Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shahzad Malik
  4. Yaadon Ke Gumshuda Jazeere

Yaadon Ke Gumshuda Jazeere

یادوں کے گمشدہ جزیرے

مجھے ہمیشہ سے بلندی سے خوف آتا تھا، میں سیڑھیاں اترتے ہوئے ڈر محسوس کرتی تھی کسی بلند جگہ سے نیچے گہرائی میں جھانکتے ہوئے اب بھی میرا دل بیٹھتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے پانی سے میں بہت گھبراتی تھی، جب گاڑی کسی دریا کے پل سے گزرتی تو میں دائیں بائیں پانی کو نہیں دیکھتی تھی۔

ہر قسم کا رینگنے والا کیڑا مجھے بہت خوفزدہ کر دیتا تھا۔ سانپ کی تو تصویر دیکھ کر ہی میرے بدن میں جھرجھری ہونے لگتی ہے۔ میری ان کیفیات کی جڑیں دور کہیں بچپن کے اس دور میں ہیں جب بچے کا ذہن لاشعور کی اندھیری سرنگ سے شعور کی روشن وادی کی طرف سفر کرتا ہوا اس مقام تک پہنچ جاتا ہے جہاں اس اندھیری سرنگ کا اختتام قریب ہوتا ہے۔ اندھیرے اور روشنی کے سنگم سے ایک ملگجا دھندلا سا منظر ہوتا ہے جس میں کوئی چیز محسوس تو ہوتی ہے مگر صاف دکھائی نہیں دیتی۔ اس دور میں ہونے والے اچھے برے واقعات بچے کے پردۂ ذہن پر نقش ہوکر اس کی شخصیت پر اپنا اثر چھوڑ جاتے ہیں۔

بلندی کا ڈر پانی کا خوف اور رینگنے والے کیڑوں سے گھبراہٹ بھی میری شخصیت کا حصہ بن چکی تھی۔ جب میں کالج میں پہنچی اور میں نے سائیکالوجی کا مضمون رکھا اس میں انسان کی غیر معمولی کیفیات کی وجوہات معلوم کرنے کے لئے ایک موضوع تھا سائیکو انیلیسز۔ یونہی انسانی نفسیات کا تجزیہ کرنا اس کا ذیلی باب ہے۔ سیلف انیلیسز جس میں کوئی شخص کسی دوسرے ماہر نفسیات کی بجائے اپنی غیر معمولی کیفیات کا تجزیہ خود ہی کرتا ہے۔ میں نے جب سیلف سائیکو انیلسز کے بارے میں پڑھا تو اپنے ان فوبیاز کی وجوہات کا کھوج لگانے کی ٹھانی۔

ایک دن امی جان کو فرصت میں دیکھ کر میں ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی اور ان سے اپنی ان تینوں کیفیات کے بارے میں سوال کئے۔ سب سے پہلا یہ کہ میں بلندی سے خاص طور پر سیڑھیاں اترتے ڈرتی کیوں ہوں انہوں نے اس ڈر کے پیچھے کی جو کہانی سنائی وہ کچھ یوں تھی۔۔

ابا جی کی پوسٹنگ چکوال کے ایک قصبے ڈوہمن میں تھی جو گھر ہمیں رہنے کو ملا وہ ہندوؤں کی ایک متروک بستی میں تھا جس کے قریب ایک پرانا مندر تھا جو حسب روایت مٹی کے ایک بلند ٹیلے پر واقع تھا۔ نیچے بازار سے اس بستی تک آنے جانے کے لئے سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔ ہندو قیام پاکستان کے بعد وہاں سے جا چکے تھے کئی گھر خالی تھے پرانے ہونے کی وجہ سے کوئی ان میں رہنا پسند نہیں کرتا تھا۔

