Sur Ka Safar
سر کا سفر
میں اس اجنبی شہر میں تازہ تازہ وارد ہوا تھا۔ یہاں کی فضا نامانوس تھی اور موسم ان چھؤا پر اس اجنبیت میں بھی ایک عجیب سا بےساختہ پن تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے یہ سب وقت کے کسی بیتے ہوئے پل میں بسر چکا ہو، ایسا جیسے پہچانتے تو ہوں پر برتا نہ ہو۔
اس شہر دلفریب میں آنا میرے برسوں کا خواب تھا کہ یہ دنیا میں"شہرِ محبت" کی عرفیت رکھتا ہے اور میری بدقسمتی دیکھنے کہ میری بتیس سالہ زندگی میں باب محبت ہنوز سربستہ۔ ایسا نہیں کہ کوئی بھایا نہیں پر بس آنکھوں ہی تک رہا دل تک رسائی نہیں پائی۔
اس شہر میں آمد تو بسبب روزگار تھی مگر دل خوش گمان کے کسی گوشے میں محبت کی تکمیل کا یقین بھی۔ میں نے اپنی رہائش دفتر سے قریب ہی رکھی تھی۔ میری رہائشی عمارت پرانی طرز کی تھی اور مجھے پرانا آرکیٹیکٹ بہت بھاتا ہے جیسے تاریخ مجسم ہو کر سامنے ہو اور پیرس کی خوبی ہی یہ ہے کہ یہ مزاج میں جدید اور بشرے میں قدیم ہے۔ میرا اپارٹمنٹ بھی پرانے طرز کا تھا اور جب میں نے اس فلیٹ کا آن لائن ورچوئل ٹؤر کیا تھا تو پہلی نظر میں ہی اس کے حسن قدیم کااثیر ہوگیا تھا۔ لیونگ روم کی طویل کھڑی سے ائفل ٹاور کا نظارہ خاص کر رات میں اس کا لائٹ شو بہت دلفریب لگتا تھا۔
مجھے اس شہر محبت میں آئے دو ماہ ہو چلے تھے اور میں اس کی خوشنما شاموں اور پب کی رنگینیوں سے آشنا ہوتا جارہا تھا کہ قدرت نے اپنی چال ہی بدل لی۔ شاید وہ ہم انسانوں کی بےمہابانہ آزادی سے تنگ آ گی تھی سو اس نے ایک دم سے راسیں کھینچ لی اور سرپٹ بھاگتی ہانپتی دنیا یک لخت ساکن ہو گئ۔
ایک ان دیکھے ننھے منے جرثومے نے نائبِ خدا کو چاردیواروں بیچ قید کر دیا تھا اور لہکتی چہکتی زندگی سک دم ہو کر رہ گئی۔ بقا کی شرط ہی جدائی ٹھہری اور انسان تنہائی کی دیوار میں چن دیا گیا، تنہائی جس سے انسان ازل سے خوفزدہ ہے۔
شہر لائک ڈاؤن ہوا اور ورک فرام ہوم روا۔
میرے فلیٹ میں میرے پچھلے کرائے دار کا چھوڑا ہوا پیانو اور تین عدد خوب صورت موسمی پودے بھی میرے ساتھ ہی رہائشی تھے۔ مجھے حیرت تھی کہ پیانو بہترین حالت میں تھا اور میں اسکے پیچھے چھوڑے جانے کا سبب جاننے کا متمنی۔ مالک مکان سے پوچھنے پر وہی روایتی بےوفائی کی کہانی کھلی۔ بوئے فرینڈ بہترین پیانسٹ تھا مگر وفا کے فن میں کچا سو جب لڑکی نے عالم رنجوری میں شہر چھوڑا تو متروکہ محبت کے ساتھ ساتھ پیانو بھی دل بدر ہوا۔
میں پیانو بجانے میں قدرت تو نہیں رکھتا پر اچھا بجاتا ہوں۔ اب تنہائی کا مداوا پیانو سے دل بستگی ٹھہرا اور شام سے رات تک یہ شغل دل کو مشغول رکھتا۔ کچھ دنوں سے میرا پڑوس جو غیر آباد تھا وہاں دبے پاؤں زندگی رینگتی محسوس ہونے لگی تھی پر یہ احساس اتنا مبہم کہ کبھی کبھی تو محض زندگی کا گمان ہی ہوتا۔ وہ سنیچر کا بے رنگ دن تھا اور میں پینے کے شغل سے اوب کر لیونگ روم میں صوفے پر اڑا ترچھا پڑا تھا۔ بوریت کی انتہا یہ تھی کہ ائفل ٹاور بھی جی لبھانے میں ناکام تھا کہ اچانک میرے کانوں میں پیانو پہ پرانے گیت کی دھن نے سرگوشی کی۔ ابتداءََ میں نے اسے وہم جانا مگر ساز کی لے مستقل تھی سو میری ساری کسلمندی اور بوریت اوڑنچھو ہوگئی اور میں نے اپنا داخلی دروازہ کھول کر اپنے نئے پڑوسی کے دروازے پر کان لگا دیئے کہ سر کا یہ آبشار وہیں سے بہہ رہا تھا۔ کوئی نہایت مہارت اور جزب سے پیانو پر بھولے بسرے گیت بجا رہا تھا۔ جو بھی تھا کمال کا پیانسٹ تھا۔
