Khud Kifalat
خود کفالت

گئے وقتوں کے قصے جو ہم نے اپنے بزرگوں سے سنے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کا جو علاقہ اب پاکستان میں شامل ہے اس کی معیشت کا دارو مدار ذیادہ تر زراعت پر تھا۔ بڑے بڑے زمینداروں اور جاگیرداروں کے تو واری نیارے تھے ہی مگر چھوٹے چھوٹے رقبوں کے مالک بھی اگر بہت خوشحال نہیں تھے تو اپنی محدود ضروریات میں تقریباً خود کفیل تھے۔
وہ کیسے؟ وہ یوں کہ اس وقت کے کسان کو کھیتوں میں ہل چلانے کے لئے ڈیزل سے چلنے والے ٹریکٹر کی بجائے بیلوں کی جوڑی درکار تھی جو ہر کسان کے پاس ہوا کرتی تھی۔ گاؤں سے باہر کئی جگہوں پر گاؤں بھر کی خواتین جانوروں کا گوبر اور گھروں کا کوڑا کرکٹ پھینکا کرتی تھیں جو دھوپ اور بارشوں سے گل سڑ کر بہترین آرگینک کھاد بن جاتی تھی۔ ہل چلانے کے بعد یہ کھاد کسان گھر کی بیل گاڑی پر لاد کر کھیتوں میں ڈال لیتے تھے۔ نہ کھاد کی قیمت اور نہ بار برداری کا کوئی خرچہ ہوتا تھا۔
تقریباً ہر قطعۂ زمین پر کنواں ہوتا تھا جہاں سے بیلوں کے ذریعے رہٹ چلا کر کھیتوں کو سینچ لیا جاتا تھا نہ مہنگا ٹیوب ویل نہ ڈیزل یا بجلی کا خرچہ۔ ہر فصل میں سے اگلی فصل کے لئے بیج رکھ لیا جاتا تھا جو نئی فصل کی بوائی کرنے پر استعمال ہوجاتا تھا۔ اگر اپنی فصل کا بیج موجود نہ ہوتا تو کسی سے ادھار بیج لے لیا جاتا اور اگلی فصل آنے پر واپس کردیا جاتا۔ مہنگے بیج کا خرچہ بچ گیا فصلوں پر سپرے کا کوئی تصور نہیں تھا اس طریقے سے ہر فصل بو کر کسان گندم، چاول، دالیں، کماد، سرسوں، تارا میرا، سبزیاں اگاتا اور اپنے ہی گھر کا اناج تیل گڑ اور شکر استعمال کرتا تھا۔
روٹی اور ہانڈی پر کوئی خرچہ نہیں ہوتا تھا۔ کپاس چن کر دھنوا کر رضائیاں اور کات کر سوت سے کھیس اور رضائیوں کے کور اور اکثر مردوں کے لباس بھی اسی سوت سے تیار ہوجاتے۔ یہ خرچہ بھی بچ گیا۔ کپاس کے لمبے تنے یا چھٹیاں اور کھیتوں کے کناروں پر لگے درختوں کی سردیوں میں کاٹی گئی شاخوں اور گوبر کے اپلوں سے گھروں کے چولہے اور تنور روشن ہوتے تھے ایندھن کا خرچہ بھی نہیں تھا۔
ہر کسان کے گھر میں بیلوں کی جوڑی کے علاوہ بھینسیں گائیں بکریاں اور مرغیاں ضرور ہوا کرتی تھیں۔ پولٹری اور ڈیری کی ضروریات گھر سے ہی پوری ہوجاتی تھیں۔ ان جانوروں کی خوراک کے لئے چارہ اپنے کھیتوں کی پیداوار ہوتا تھا۔ تیل نکال کر کھلی اور روئی نکال کر بنولے کا مکسچر دودھ دینے والی گائے بھینسوں کی بہترین خوراک ہوتا تھا۔ جانوروں کی خوراک پر کوئی خرچہ نہ ہوا۔
