Hayat e Be Sabat (1)
حیات بے ثبات (1)

ان کا بار بار فون آ رہا ہے جواب کے لئے، امی نے سوالیہ نظروں سے پاپا کی طرف دیکھا۔
کیا مطلب! آپ نے ان لوگوں کو اب تک جواب نہیں دیا؟
آپ جانتی ہیں میرا موقف پھر یہ بے موقع سوال کیوں؟
میں جو بلونگڑے کی زخمی ٹانگ کی ڈریسنگ کر رہی تھی، یک دم بےچین ہوگئی، امی نے یقیناً میرا اضطراب بھانپ لیا تھا۔ کہنے لگیں اس رشتے پر غور کرنے میں کیا مضائقہ ہے؟ اچھی فیملی ہے اور ہم ہی لوگوں کی طرح پڑھا لکھا متوسط طبقہ بھی۔ سب سے اہم بات کہ اتنی چاہ سے آرزو مند ہیں۔
آپ شاید سلطان کا رشتہ بھول رہی ہیں! اول کہ سلطان، تبریز سے بہتر طلب گار ہے اور نا بھی ہوتا تو سلطان کا برادری سے ہونا ہی اسے فائق کرتا ہے۔
یہ سن کر تو میری بس ہی ہوگئی اور میں لاونج میں آ کر صوفے پر بیٹھ گئی۔ امی نے آنکھ کے اشارے سے مجھے اٹھ جانے کا اشارہ بھی کیا مگر میں ڈھیٹ بن کربیٹھی رہی۔ سچ تو یہ ہے کہ میں پچھلے دو مہینوں سے چلتی اس بے تکی بحث سے بے زار ہو چکی تھی اور آج پاپا کہ منہ سے پھر وہی ازلی پرانا راگ کہ خاندان کا ہے، اپنی برادری سے ہی ہے۔ سن کر میری ازلی باغی روح بپھر کر بیدار ہوگئی۔ امی کی ہر ممکن کوشش تھی کہ ہم دونوں باپ بیٹی آمنے سامنے نہ ہوں، مگر آج معاملہ آر یا پار ہونا تھا۔ ویسے بھی انتظار جان لیوا ہوتا ہے۔ پھانسی پانے والے مجرم کی طرح، جسے پھانسی کی سزا تو سنائی جا چکی ہوتی ہے مگر متعین وقت نہیں بتایا جاتا۔
میں نے پوچھا، پاپا آپ تبریز سے دو تین بار مل چکے ہیں۔ اس کی کون سی بات یا عادت آپ کو بری لگی؟
کہنے لگے، "نہیں وہ بہت متوازن اور احسن شخصیت ہے"۔
پھر انکار کی وجہ؟
تم جانتی ہو میں برادری کو ترجیح دیتا ہوں کہ اپنا مارے گا بھی تو چھاوں میں ڈالے گا۔
پاپا! بصد احترام، جب مار ہی دیا تو اس بے روح جسم کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس کا لاشہ دھوپ میں ہے، سائے میں ہے یا دریا برد کر دیا گیا ہے۔ یہ انتہائی غیر منطقی (illogic) جواز ہے۔ ہم لوگ متوسط طبقے کے عام سے لوگ ہیں اور ہمارا خاندان بھی اوسط۔ ہم نہ تو کہیں کے گدی نشین اور نہ ہی نواب ابن نواب لہذا پلیز یہ خاندان والی بات تو آپ رہنے ہی دیجئیے۔ سب سے بڑی بات کہ بچپن سے لیکر آج تک آپ نے کبھی کسی چیز پر پابندی نہیں لگائی، میں نے ہمیشہ اپنی مرضی کا کھایا، اپنی مرضی کا پہنا اور اپنی ہی مرضی کا پڑھا اور اب جب کہ زندگی کا سب سے اہم اور حساس چناؤ کا لمحہ ہے تو فیصلے کا سو فیصد اختیار آپ اپنے ہاتھوں میں لے رہے ہیں۔ جس کے ساتھ مجھے زندگی کے چالیس پچاس یا پتہ نہیں کتنے سال گزارنے ہیں اس میں میری کوئی say ہی نہیں۔ کیا میری مرضی اور پسند نا پسند کی کوئی اہمیت نہیں؟
With due respect papa, this is totally unfair.