دوسرے دن میں صبح ہی سے بےصبری کے ساتھ اس مدھ ماتی سر کے لیے بےچین تھا، ٹھیک دو بجے اس نے پیانو کے پردے کو چھیڑا گویا پیانو کے نہیں روح کے تار جھنجھنا اٹھے۔ وہ دو سے تین بجے تک پیانو بجاتا تھا۔ سوموار سے میں نے اپنا لنچ بریک بارہ کے بجائے دو سے تین بجے تک کر دیا۔
اس سر کی سنگت میں میں خوش رہنے لگا تھا اب تنہائی کاٹتی نہیں تھی۔ ایک دن ایسا ہوا کہ ایک گانے کی دھن بجاتے بجاتے وہ یک لخت رک گیا جیسے بھول گیا ہو، دو منٹ کے انتظار کے بعد میں نے اسی وقفے سے تسلسل کو جوڑ دیا۔ پھر یہ روز ہونے لگا۔ وہ گیت بجاتے بجاتے کہیں بھی روک دیتا اور میں وہیں سے سر اٹھا لیتا۔ ایک شام میں نے اس کے دروازے کے نیچے سے رقعہ سرکا کر اپنا پسندیدہ گانا بجانے کی فرمائش کی۔ پھر ہم دونوں کے مابین کاغذی پرزے ہرکارے بن گئے اور میں یہ جان کر دکھ سے بت ہوگیا کہ میرا نیا پڑوسی جیف چھیاسی سال کا ہے اور کووڈ 19 کے باعث اکسٹھ سالہ رفاقت پہ، فراق کے شب خون نے جیف کا دل ہی ویران کر دیا ہے اور وہ اس شہرِ محبت سے تو کیا اس ملک سے ہی بددل ہوگیا۔
جیف کی بیوی مرلن جو اس کی پہلی اور آخری محبت تھی وہ کووڈ میں زندگی ہاری تو جیف سے جینے کی امنگ بھی دست کش ہوئی۔ وہ اٹھ پہر کا سوختہ پیرس کے مضافات میں اپنا شاندار ولا بیچ کر اپنے آبائی وطن اسکاٹ لینڈ واپس چلا جائے گا کہ اب اس شہر محبت کی ہوا نمکدان ہوئی۔ وہ اس فلیٹ میں اپنے ولا کی ڈیل ہونے تک قیام پزیر ہے۔ جیف روزانہ دو سے تین بجے تک مرلن کے پسندیدہ گانوں کی دھن بجاتا تھا کہ مرلن اسی وقت ریڈیو پر اپنا پسندیدہ موسیقی کا پروگرام سنا کرتی تھی۔ جیف اپنے ولا سے یادوں کے علاوہ صرف تین چیزیں ساتھ لایا تھا مرلن کی راکھ، پیانو اور تیسری چیز وہ آرام کرسی جس پر بیٹھ کر مرلن ریڈیو پروگرام سنا کرتی تھی۔ مرلن کی راکھ تو وہ یہیں ائفل ٹاور کے بلند ڈیک سے ہوا برد کر دے گا کہ یہی وہ مقام دل افروز تھا جہاں اسکاٹ لینڈ کے لاپروا جوان نے جاپان کی گڑیا پہ دل ہارا تھا۔
کچھ دن بعد جیف نے دروازے کے نیچے سے رقعہ سرکایا جس میں رقم تھا کہ اس کے ولا کا سودا ہوگیا ہے اور وہ پرواز کے کھلتے ہی اسکاٹ لینڈ روانہ ہو جائے گا۔ میں نے درخواست کی کہ وطن لوٹنے سے پہلے آخری طعام اور جام میری جانب سے۔ روانگی سے ایک رات قبل ہم دونوں نے اپنے اپنے داخلی دروازے پر بیٹھ کر ڈنر کیا اور مرلن کی یادوں کے نام جام خالی کیے۔
پھر جیف دوبارہ کبھی نہ ملنے کے لیے چلا گیا۔
اب لاک ڈاؤن میں خاصی نرمی ہے اور میں تین دن دفتر اور دو دن گھر سے کام کرتا ہوں اور اکثر شامیں میں اور ائفل ٹاور اپنی تنہائی ایک دوسرے کی سنگت میں بتا دیتے ہیں۔