1.  Home
  2. Blog
  3. Shahzad Malik
  4. Nisbat Hai Door Ki

Nisbat Hai Door Ki

نسبت ہے دور کی‎‎

پہاڑیوں کے بیچوں بیچ بنے چھوٹے سے ہرگیسہ ائرپورٹ کے نیم پختہ رن وے پر صومالی ائر لائن کا فوکر طیارہ موغادیشو سے تین گھنٹے کی پرواز کے بعد اترا۔ جب طیارے کے مسافر اتر رہے تھے تو ایک طرف طیارے میں سوار ہونے والوں کی لائن بن رہی تھی تو دوسری طرف آنے والوں کے استقبال میں کھڑے لوگ قطار بنائے کھڑے تھے۔ ملک صاحب بھی اس قطار میں سب سے آگے کھڑے تھے اور بچوں کو دیکھ کر بے تابی سے ہاتھ ہلا رہے تھے۔

ائرپورٹ کی چھوٹی سی عمارت سے جب ہم ضروری لوازمات سے نمٹ کر باہر آئے تو ملک صاحب ایک لمبے تڑنگے سانولی رنگت اور بڑی بڑی آنکھوں والے شخص سے باتیں کر رہے تھے۔ جب ہم قریب پہنچے تو بچے تو باپ کی ٹانگوں سے لپٹ گئے۔ اس اجنبی شخص نے جھکی نظروں سے سلام بھابی شاب کہا تو میں سمجھ گئی کہ یہ بنگالی ہیں۔ ملک صاحب نے تعارف کرایا وہ ڈاکٹر مرشد تھے اور ان کا تعلق بنگلہ دیش سے تھا۔

وہاں ہرگیسہ میں رابطۂ عالم اسلامی کی طرف سے مہاجر کیمپ میں تعینات ہو کر آئے تھے۔ یہ کیمپ صومالیہ اور ایتھوپیا کی آپس کی لڑائی کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے لوگوں کے لئے قائم ہوئے تھے اور ان کی دیکھ بھال اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین کرتا تھا۔ ڈاکٹر مرشد ایسے ہی ایک کیمپ میں طبی سہولتوں کی فراہمی کے لئے کام کرتے تھے۔ اکیلے تھے بیوی اور دو بچے بنگلہ دیش میں ہی تھے۔

ڈاکٹر صاحب کو یرقان ہو گیا تھا اور آفس والوں نے انہیں دو ماہ کی چھٹی آرام اور علاج کے لئے دی تو انہوں نے اپنے ملک جانا بہتر سمجھا اور وہ اس دن اپنے گھر جانے کے لئے ہی ائرپورٹ پر موجود تھے۔ پہلی نظر میں ہی بھلے اور شریف آدمی لگے تھے اور بعد میں بھی ایسے ہی ثابت ہوئے۔ اتفاق سے ان کا گھر بھی ہمارے ہمسائے میں تھا اس لئے جب تک وہاں قیام رہا خوب ملنا جلنا رہا۔ دو ماہ کی چھٹیاں گزار کر اور تندرست ہو کر ڈاکٹر مرشد واپس آئے تو بیوی بچے ساتھ تھے۔

بوٹے سے قد کھلتی گندمی رنگت، تیکھے نقوش اور لمبے بالوں والی مسز یاسمین مرشد بہت پیاری ہنس مکھ اور ملنسار خاتون تھیں۔ بیٹی سونیا چھ سال کی اور بیٹا منہاس چار سال کا تھا۔ ہمارے بچوں سے اگرچہ چھوٹے تھے مگر مل کر کھیل سکتے تھے۔ ڈاکٹر مرشد متحدہ پاکستان میں میڈیکل کے چوتھے سال میں تھے جب وہاں سیاسی بے چینی شروع ہوئی جماعت اسلامی نے مکتی باہنی کا مقابلہ کرنے کے لئے الشمس اور البدر کی تنظیمیں بنائیں تو دوسرے بہت سے محب وطن پاکستانیوں کی طرح نوجوان میڈیکل سٹوڈنٹ مرشد بھی البدر میں شامل ہو گئے۔

یہ مغربی پاکستان کے وہاں رہنے والے لوگوں کو مکتی باہنی کے ظلم و ستم سے بچاتے ان کو اپنے گھروں میں چھپاتے اور انہیں واپس بھیجنے میں حکام کی مدد کرتے تھے۔ ان تنظیموں نے وہاں پاکستان کو متحد رکھنے کے لئے سر توڑ کوششیں کیں لیکن اقتدار کی ہوس کے مارے ہوئے لوگوں نے ان کی کوششیں کامیاب نہ ہونے دیں، ہونی ہو کر رہی اور پاکستان دو لخت ہو گیا۔

پاکستان سے الگ ہو کر جب بنگلہ دیش کے نام سے ایک اور ملک وجود میں آ گیا اور اس کی حکومت شیخ مجیب الرحمان کی سربراہی میں قائم ہو گئی تو ان نوجوانوں کی تلاش شروع ہوئی جو الشمس اور البدر کا حصہ رہے تھے۔ نوجوان مرشد تعلیم ادھوری چھوڑ کر جنگلوں میں روپوش ہو گئے اور اس وقت تک روپوش رہے جب تک حکومت کی طرف سے عام معافی کا اعلان نہ ہو گیا۔

یہ وقت کیسے کٹا اس کو یاد کر کے ڈاکٹر صاحب آبدیدہ ہو جاتے تھے۔ بھوک افلاس، دکھ، بیماریاں کیا کچھ نہ جھیلنا پڑا انہیں۔ اس در بدری میں بہت سے عزیزوں سے بچھڑنا پڑا اور سب سے بڑھ کر اپنی تعلیم کے قیمتی سال برباد کرنے پڑے۔ جب حکومت نے ایسے تمام لوگوں کے لئے عام معافی کا اعلان کیا تو مرشد صاحب بھی منظر عام پر آئے۔ کڑی آزمائش سے گزر کر دوبارہ اپنی میڈیکل کی تعلیم شروع کی۔

دوران تعلیم ان کی مسلسل نگرانی کی جاتی رہی اور کئی بار پوچھ گچھ کے لئے بلایا جاتا رہا مگر نیک چلنی کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ تعلیم مکمل ہونے کے بعد ان کی شادی ایک بڑے با اثر زمیندار کی بیٹی سے ہو گئی۔ میلوں تک پھیلے دھان کے کھیتوں کے مالک ان کے سسر حکومتی حلقوں میں خاصا رسوخ رکھتے تھے۔ ان کا داماد بننے کے بعد ہی ڈاکٹر مرشد کی خواہ مخواہ کی انکوائریوں سے جان چھوٹی۔

سعودی عرب کی سربراہی میں چلنے والی تنظیم رابطۂ عالم اسلامی مسلمان ملکوں کو درپیش مسائل میں مدد دیتی تھی جب اس نے صومالیہ میں قائم کیمپوں میں ڈاکٹر بھیجے تو ڈاکٹر مرشد کا نام بھی ان کی اچھی شہرت اور ان کے سسر کی وجہ سے اس فہرست میں شامل تھا۔

Check Also

Zindagi Mein Maqsadiyat

By Syed Mehdi Bukhari