سرسوں اور تارا میرا کے تیل سر پر لگانے مالش کرنے اور کبھی کھانا پکانے میں بھی استعمال ہوتے تھے۔ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں جانے کے لئے پیدل یا پھر بیل گاڑیوں پر جایا جاتا سفر کا خرچہ ختم۔
سرسوں کا تیل آٹا اور کاسٹک سوڈا ملا کر گھر پر ہی صابن بنا لیا جاتا جس سے کپڑوں کے علاوہ بال اور جسم دھولئے جاتے بعد میں سر چاٹی کی لسی سے دھو کر اور جسم پر سرسوں کے تیل کی ہلکی مالش سے خشکی دور کرلی جاتی۔ جلد پر کوئی الرجی خارش نہ ہوتی بال گھنے مضبوط لمبے اور بڑھاپے تک سیاہ رہتے۔ مہنگے شیمپو کنڈیشنر ہیر آئل اور باڈی لوشن سے نجات اور خرچہ ختم۔ گھر کا دودھ گھی مکھن لسی اناج سبزیاں اور گڑ شکر جیسی آرگینک خوراک کھانے والے کسانوں کو بیماریاں تنگ نہیں کرتی تھیں ڈاکٹروں کے پھیرے ختم۔
گارے مٹی سے دیواریں اور لکڑی کے بالے اور کڑیوں سے چھت ڈال کر دو تین کمروں کا گھر وسیع صحن کے ایک طرف جانوروں کے کوٹھے بنا کر اور دوسری طرف رسوئی بناکر رہائش کا پورا بندوبست ہوجاتا ٹوائلٹ کی جگہ کھیت اور نہانے کے لئے کنویں سے کام لیا جاتا، مہنگے گھر اور باتھ روم کی ضرورت ختم اجرا جات صفر۔
کنویں سے پینے کا پانی آجاتا اور خواتین کھیتوں میں بنے کھالوں پر جا کر کپڑے دھو لیتی تھیں۔ گرمیوں کی راتوں میں کھلے صحن میں چارپائیاں بچھا کر تاروں کی چھاؤں میں کھلی ہوا میں سویا جاتا اور اے سی اور پنکھے کی ضرورت نہ پڑتی بجلی کا بل کمر نہ توڑتا۔
گھروں میں مہمان آتے تو گھر کے ستو اور شکر کا شربت یا دودھ اور پانی میں شکر ڈال کر دو دو تین تین گلاس ذبردستی پلائے جاتے۔ قہر برساتی گرمی میں یہ مشروب جسم کو ٹھنڈک اور توانائی سے بھر دیتے۔ بازار کے کولڈ ڈرنکس اور مصنوعی جوس سے صحت اور جیب دونوں محفوظ رہتے۔
شادی بیاہ گھروں پر ہی رہ کر ہوتے کھانے کی دیگیں گھر کے پاس کھلی جگہوں پر پکائی جاتیں۔ گھر کے لوگ رشتہ دار ہمسائے مل کر شادی کا سارا انتظام کرتے۔ کھانا کھلاتے مہمانوں کی شب بسری کے لئے آس پاس سے چارپائیاں اور بستر اکٹھے کرتے اور ان پر نشان لگاتے بعد میں واپس بھی کرتے کسی کو بھی شادی ہال بیروں اور گیسٹ ہاؤس کی کبھی ضرورت نہ ہوئی اتنے بڑے بڑے کام پیسہ خرچ کئے بغیر ہوجاتے۔
شادی ہو یا غمی کا اجتماع دودھ دہی بازار سے کوئی نہیں خریدا کرتا تھا آس پڑوس سے پورا ہوجاتا تھا۔ جوائنٹ فیملی سسٹم کی وجہ سے گھروں کے درجن بھر بچے دادا دادی چچا پھوپھیوں کے ہاتھوں پل جاتے اس کام کے لئے نوکر رکھنے کا تصور بھی نہ تھا۔ بچے ماں کے دودھ کی مدت پوری ہونے کے بعد گائے یا بھینس کے دودھ پر اور اس کے بعد چاول روٹی پر شفٹ ہوتے اور خوب صحتمند ہوتے۔ ڈبے کا دودھ اور سیریلیک کی کسی کو خبر بھی نہ ہوتی نہ ان پر خرچہ ہوتا بچے مسجد میں قرآن پاک پڑھتے کبڈی کھیلتے کشتیاں کرتے اور باپ کے ساتھ کھیتی باڑی کرتے بہت کم لوگ بچوں کو سکولوں میں پڑھنے شہر بھیجتے یوں تعلیم پر بھی خرچہ نہ ہوتا۔
اس لائف سٹائل میں اپنی ضروریات کے لحاظ سے کسان کا واسطہ جن لوگوں سے پڑتا اور جو غیر زمیندار ہوتے یعنی گاؤں کے کریانہ فروش دکاندار جولاہے تیلی دھوبی موچی نائی طبیب مسجد کے مولوی صاحب بڑھئی لوہار اور ایسے دوسرے لوگوں کی خدمات کا معاوضہ انہیں زمینداروں اور کسانوں کی فصلوں میں طے شدہ حصے کے اناج کی صورت میں سال کی بڑی فصلوں کے موقع پر ملتا۔ یہ اتنا ذیادہ ہو جاتا کہ یہ لوگ کھانے کے ساتھ دوسری ضروریات بھی اسی سے پوری کرتے۔ کریانہ فروشوں اور دکانداروں سے چیزوں کا لین دین بارڈر سسٹم کے ذریعے ہوتا تھا کسان اپنے اناج کو بیچ کر پیسے کمانے اور پیسوں سے چیزیں خریدنے کی بجائے اپنے اناج کے بدلے ہر چیز لیتے تھے۔ حتی کہ پھیری والوں اور ہفتے میں ایک بار جانور ذبح کرکے گوشت بیچنے والوں کے ساتھ بھی زر مبادلہ اناج ہی ہوتا۔
اس سارے رہن سہن میں سادگی اور خود کفالت تو تھی لیکن اس میں شدید انسانی محنت شامل ہوتی تھی۔ ہر کام سخت مشقت طلب ہوتا تھا لوگ اپنے ہاتھوں پیروں اور ٹانگوں کو ہمہ وقت حرکت میں رکھتے رات کے ابتدائی چند گھنٹوں کی نیند اور آرام کے سوا تمام مرد و خواتین سارا دن کام میں جتے رہتے تھے۔ سوشل لائف کے لئے کوئی وقت نہیں ہوتا تھا لوگوں کے لئے تفریح کا تصور شادی بیاہ کے مواقع عید تہوار کے دن یا پھر میلے ٹھیلے ہوتے جو فصل کٹنے کے موقع پر منعقد ہوتے۔
سخت گرمی کی دوپہروں میں کچھ پلوں کے لئے مرد کھیتوں میں کنویں کے کنارے کسی سایہ دار درخت کے نیچے چارپائی پر بیٹھ کر سستا لیتے اور خواتین بھی گھروں کے صحنوں میں نیم یا کسی اور سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھ کر آپس میں گپیں لگا لیا کرتیں بس یہی ان کا آرام ہوتا۔ سورج ڈھلتے ہی پھر کام دھندے شروع ہوجاتے جو چراغ جلے تک چلتے رہتے اس مشقت بھری زندگی میں اوّل تو کوئی مہلک بیماری سننے میں کم ہی آتی اور اگر ہوتی بھی تو اس کا علاج نہ ہوتا۔ مولوی صاحب سے دم درود اور جھاڑ پھونک اور گنڈے تعویذ کرنے والوں سے کام چلایا جاتا۔ مریض ملک عدم سدھار جاتا تو اللہ کی مرضی کہہ کر صبر کر لیا جاتا یہ ہمارے دادا نانا کا زمانہ تھا جو ہم نے سنا ہے دیکھا نہیں۔