تو سلطان میں کیا برائی ہے؟
میں نے کبھی نہیں کہا کہ سلطان بھائی میں کوئی برائی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ میں نے ان پہ غور ہی نہیں کیا، یا یہ کہہ لیجیے کہ وہ جس پوسٹ کے آسامی تھے وہاں اب نو ویکنسی ہے۔ پلیز پاپا میری آپ سے التجا ہے کہ آپ تبریز کے رشتے پر غور کیجئیے۔
میں بڑی لجاجت سے کہا۔
اگر میرا جواب تب بھی یہی رہا تو تم کیا کرو گی؟
پاپا نے گہری سنجیدگی کے ساتھ نہایت غیر متوقع سوال کیا۔
میں دھک رہ گئی، مجھے اس سوال کی توقع نہیں تھی۔ تبریز کے نہ ہونے کا تو سوچا ہی نہیں تھا۔ مجھے تو یہ بھی نہیں پتہ چلا تھا کہ وہ میری زندگی میں شامل کب ہوا؟ ہاں بس اتنا یقین کہ اب وہ ناگزیر ہے۔ وہ نہ ہو تو سورج بے حرارت اور چاند گہن زدہ لگتا ہے۔ بارش، بارش نہیں رہتی بلکہ ایسڈ رین بن جاتی ہے۔ تبریز اگر میری زندگی سے نکل گیا تو میں تو کلر بلائند ہو جاؤں گی۔ مجھے لگا کہ مجھے سانس لینے میں دقت پیش آ رہی ہے۔
میں نے کھڑے ہوتے ہوئے صرف اتنا کہا "پاپا آپ میری اولیت ہیں اور میرے ولی بھی۔ میں آپ کے جواب کی عزت رکھوں گی مگر وہ ویکینسی پھر ویکنٹ ہی رہے گی"۔
میں ڈولتے قدموں سے اپنے کمرے میں آ گئی میرا توازن بگڑ چکا تھا۔ وہ بلونگڑا بڑے آرام سے میری تکیہ سے ٹیک لگائے سو رہا تھا۔ مجھے نہیں علم تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے؟ شدت سے دل چاہا کہ چپکے سے عرش پر جاؤں اور اپنی تقدیر کا پنّہ دیکھ لوں۔ دلِ نابکار پر بھی غصہ تھا کہ جو چیز مقدر میں ہی نہیں اس کی لوبھ میں مبتلا ہونے کی کیا تک تھی؟ جی چاہ رہا تھا کہ میں کہیں معدوم ہو جاؤں، بس فنا ہو جاؤں۔
کاش، کاش! میں نے اس دن یونیورسٹی کے مباحثے میں شرکت نہ کی ہوتی، تبریز کی تقریر نہ سنی ہوتی۔ کامرس اور مائکرو ڈپارٹمنٹ میں فاصلہ ہی کتنا تھا، ویسے بھی کامرس والے IBA کی مہنگی کنٹین میں جانے کے بجائے فارمیسی یا مائکرو کی کینٹین ہی کو ترجیح دیتے تھے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں نے پہلے بھی تبریز کو دیکھا تھا۔ وہ بالکل عام سا بندہ مگر نہیں! یقیناً نہیں۔ تقریر سن کر احساس ہوا کہ یہ تو شعلہِ جوالہ ہے۔ کیا بلیغ اندازِ بیان تھا، بلا کی شائستگی اور برجستگی بھی۔ ایک تیز بہاؤ جس میں میرا ضبط بہ گیا اور ساتھ ہی صبر و قرار بھی ہاتھوں سے گیا۔ شیم آن یو، تف ہے تم پر عطرت!
محض ایک تقریر کی مار تھیں تم؟
نہیں ایسا نہیں تھا، میں نے بہت احتیاطی تدابیر کیں، بہتیرے بند باندھے مگر سب ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ اس کی ذہانت، فطانت اور شائستہ رکھ رکھاؤ نے میرے آہنی بنکر کو ریت کا گھروندا بنا دیا۔
میں مائکرو بیالوجی پریویس میں اور تبریز ایم کام فائنل میں تھے۔ مجھے دیکھ کر اس کی آنکھوں کی چمک اور چہرے کی تابناکی اطراف کو روشن کر دیتی تھی۔ ایک سال کب گزرا پتہ ہی نہیں چلا۔ جلد ہی اسے بینک میں نوکری مل گئی۔ اس کے ہوتے ہوئے جامعہ جو پیرس کا مرغزار لگا کرتی تھی اب وہی یونیورسٹی تھر کا بے آب و گیاہ صحرا بن گئی تھی۔ فائنل کے پہلے سیمسٹر میں میرے گریڈ بھی گر گئے، شرمندگی سی شرمندگی تھی۔ بہت سمجھا بجھا کر دل کو پڑھائی پر رام کیا۔ رابطے کا واحد ذریعہ فون تھا اور فون لاونج میں ہوتا لہذا زیادہ دیر انگیج بھی نہیں رکھ سکتی تھی۔ خدا خدا کرکے فائنل ختم ہوئے۔ آگے کا کچھ نہیں پتہ تھا کہ کیا ہوگا؟ جدائی کا آسیب اب مجھے ڈرانے لگا تھا۔ نماز میں دعاؤں کا دورانیہ بڑھ گیا تھا اور میں اللہ تعالی سے بارگین بھی کرنے لگی تھی کہ بس اللہ تعالی صرف یہ دعا سن لیجیے پھر کبھی کچھ نہیں مانگوں گی۔ (سدا کا مطلب پرست انسان)۔
جس دن میرا رزلٹ نکلا اسی شام تبریز کے گھر والے مٹھائی لیکر مبارک باد دینے آئے اور ساتھ ہی ساتھ میرا رشتہ بھی مانگا۔ مجھ سے تو خوشیاں سنبھالی ہی نہیں جا رہی تھیں۔ زمانے بعد تبریز کو دیکھا تھا اور اس دن تو واقعی ایسا لگ رہا تھا کہ میرا دامن خوشیوں کے لیے تنگ پڑ گیا ہے۔ ان کے سامنے تک تو پاپا نارمل تھے پر رات کے کھانے پر جب میں نے چوری چوری پاپا کو دیکھا تو ان کی سنجیدگی نے لرزا کر رکھ دیا۔ میرا دل ہی ڈوب گیا اور لقمہ حلق سے اتارنا دشوار تر۔ مجھے اپنا نصیب ان کی پیشانی کی شکنوں میں لکھا صاف نظر آ رہا تھا۔ مجھے محبت سے بہت خوف آتا تھا کہ میرا وجدان کہتا تھا کہ دل ٹوٹے گا۔ اب وہ چاہے میرا ہو یا پاپا کا۔ جانے حیات کیا کروٹ لے گی؟ دوسرے دن لاونج میں فون کی گھنٹی مسلسل بجتی رہی مگر مجھ میں ہمت ہی نہ تھی کہ تبریز کے سوالوں کا جواب دے سکتی۔ اسی کشمکش میں دو مہینے گزر گئے۔ بیس پچیس دن پہلے سلطان بھائی کا رشتہ آیا تھا اور پاپا کا پورا جھکاؤ اسی رشتے کی طرف تھا۔ امی نے تبریز کی طرف میرا رجحان دیکھتے ہوئے، پاپا کو سلطان کے سلسلے میں اقرار کرنے سے باز رکھا۔
اس شام والے قصے کے بعد سے میں تقریباً اپنے کمرے ہی میں قید تھی۔ پاپا سے اتنی بے باکی سے گفتگو کرنے کے بعد مجھ میں ان سے آنکھیں ملانے کا حوصلہ نہ تھا۔ دل بھی بے انتہا اداس تھا سو کمرے میں اندھیرا کیے اٹواٹی کھٹواٹی لیکر پڑی رہتی۔ دل یہی چاہتا کہ نہ کوئی کچھ بولے اور نہ ہی میں کسی کی سنوں۔ پرسو شام چائے بناتے ہوئے پاپا کی گفتگو سنی وہ امی کو بتا رہے تھے کہ تبریز ان کے دفتر آیا تھا۔ میرا تو دل ڈوب ڈوب گیا کہ یقیناً پاپا نے تبرز کو صاف انکار کردیا ہوگا۔
