Wapsi
واپسی

ہمارے خاندان کو پاکستان آئے اور چک رام داس میں بسے ہوئے ایک سال کا عرصہ بیت چکا تھا مگر ہمارے اباجی کا کہیں پتا نہیں چلا۔ انتظار کا ایک ایک دن والدین بھائی بہنوں اور خاص طور پر بیوی پر بھاری گزر رہا تھا۔ بابا جی نے اخبارات میں اشتہارات دئیے ریڈیو سے اعلان کرائے تلاش گمشدہ کے سب مروجہ طریقے آزمائے مگر بے سود! کہیں سے بھی غنچۂ امید ہرا نہ ہوا۔ اس دوران صادق نے بھی دو تین چکر لگائے۔ والٹن کے رجسٹریشن کیمپ پر اب مہاجرین کا رش بہت کم ہو چکا تھا۔ صادق دھیان تو بہت رکھ رہے تھے مگر اباجی کی تلاش میں کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ بابا جی کو حوصلہ تسلی دے کر لوٹ جاتے اس سے ذیادہ کیا کر سکتے تھے۔
چک رام داس کے پاس سے نہر گزرتی ہے اس کے پل سے گاؤں کی طرف کچی سڑک اترتی تھی جو اس چوبارے کے آگے سے گزرتی تھی۔ جو حکومت کی طرف سے رہائش کے لئے ملا تھا اس میں پھوپھا جی اور بابا جی کے گھرانے رہتے تھے۔ بڑا خوبصورت نیا بنا ہوا چوبارہ تھا اس کے ہندو مالک نے بنانے کے بعد جلد ہی یہاں سے نقل مکانی کر لی تھی چونکہ خالی تھا تو پھوپھا جی اور باباجی کو الاٹ ہوگیا کیونکہ گھر تھوڑے اور مہاجر ذیادہ تھے اس لئے ایک سے ذیادہ گھرانے اکٹھے رہنے کا کہا گیا۔ بابا جی نے بیٹی کی فیملی کے ساتھ رہنا مناسب سمجھا اور یہ گھر ہمارا اور ہماری پھوپھی کا مشترکہ ہوگیا۔
نہر کی کچی پٹڑی پر ایمن آباد سے ہمارے گاؤں اور اس سے اگلے دیہات تک تانگے چلا کرتے تھے۔ جانے کس آس میں دونوں چچا اکثر نہر کے پل پر جا کر بیٹھے رہتے اور آتے جاتے تانگوں میں اپنے بڑے بھائی کو کھوجتے رہتے۔ عموماً مایوسی ہی ہوتی گھر والے منع بھی کرتے مگر ان کی بے قراری انہیں پل پر جانے پر اکساتی اور وہ چپکے سے نکل جاتے۔
اس دن بھی دونوں بھائی پٹڑی پر نگاہیں جمائے پل پر بیٹھے تھے ان کا اشتیاق اچانک بڑھ گیا جب دور سے اڑتی ہوئی دھول میں لپٹا ایک تانگے کا دھندلا سا ہیولا آتا دکھائی دیا۔ جوں جوں وہ قریب آرہا تھا لڑکوں کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی۔ جب تانگہ نظروں کے احاطے میں آنے لگا تو اس میں بیٹھے اکلوتے مسافر پر انہیں اپنے بھائی کا گمان ہوا دھڑکتے دل سے وہ انتظار کرنے لگے اور جب تانگہ قریب آیا تو ان کے گمان نے حقیقت کا روپ دھار لیا دونوں کے حلق سے ایک ساتھ چیخ نما آواز نکلی "بھا جی" اور تانگے کی طرف بھاگے۔
مسافر نے یہ مانوس آواز سن کر تانگے سے چھلانگ لگائی اور دونوں بھائیوں کو بازوؤں میں بھر لیا۔ کافی دیر سینے سے لگائے ان کے منہ ماتھے چومتے رہے۔ جب ذرا جذبات سنبھلے تو تینوں تانگے پر بیٹھ کر گاؤں کی طرف چلے۔ دونوں چچاؤں کا بس نہیں چل رہا تھا کیسے اڑ کر گھر پہنچیں اور سب کو خبر سنائیں۔ آخر چھوٹے چچا سے رہا نہیں گیا تو تانگے سے اتر کر پیدل ہی گھر کی طرف چھلانگیں مارتے ہوئے دوڑے۔ اتفاق سے چوبارے کی کھڑکی میں کھڑی امی جان نے پہلے چچا کو دوڑتے ہوئے آتے دیکھا اور پھر دور سے آتے تانگے کو دیکھا تو کسی خوش کن خیال سے ان کے دل کی دھڑکنیں بھی اتھل پتھل ہونے لگیں۔
وہ نظریں ٹکائے تانگے کو دیکھے گئیں اتنی دیر میں ہانپتے کانپتے چچا بھی پہنچ گئے۔ مارے جوش کے منہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔ بس یہی کہے گئے ماں جی بھاجی بھابی بھاجی۔ امی جان سمجھ چکی تھیں کہ وہ آگئے ہیں جن کے انتظار میں سب بڑے چھوٹوں کی آنکھیں پتھرا گئی تھیں۔ گھر کے سب لوگ نیچے ڈیوڑھی میں بڑے پھاٹک کے پاس جمع ہوگئے کچھ ہی دیر میں تانگہ گھر کے پاس پہنچ گیا۔ ابا جی اپنے چھوٹے بھائی کا ہاتھ تھامے ڈیوڑھی میں داخل ہوئے اور ماں جی کے گلے لگ گئے۔ ماں جی اور پھوپھی جان رونے لگ گئیں۔ اباجی باری باری سب سے مل کر ایک کونے میں شرمائی گھبرائی کھڑی بیوی کے پاس جا کر ان کا حال دریافت کرنے لگے۔
اوپر اپنے گھر میں جانے کے بعد سب کو ان کی خاطر تواضع کا خیال آیا۔ بابا جی کہیں باہر گئے ہوئے تھے جب واپسی پر اتنی بڑی خوشی کی خبر ملی تو فوراََ سجدے میں گر کر اللہ کا شکر بجا لائے کہ بچھڑا بیٹا اللہ نے جیتے جی ملا دیا۔
پاکستان میں آنے کے ایک سال بعد بابا جی کی فیملی مکمل ہوئی۔
ابا جی نے اپنی فیملی کو کیسے ڈھونڈا اور کیسے ان تک پہنچے یہ کہانی پھر سہی۔۔

