہرا اثر پڑتا ہے کہ اک حاسد کو اپنی نعمتیں، سکون، خوشی دُوسروں سے کم لگتی ہے اور وہ مسلسل ذہنی پسماندگی اور بے سکونی کا شکار رہتا ہے اور اپنی ہی سوچ کی لگائی ہوئی آگ میں خود کو جلاتا رہتا ہے، جو اُسکو ترقی کے مواقع سے محروم اور اپنی عطا ہوئی نعمتوں کے لطف سے محدود کر دیتا ہے، اس سے بڑھ کر اور کیا زیادتی اپنے ساتھ ہو سکتی کہ جو اللہ سبحان و تعالٰی نے آپکو عنایت فرمایا ہے آپ اُسکے لطف کو ہی ختم کر دو صرف اس وجہ سےکہ کسی دوسرے کو بھی عطا کیا ہے یا کم زیادہ کا حساب کرنے لگو اور ناشکرے گردانے جاؤ، علم و فہم رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوئے بھی نہ سمجھی کرواور بینائی رکھتے ہوئے بھی اندھے ہو جانے والی صورتحال ہے۔
اس جذبے سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اللہ سبحان و تعالٰی کی تقسیم اور قدرت کے نظام کو سمجھیں اور اُس پر راضی رہنا سیکھیں۔ ہر انسان کو اللہ نے مختلف صلاحیتیں، مواقع اور نعمتیں عطا کی ہیں۔ کسی کے پاس دولت ہے تو کسی کے پاس علم، کسی کے پاس عزت ہے تو کسی کے پاس محبت۔ ہمیں اس حقیقت کو قبول کرنا ہوگا کہ اللہ نے ہر ایک کو وہی دیا ہے جو اس کے لیے بہتر ہے اور جس کیلئے اُس نے لگن، محنت اور نیک نیتی کیساتھ جستجو کی اور اللہ سبحان و تعالٰی کے در پر اُسکی قبولیت ہوئی، اگر ہم دوسروں کی کامیابی پر حسد کرنے کے بجائے اللہ کا شکر ادا کریں اور اپنی محنت پر یقین رکھیں، تو ہم اپنی زندگی میں بھی خوش رہیں گے اور سکون میں بھی رہیں گے، قلبی سکون بہت بڑی دولت ہے۔
حسد سے نجات پانے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ اپنی زندگی میں اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو یاد کریں۔ کسی کے گھر، گاڑی، نوکری یا شہرت پر حسد کرنے کے بجائے اپنی ان نعمتوں پر غور کریں جو اللہ نے آپ کو عطا کی ہیں، زندگی میں سکون، برکت، خوشی بڑھ جائے گی، رشتوں میں پختگی اور محبت محسوس ہوگی اور معاشرتی و ذاتی زندگی آسانیوں سے بھر جائے گی، دوسروں کی کامیابی پر حسد کرنے کے بجائے ان کے لیے دعا کریں، کیونکہ دعا سے دل کی کدورت دور ہوتی ہے اور اللہ سبحان و تعالٰی کی خوشنودی و برکتیں نازل ہوتی ہیں۔ اللہ سبحان و تعالیٰ ہمیں باہمی معاملات میں قُرب، خلوص، محبت اور اپنائیت عطا فرمائے اور اک دوسرے کے لئے آسانیاں پیدا کرنے والا بنائے۔