حالِ دل کہتی تو کس سے کہ گھر میں اب ہم تین افراد کے علاوہ کوئی اور تھا ہی نہیں۔ آپا کوئٹہ میں اپنے دو بچوں اور بھرے پرے سسرال کے ساتھ چومکھی لڑنے میں مصروف تھیں سو ان سے کچھ کہنا فضول ہی تھا۔ رہ گئے ذکی بھیا تو وہ چھ سال پہلے این۔ ای۔ ڈی سے انجنیئرنگ کرکے امریکہ سدھارے تو امریکہ ہی کو پیارے ہو گئے۔ ایم۔ ایس کے بعد وہیں ایک پاکستانی فیملی میں ان کی شادی بھی ہوگئی۔ ظاہر ہے پاپا خوش نہیں تھے مگر معترض بھی نہیں۔ امی پاپا کو تو ویزا مل گیا تھا مگر میرا ویزا امریکن گورنمنٹ نے مسترد کر دیا۔ واپسی پر امی پاپا کا برادری سے باہر کی بہو کا ملال جاتا رہا کہ سطوت بھابھی کی فیملی بہت ہی اچھی تھی۔ سطوت بھابھی ابھی دو سال پہلے یوسف کی پیدائش کے بعد، یوسف کو اسکے ددھیال سے ملاقات کروانے پاکستان لائی تھیں۔ واقعی وہ بہت سادہ اور معصوم سی ہیں۔ غریب تو خاندانی سیاست سے قطعی نا بلد۔ غیبت اور جوڑ توڑ کے فنِ پر فتن سے یکسر نا آشنا۔ شکر ہے یہاں نہیں رہتی تھیں ورنہ تو لوگ باگ انہیں بیچ کر ہی کھا جاتے اور ان کے فرشتوں کو گمان بھی نہ ہوتا۔ ذکی بھیا کی شادی پر مجھے تین ہفتے کے لئے آپا کے سسرال میں رہنا پڑا تھا اور تب میں نے صحیح معنوں میں جانا کہ جنجال پورا ہوتا کیا ہے؟ خیر اب تو تجربے نے آپا کو بھی کافی دھار دار کر دیا ہے۔ کیا کیا جائے کہ شہر سکھائے کوتوالی۔
میں فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کہ مجھے پاپا سے اپنی بد کلامی کا دکھ زیادہ ہے یا ضمیر کی چبھن نا قابل برداشت۔ مجھے پچتاوا تھا اپنی زبان کھولنے پر کہ زبان کی دھار آزمائی بھی تو کس کے سامنے؟ تبریز میری قسمت میں ہے یا نہیں یہ تو اوپر والا بہتر جانے۔ یہ اللہ کے فیصلے ہیں اور بے شک وہ وہی کرے گا جو میرے حق میں بہتر ہوگا۔ سو میں جو کر سکتی ہوں وہ مجھے کرنا چاہیے اور وہ میں کرونگی۔
رات میں جب امی عشاء کی نماز پڑھ رہی تھیں تو میں نے پاپا کے لئے کافی بنائی اور بھیا کے کمرے کی طرف چلی۔ (بھیا کے جانے کے بعد سے ان کا کمرہ اب چھوٹی سی لائبریری میں تبدیل ہوگیا تھا۔ جہاں پاپا اور میری کتابوں کا کلیکشن تھا۔)
پاپا نے آہٹ پر سر اٹھا کر مجھے دیکھا اور کہا "واہ! قبولیت کی گھڑی ہے"۔
میں نے جلدی سے لرزتی کپ ٹیبل پر رکھ دی۔ وہ کپ اتنی وزنی لگ رہی تھی کہ جیسے کہ وہ کپ نہیں بلکہ میرے گناہوں کی گٹھڑی تھی۔ میں نے پاپا کا گھٹنا پکڑا اور گویا مجھ پر سے میرا سارا اختیار ختم ہوگیا۔ میری زبان کچھ بھی کہنے سے قاصر تھی اور آنسو تھے کہ رکتے نہ تھے۔
پاپا میری پیٹھ تھپکتے رہے۔ جب ذرا دل ٹھہرا تو میں نے کہا، پاپا! پلیز پلیز مجھے معاف کر دیجیے، اس دن کی میری زبان درازی بدتمیزی نہیں بلکہ گناہ تھی۔ اگر آپ مجھے معاف نہیں کرے گے تو اللہ میاں بھی معاف نہیں کرینگے۔
پاپا نے مجھے فرش سے اٹھا کر اپنے پاس بٹھایا، ٹشو پیپر سے میرا چہرہ صاف کیا اور کہا، "جاؤ منہ دھو کر آؤ اور اب پھر سے دو کپ کافی لیکر آؤ کہ یہ تو تمھارے رونے دھونے میں ٹھنڈی ہوگئی ہیں"۔
اف ماں باپ بھی کیا چیز ہوتے ہیں! میں بلکل ہلکی پھلکی ہوگئی تھی۔ اس وقت میں نے اپنے دل میں تبریز کے لئے صرف ہلکی سی خلش محسوس کی اور بس۔
دل مچلا ضرور مگر میں نے کہا
اب اور نہیں دلِ بے بس، بس!