اباجی نے بھی نیچے قصبے میں کوئی اچھا گھر ملنے تک عارضی طور پر وہاں رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ہمارے دونوں چچا بھی ہمارے ساتھ رہتے تھے جو اس وقت چھٹی اور چوتھی جماعت میں پڑھتے تھے۔ میں اس وقت چھوٹی تھی اور دونوں چچاؤں کی بے حد لاڈلی! ان کے سکول سے آنے تک امی جان نے مجھے گڑیا کی طرح بنا سنوار کر رکھا ہوتا۔ چچا آتے اور مجھے گود میں اٹھانے کے لئے آپس میں جھگڑا کرتے۔ امی کے ڈانٹنے پر پہلے کھانا کھاتے اور پھر مجھے گود میں اٹھا کر نیچے بازار میں لے جاتے گھنٹہ دو گھنٹے گھما پھر اکر واپس گھر لے آتے۔

مجھے بھی عادت ہوگئی تھی اور چچا کے آتے ہی باہر جانے کے لئے مچلنے لگتی یہ روز کا معمول بن چکا تھا۔ ایک دن یونہی چچا مجھے گود میں اٹھا کر بستی سے نیچے جانے والی سیڑھیاں اتر رہے تھے، چھوٹے چچا جلدی جلدی اتر کر نیچے کھڑے انتظار کر رہے تھے۔ آدھی سیڑھیاں اترے ہونگے کہ چچا کا اچانک پاؤں مڑ گیا اور وہ لڑکھڑا کر گرنے لگے وہ خود تو سنبھل گئے مگر میں ان کی گود سے لڑھک کر سیڑھیوں سے گرتی چلی گئی چچا بے چارے اپنے پاؤں کی تکلیف بھول کر مجھے پکڑنے کی کوشش میں بھاگے۔ ادھر سے چھوٹے چچا جو نیچے کھڑے تھے میرے چیخنے کی آواز سن کر اوپر بھاگے۔

بازار سے ایک دو آدمی بھی مجھے زمین تک پہنچ کر گرنے سے بچانے دوڑے اور ان سب نے مل کر مجھے زمین پر گرنے سے تو بچا لیا لیکن کئی سیڑھیوں پر لڑھکنے کی وجہ سے کافی چوٹیں آئیں اور ذیادہ پریشانی کی وجہ یہ تھی کہ میں بے ہوش ہو چکی تھی۔ اسی اثنا میں کسی نے ابا جی کو اطلاع کردی وہ آکر مجھے ہسپتال لے گئے ڈاکٹر نے معائنے کے بعد تسلی دی کہ کوئی خطرے کی بات نہیں بچی ڈر کر بے ہوش ہوئی ہے، ابھی ٹھیک ہوجائے گی شکر ہے کسی ہڈی کو نقصان نہیں پہنچا۔

میری خراشوں پر دوائی لگائی اور درد کا سیرپ دیا اور میرے ہوش میں آنے کے بعد کچھ دیر تک آبزرویشن میں رکھا۔ چچا جان کے پاؤں پر پٹی باندھی اور پھر گھر بھیج دیا۔ گھر میں امی جان مارے پریشانی کے برے حال میں تھیں۔ آس پاس کی ہمسائیاں گھر میں جمع تھیں اور امی جان کو تسلیاں دے رہی تھیں۔ جب اباجی ہمیں لے کر گھر پہنچے انہوں نے جب مجھے ٹھیک ٹھاک دیکھا اور اباجی نے بھی تسلی دی تو ان کی جان میں جان آئی۔

یہ واقعہ مجھے ویسے تو یاد نہیں تھا مگر لاشعور میں اس کی ہلکی سی جھلک کہیں رہ گئی جس کی وجہ سے میں بلندی سے خوفزدہ رہتی تھی۔ امی جان سے اس خوف کی وجہ معلوم ہوچکی تھی۔ میں نے اس پر قابو پانے کی شعوری کوشش کرنا شروع کردی، اب اتنا ہوا ہے کہ سیڑھیاں تو میں آرام سے چڑھ جاتی ہوں اترتے ہوئے تھوڑی محتاط ہوتی ہوں ڈر ختم ہو چکا ہے۔

Check Also

Gumshuda

By Nusrat Sarfaraz