1.  Home/
  2. Blog/
  3. Shahzad Malik/
  4. Beete Hue Kuch Din

Beete Hue Kuch Din

بیتے ہوئے کچھ دن

میری درجن بھر سہیلیاں اندرون شہر رہتی تھیں اور تانگوں پر کالج آیا کرتی تھیں۔ میرا گھر کالج کے قریب تھا اتنا قریب کہ وہاں بجنے والی بیل کی آواز ہمارے گھر سنائی دیتی تھی۔ میں عموماً پہلی بیل پر گھر سے نکلتی اور پندرہ منٹ بعد بجنے والی دوسری بیل سے پہلے کلاس روم تک پہنچ چکی ہوتی۔

کالج میں فئیر ویل پارٹیاں ہوں سالانہ ڈرامہ ہو مشاعرہ ہو یا کوئی اور تقریب ہمیشہ کالج ٹائم کے بعد ہوتی کیونکہ پرنسپل کو کسی تقریب کی وجہ سے پڑھائی میں خلل پسند نہیں تھا۔ میری شہر میں رہنے والی سہیلیوں کے لئے چھٹی کے بعد گھر جانا اور پھر تیار ہوکر کالج آنا ممکن نہ تھا اس مسئلے کا ذکر میں نے اپنے گھر میں کیا تو میری امی جان کہنے لگیں اس میں پریشانی کی کیا بات ہے اپنی سہیلیوں سے کہو اپنے گھروں سے اجازت لے کر اپنے کپڑے وغیرہ صبح ساتھ ہی لے آیا کریں اور تم انہیں اپنے گھر لے آیا کرو وہ یہاں تیار ہوکر کالج جائیں اور واپسی کے وقت ان کے تانگے والے انہیں کالج سے لے جایا کریں، یہ اس مسئلے کا بہت مناسب حل تھا۔

مجھے جھجک ہوئی کہ امی اتنی ساری لڑکیوں کے کھانے کا بندوبست کیسے کریں گی تو امی نے کہا یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے میں کرلوں گی جب یہ بات میں نے اپنی سہیلیوں کو بتائی تو انہیں بے تحاشا خوشی ہوئی کچھ ہی عرصے بعد اس پروگرام پر عمل کرنےکا وقت آگیا۔ فرسٹ ائر سیکنڈ ائر کو الوداعی پارٹی دے رہی تھی پارٹی کا وقت چار سے چھ بجے تک تھا میری سہیلیوں نے اپنے اپنے گھر سے اجازت لی اور چھٹی کے وقت ہم سب پیدل اکٹھی گھر آئیں امی جان نے کھانا بنایا ہوا تھا سب نے اکٹھے کھانا کھایا اس کے بعد ساری لڑکیاں گھر میں بے تکلفی سے گھومنے لگیں کبھی چھت پر جاتیں کبھی امی کے پاس بیٹھ کر گپیں لگاتیں۔

امی اور وہ سب یوں گھل مل گئیں جیسے ہمیشہ سے یہیں رہتی ہوں اور امی جان ان کو گھر میں چلتے پھرتے بڑی محبت پاش نظروں سے دیکھ کر بڑی خوش ہو رہی تھیں۔ گھر میں خوب رونق اور گہما گہمی تھی اس کے بعد سب تیار ہونے لگیں ہر کوئی تیاری کے بعد امی سے پوچھ رہی تھی خالہ جی میں کیسی لگ رہی ہوں اور امی سب کی خوب تعریفیں کر رہی تھیں جب سب تیار ہو چکیں تو ہم سب کالج چلی گئیں شام کو ان سب کے تانگے والے انہیں کالج سے لے گئے۔

یہ تجربہ بہت خوشگوار رہا اور سب کو ہی بہت پسند آیا امی جان ان سب سے بہت مانوس ہوگئیں اور لڑکیوں کو بھی امی جان کا اخلاق اور پیار سے ملنا بہت پسند آیا یہ کالج کے پہلے سال کا پہلا فنکشن تھا۔ اس کے بعد تو یہی معمول رہا جب بھی کالج میں کوئی تقریب ہوتی میں امی جان کو بتاتی تو وہ خوش ہو جاتیں میری سہیلیاں خوشی خوشی ہمارے گھر آکر تیار ہوتیں پورے گھر میں تتلیوں کی طرح اڑتی پھرتیں اور میری ماں انہیں دیکھ دیکھ کر خوش ہوتی رہتیں۔ میرے بھائی مجھ سے چھوٹے تھے مجھے سہیلیوں کے ساتھ آتا دیکھ کر جانے کہاں غائب ہوجاتے واپس گھر تب آتے جب وہ جا چکی ہوتیں۔

کالج ختم ہوا سب گھروں میں بیٹھ گئیں لیکن کبھی کبھی تین چار لڑکیاں مل کر خاص طور پر امی جان کو ملنے آتیں۔ اگر کھانے کا وقت ہوتا تو کچن میں امی کے پاس پیڑھیوں پر بیٹھ کر تازہ اترتے گرم پھلکے بڑے شوق سے کھایا کرتیں سال بھر کے اندر اندر میری کئی سہیلیاں سسرال سدھار گئیں۔

میری شادی ہوئی اور میں بیاہ کر دوسرے شہر چلی گئی چڑیوں کا چنبہ ایک ایک کرکے اپنے آشیانے بسا چکا تھا۔ میرا جب بھی میکے جانا ہوتا امی جان ہر بار کہتیں تمہارے لئے تو میں اداس ہوتی ہی ہوں مگر تمہاری سہیلیاں بھی مجھے بہت یاد آتی ہیں تمہارے جانے کے بعد تو کوئی بھی ملنے نہیں آتی یہ ساری بہاریں تو بیٹیوں کے دم سے ہی ہوتی ہیں وہ ہوتی ہیں تو گھر میں چہل پہل اور رونق رہتی ہے سہیلیاں بھی آتی رہتی ہیں ان کے جانے سے گھر سونا ہو جاتا ہے۔

بیٹیوں سے وابستہ ہر چیز ماؤں کو پیاری لگتی ہے نئے آشیانے بسانے والی بیٹیوں کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ ان کے جانے کے بعد ان کی یاد ماؤں کو کہاں کہاں اداس کر دیتی ہے یہ احساس اب ذیادہ ہوتا ہے جب میری اپنی بیٹیاں بابل کا آنگن چھوڑ کر دور دیس جا بسی ہیں۔

Check Also

Kahaniyan Zindagi Ki

By Mahmood Fiaz