بس! اے دلِ بے بس، بس!
پھر میں نے دو کے بجائے تین کپ بنائی، مجھے پتہ تھا کہ اب امی بھی شریکِ محفل ہونگی۔ جب میں اسٹڈی پہنچی تو امی بھی وہیں تھیں۔ پاپا نے اپنے پاس بیٹھا لیا اور کہنے لگے کہ تم جو کہا تھا وہ غلط نہیں گو کہ مروجہ نہیں۔ سب کا اپنا سوچنے کا انداز ہوتا ہے۔ میں برادری کو بہت اہمیت دیتا ہوں، شاید یہ میری عمر اور تجربے کا تقاضا ہے لیکن بات اصولی ہونی چاہیے۔ جو بات ذکی کے لئے قابلِ قبول ہے وہی ندرت اور عطرت کے لئے بھی منظور کی جانی چاہیے پھر لڑکا اور لڑکی کا فرق کیوں؟ کلچر شریعت سے افضل تو نہیں؟ جب شریعت میں پسند کی گنجائش ہے تو تمہارا اپنا حق مانگنا بھی جائز۔ میں غلطی پر تھا بیٹی اور تم مجھے معاف کر دو۔ کبھی کبھی ہم بڑے بھی اپنے اختیارات کا غلط استعمال کر لیتے ہیں۔
یا اللہ! پاپا پلیز خدا کے لئے ایسا مت کہیے! دس جوتے مار لیجیے مگر مجھے گناہ گار تو نہ کریں۔ میں گڑگڑائی نہیں میری جان، جو حق ہے سو ہے۔
پاپا نے سنجیدگی سے کہا۔
اچھا بھئی بہت ہوگیا یہ میلو ڈرامہ اب آپ بتا رہے ہیں یا میں بتا دوں؟
امی نے میز پر ناریل کی برفی سے بھری ہوئی پلیٹ رکھتے ہوئے کہا۔
جی جنابِ من! اب آپ کی باری ہے۔ پاپا نے آدھی برفی اپنے اور آدھی میرے منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔
پاپا نے تمہارا رشتہ تبریز کے ساتھ طے کر دیا ہے اور صرف رشتہ ہی نہیں طے ہوا ہے بلکہ شادی کی ڈیٹ بھی فکس ہوگئی ہے، 25 دسمبر۔
امی نے مجھے گلے لگاتے ہوئے بتایا۔
دسمبر کا مہینہ ذکی کی چھٹیوں کی وجہ سے ورنہ لڑکے والوں کا اصرار تو فوری شادی پر ہے۔ ندرت کے لئے بھی دسمبر کی چھٹیاں مناسب کہ کوئٹہ کی سردی سے اس کی جان بھی چھوٹے گی۔ اب تم اپنی سول نافرمانی کی تحریک چھوڑو اور کمرے سے باہر آ کر شادی کے انتظامات میں میرا ہاتھ بٹاؤ۔ وقت صرف پونے تین مہینے اور ڈھیروں کام باقی ہیں لڑکی!
ویسے اس سول نافرمانی کے دوران بھی تم اس بلی کے بچے کی خاطر داری نہیں بھولیں ! ویسے سچ بتاؤ یہ سارے زخمی جانور تم ہی کو کیوں ملتے ہیں عطرت؟
پاپا نے ہنستے ہوئے پوچھا۔
واقعی امی! میری تو سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ لوگ کہ کیا رہیے ہیں۔ جب realization تک پہنچی تو مارے خوشی کے امی سے دوبارہ لپٹ گئی، میں اتنی خوش تھی کہ شرمانا بھی بھول گئی تھی۔ میں تیزی سے اپنے کمرے میں آئی کہ اس کا تو شکریہ ادا کروں جس نے اوقات سے بہت بہت زیادہ نواز دیا ہے، واقعی کیا بے نیازی ہے میرے مالک کی۔
پھر تو زندگی جیٹ کی رفتار سے بھی تیز ہوگئی۔ میری شادی بہت خوبصورت کہ اس میں میرے سارے اپنے دل کی خوشی سے شریک تھے۔ امی، پاپا، ذکی بھائی، سطوت بھابھی اور یوسف۔ آپا، کلیم بھائی، علی اور نادیہ، میرا پورا گھرانہ میری خوشی میں شامل تھا۔ سب سے اہم بات کہ میری جنت مجھ سے راضی تھی۔
جاری ہے۔۔