Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shahzad Malik
  4. Ki Dam Da Bharosa

Ki Dam Da Bharosa

کی دم دا بھروسہ

میری بزرگ خاتون بہت بیمار تھیں، میں ان کے ساتھ ہسپتال میں تھی۔ ان کے ساتھ والے بیڈ پر ایک اور خاتون تھیں جن کے بیٹے بیٹیاں دن رات ان کی خدمت میں حاضر رہتے۔ صبح کے وقت ایک بہو ناشتہ لے کر آتی۔ یہ پتلی سی کھیر کی شکل میں ہوتا جو انہیں خوراک کی نالی کے ذریعے دیا جاتا۔ دوپہر کو دوسری بہو دوپہر کا کھانا لے کر آتی جو سبزیوں یا چکن کے سوپ کی شکل میں ہوتا۔ پہلی بہو گھر چلی جاتی دوسری سہہ پہرتک رہتی، وہ جاتی تو بیٹے آجاتے رات کو بیٹی آجاتی۔ رات کا کھانا اماں جی کو وہی کھلاتی۔ بیٹی خود بھی خاصی عمر کی تھی اور اماں جی کو سہارا دے کر بٹھانا اور سرنج کے ذریعے کھلانا ان کی ہمت سے ذیادہ تھا لیکن ماں کے لئے وہ یہ مشکل کام کر رہی تھیں۔

میں اکثر ان کی مدد کر دیا کرتی تھی۔ اماں جی کافی دنوں سے وہاں تھیں، شوگر کی وجہ سے ان کے پاؤں پر زخم تھا جس کی روزانہ مرہم پٹی ہورہی تھی اور اب مند مل ہورہا تھا۔ معدے کی تکلیف بھی کافی بہتر ہورہی تھی۔ ڈاکٹروں کے مطابق انہیں کچھ دنوں بعد ڈس چارج کردیا جانا تھا۔ اپنی بزرگ کے ساتھ رہتے ہوئے مجھے بھی کئی دن ہوگئے اس دن میں رات کو گھر چلی گئی تاکہ کچھ ریسٹ کر سکوں۔ اگلے دن دس گیارہ بجے میں ہسپتال گئی تو اماں جی کا بیڈ خالی تھا۔ مجھے خوشی ہوئی کہ ٹھیک ہوکر گھر چلی گئی ہیں، یونہی میں نے نرس سے کہا اچھا ہوا اماں جی کو چھٹی مل گئی اور وہ گھر چلی گئیں لیکن نرس کا جواب سن کر میں تو دھک سے رہ گئی اس نے بتایا اماں جی کا تو رات کو انتقال ہوگیا۔۔

ارے! وہ کیسے؟ وہ تو ٹھیک ہورہی تھیں چھٹی ہونے والی تھی انہیں ایسا کیا ہوا جو وہ فوت ہی ہوگئیں۔

نرس نے جو بتایا مجھے تو سن کر دکھ ہی لگ گیا ان کی بیٹی سب بہن بھائیوں سے بڑی تھیں اور خود بھی کافی عمر کی تھیں۔ اماں جی بھاری بھر کم جثے والی تھیں بیٹی بڑی مشکل سے انہیں سہارا دے کر بٹھاتی کوئی نہ کوئی ان کی مدد کر دیتا تو ان کو آسانی رہتی۔ اس رات میں وہاں نہیں تھی اتفاق سے اس وقت کسی اور مریض کا کوئی اٹینڈ نٹ اور کوئی نرس بھی آس پاس نہ تھی۔ اماں جی کی بیٹی سے انہیں پوری طرح اٹھا کر بٹھایا نہ جا سکا، وہ اسی پوزیشن میں انہیں سوپ پلانے لگی پیتے پیتے اچانک انہیں کھانسی آگئی اور سبزیوں کا کھیر نما سوپ ان کی سانس کی نالی میں چلا گیا۔ اماں جی کی سانس اٹک گئی بیٹی بھاگی نرسوں کے سٹیشن پر نرسوں نے ڈاکٹر کو کال کیا لیکن جب تک انہیں طبی امداد ملتی ان کی سانس رک چکی تھی۔ اللہ کی قدرت کہ ہسپتال میں رہتے ہوئے ڈاکٹروں نرسوں کی موجودگی میں جھٹ پٹ ان کی زندگی ختم ہوگئی، کوئی کچھ نہ کر سکا جب وقت پورا ہوا اور جو جگہ مقرر تھی ایک بہانہ بنا اور ملک الموت آ پہنچا۔۔

یہ واقع مجھے آج اس لئے یاد آیا کہ سارا دن ٹی وی کے ننھے سٹار عمر شاہ کی اچانک موت کا افسوسناک ذکر چلتا رہا جسے قے آئی جو اس کی سانس کی نالی میں چلی گئی اور اس کی سانس رک گئی۔

موت کا ایک وقت معین ہے یہ عمر نہیں دیکھتی کوئی بچہ ہو یا بزرگ کسی نہ کسی بہانے اس نے آنا ہی ہوتا ہے انسان کی زندگی سانسوں کے آنے جانے کا نام ہے وہ کہتے ہیں نا۔۔

کی دم دا بھروسہ یار دم آوے نہ آوے

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan