Khana e Khuda
خانۂ خدا
ہمارا بچپن اس دور میں گزرا جب عام آدمی کے دل میں خوف خدا بہت تھا۔ روز قیامت کے حساب کتاب اور جواب دہی کا ڈر تھا۔ یہ کیفیت لوگوں کو گناہوں اور بہت سی اخلاقی برائیوں سے بچا کر رکھتی تھی۔ عبادات اور دعاؤں کے ذریعے لوگ اللہ کی خوشنودی کے حصول کی کوشش کرتے تھے۔ وہ اپنے بچوں کی تربیت بھی اسی نہج پر کیا کرتے تھے۔ منہ اندھیرے مسجد میں سی پارہ پڑھنے جاتے تو قاری صاحبان چھوٹے چھوٹے اخلاقی سبق سکھاتے۔ گناہ و ثواب جزا و سزا کا تصور اور خدمت خلق کی فضیلت بھی ذہن نشین کرا دیتے۔ گھروں میں اپنے بڑوں کو دیکھتے اور مساجد میں قاری حضرات سے سیکھے ہوئے یہ سبق انمٹ نقوش کی طرح بچوں کے ذہنوں پر ثبت ہوکر زندگی بھر نہ بھولتے۔
جہلم کینٹ کی چھوٹی سی پوسٹل کالونی میں ہم چند بچے شہر کے سکول میں پڑھنے جاتے میں تیسری جماعت میں تھی سال ختم ہونے پر امتحان تھا۔ تیسری جماعت کیا اور اس کے امتحان کی اوقات کیا! لیکن ہم سب اتنے فکرمند تھے جیسے پی ایچ ڈی کا امتحان ہو۔ مجھے اپنا تو معلوم تھا کہ میں نے ہر مضمون کا تحریری اور زبانی امتحان بہت اچھا کیا ہے پاس ہونے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی مگر مجھ سے اگلی کلاسوں کے دو تین شریر اور لاپرواہ لڑکوں کو اپنے رزلٹ کی بڑی فکر تھی۔ ایک دن سب نے مل کر فیصلہ کیا کہ کالونی کی مسجد کی خدمت کی جائے تاکہ اللہ میاں خوش ہوجائیں اور ہماری پاس ہونے کی دعائیں قبول کرلیں۔
چھوٹی سی مسجد میں نماز کے لئے کالونی کے آفس میں کام کرنے والے لوگ اور دوسرے چھوٹے ملازمین جمع ہوتے نماز ختم ہوتے ہی مسجد خالی ہوجاتی۔ امام صاحب دفتر میں ہی کام کرتے تھے وہ بھی نماز پڑھا کر آفس چلے جاتے ظہر اور عصر کی نمازوں کے درمیانی وقفے میں مسجد بالکل خالی ہوتی۔ سکول میں تو چھٹیاں تھیں سب بچے گھروں میں فارغ تھے تو طے یہ پایا کہ خالی وقت میں مسجد کی خدمت کی جائے۔ اگلے دن حسب پروگرام ہم طلبا کا گروپ مسجد پہنچ گیا۔ ہم دو لڑکیاں تھیں اور تین لڑکے ہم اپنے گھروں سے جھاڑو اور جھاڑن لے کر گئے تھے۔ میں نے جھاڑو پکڑ کر چھوٹے سے صحن میں جھاڑو لگایا اکلوتے کمرے میں صفیں بچھی تھیں وہاں خالی جگہوں کو صاف کیا دوسری لڑکی نے جھاڑن سے گرد صاف کی۔
لڑکوں کے ذمے وضو کے حوض میں پانی بھرنا تھا جو حوض کے کنارے لگے ہاتھ کے نلکے کو چلا کر بھرا جاتا تھا۔ تینوں لڑکوں نے باری باری نلکا چلا چلا کر پانی بھرا صاف ستھری مسجد اور تازہ پانی سے بھرا حوض دیکھ کر ہم بچے بہت خوش ہوئے۔ کام ختم کرکے ہم نے اللہ سے امتحان میں پاس ہونے کی دعائیں مانگیں اور گھروں کو چل دئیے۔ آفس سے چھٹی کے بعد جب عصر کی نماز کے لئے امام صاحب اور نمازی آئے تومسجد کی صفائی اور پانی کی فروانی دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے پوچھا کہ یہ سب کس نے کیا تو پانچویں جماعت کا لڑکا جو خدمت گروپ کا ممبر اور اس مشن کا حصہ تھا اور اس وقت نماز کے لئے مسجد میں آیا تھا اس نے تمام کاروائی بیان کی امام صاحب اور سب نمازی بہت خوش ہوئے اور بہت شاباش دی۔
جب تک ہمارا رزلٹ نہیں آیا ہم سب بچے روزانہ ظہر اور عصر کے درمیان مسجد کی صفائی کرتے اور پانی بھر کر اللہ میاں کو خوش کرتے رہے امام صاحب خوش ہوکر ہمارے لئے دعا کراتے رہے۔ جب رزلٹ آیا تو ہم سب پاس ہوگئے اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے ہماری معصوم خوش اعتقادی اور خدمت سے خوش ہوکر ہماری دعائیں قبول کر لیں اور ہمیں پاس کردیا۔
آج جب میں یہ لکھ رہی ہوں تو مجھے اپنے ان ساتھیوں کی دھندلی سی شکلیں یاد آرہی ہیں۔ ہم تو سیلانی تھے ابا جی کی ٹرانسفر ہوئی تو جہلم چھوڑ دیا وہ لوگ جانے اب کہاں ہوں گے میری دعا ہے کہ جہاں بھی ہوں خوش ہوں اللہ ان سب پر اپنی رحمت کا سایہ رکھے۔