Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Smiling Depression (2)

Smiling Depression (2)

اسمائلنگ ڈپریشن (2)

یہ آپ ماؤں کے پاس ہر مسئلے کا حل بس شادی ہی کیوں ہوتی ہے؟

اس نے ہنستے ہوئے میرے گلے لگتے ہوئے کہا۔

اس لیے میری جان کے صدیوں سے یہی نسخہ تیر بہدف ہے۔

کیا بات ہے ماں بیٹے میں بہت لاڈ ہو رہا ہے؟

منظر نے کچن کے دروازے سے جھانکتے ہوئے تبصرہ کیا۔

آپ بھی شامل ہو جائیں جناب اس منڈلی میں۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا اور ہم تینوں لاؤنج میں بیٹھ گئے۔ کیسی خوشیوں بھری رات ہے۔ عرصے بعد ہم تینوں ایک ساتھ اتنا ہنسے ہیں۔ جانے رات کا کون سا پہر تھا کہ فائر کے دھماکے نے مجھے بیدار کر دیا۔ میں بدحواس ہو کر بستر پر بیٹھی کی بیٹھی رہ گئی اور ایک سکتے کی سی کیفیت میں منظر کو کمرے سے باہر بھاگتے دیکھا۔ پھر۔ پھر۔ بس منظر کی ہسٹریائی چیخیں تھیں۔

شہزاد۔ شہزاد۔ شہزاد۔

باہر سے گارڈ دروازہ پیٹ رہا تھا اور میں شہزاد کے کمرے کی دہلیز پر پتھرائی کھڑی اندر کا منظر دیکھ رہی تھی۔

یہ کیا کیا شہزاد نے؟

کیوں کیوں؟

آج شہزاد کی دوسری برسی ہے، اس رات سے آج شام تک یہ ایک طویل اور تکلیف دہ دورانیہ ہے۔ جیسے سنگلاخ چٹانوں پر آبلہ پائی کا سفر، راہ میں کئی بار منظر اور میرا ساتھ چھوٹتے چھوٹتے رہا کہ ہم دونوں ہی ایک دوسرے سے شاکی تھے، ناراض تھے کہ ہم اپنی متاعِ حیات کو کیوں نہیں بچا سکے؟ شہزاد کی خودکشی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے دلوں کا ناسور تھی۔ کیا کبھی کوئی اندازہ لگا سکتا ہے کہ یادوں اور پچھتاوؤں کے ساتھ جینا کیسا ہوتا ہے؟

یقین کیجئے یہ ایک کار اذیت ہے۔ دماغ میں سوالات کی یلغار ہوتی ہے، بس سوالات ہی سوالات، لامتناہی سوالات جو جوابات سے مبرّا اور خالی ہوتے ہیں بالکل کسی ٹوٹے ہوئے دل کی طرح۔ وہ قیامت خیز رات اتنی خاموشی سے دبے پاؤں آئی تھی کہ اس کی خفیف سی آہٹ و چاپ بھی سنائی نہیں دی تھی۔ موت خون آشام بھیڑیے کی طرح شب خون مار کر میرا لعل لے گئی۔ وہ بڑا بھیانک وقت تھا، دل شہزاد کی جدائی سے نڈھال اس پر لوگوں کی نیزے کی آنی جیسے سوالات۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں، جانے کیسی کیسی کہانیاں شہزاد کے نام سے منسوب کر دی گئی تھیں؟

اس رات جب مجھے ہوش آیا تو گھر پر پولیس آئی ہوئی تھی اور رسمی کاروائی کے بعد پوسٹ مارٹم کے لیے لاش(کیسا دل کٹتا ہے اس لفظ سے) کو ہسپتال بھیج دیا گیا تھا۔ تدفین کے لیے لاش کا حصول بھی ایک کٹھن اور صبر آزما مرحلہ تھا۔ تعلقات اور رشوت کے بعد میرا شہزادہ ہمیں ملا۔ ہم دونوں کو ابھی ذہنی، روحانی اور جزباتی اذیتوں کا ایک طویل سلسلہ طے کرنا تھا کہ محلے کی مسجد کے امام صاحب نے نماز جنازہ پڑھانے سے یہ کہ کر انکار کر دیا کہ یہ خودکشی کا کیس ہے سو نماز جنازہ جائز نہیں۔

بالآخر منظر نے خود نماز جنازہ پڑھائی اور خاندان کے قریبی لوگ اور شہزاد کے دوستوں نے اس کو اس کے آخری سفر پر روانہ کیا۔ میں اس تمام عرصے ہوش اور بےہوشی کے ہنڈولے میں رہی۔ ہم دونوں ہی گم سم ہو گئے تھے بلکہ ایک دوسرے سے شدید شاکی بھی کہ آخر سیندھ کب اور کیسے لگی اور ہم کیوں کر بے خبر رہے؟ میں منظر کا گریبان تار تار کرتی کہ نہ تم وہ منحوس ریوالور گھر لاتے اور نہ ہی یہ سانحہ ہوتا۔ منظر مجھ سے کبیدہ تھے کہ تم کیسی لاپروا ماں ہو کہ تم سے بیٹے کا بدلتا مزاج اوجھل رہا؟

ہم دونوں روتے اور ایک دوسرے سے لڑ لڑ کر نڈھال ہو چکے تھے اور مانو دائمی جدائی کے موڑ پر تھے کہ منظر نے سنبھالا لیا اور مجھ سے کہا کہ ہم لوگ سب کچھ تو کھو چکے ہیں سو بجائے ایک دوسرے سے جدا ہوکر مزید شکستہ ہونے کے کیوں نہ ہم دونوں مل کر شہزاد کی بخشش کا سامان کریں کہ ہمارا دکھ اور نقصان سانجھا ہے۔ سو منظر نے اللہ سے لو لگا لی اور میں شہزاد کی خودکشی کے بھید کی کھوج میں الجھ گئی۔

میں تو شہزاد کا کمرہ بھی نوکروں سے صاف نہیں کرواتی تھی، خود ہی صاف کیا کرتی تھی اور ایسی احتیاط کی ماری ماں تھی کہ اس کی شرٹ اور تکیے کے غلاف سونگھتی تھی کہ کہیں میرا بچہ کوئی نشہ تو نہیں کرتا، اس کے باتھ روم کا باریک بینی سے جائزہ لیتی تھی مگر کبھی کوئی ایسا نشان نہیں ملا۔ حماد اور ثقلین سے بھی پوچھا، بہت کرید کی کہ کہیں کوئی لڑکی کا سلسلہ تو نہیں تھا؟ کسی کمزور لمحے کی گرفت میں آکر کسی کے ہاتھوں بلیک میل تو نہیں ہو رہا تھا؟ کوئی نشہ تو نہیں کرتا تھا؟

ہر سوال کا جواب نفی میں تھا اور کوئی سرا ہاتھ ہی نہیں آتا تھا۔ ہاں حماد نے ایک بات ضرور کہی کہ وہ ادھر کچھ دنوں سے بہت خاموش ہو گیا تھا اور نہ فون اٹھاتا تھا اور نہ ہی میسج کا جواب دیتا تھا۔ آنٹی یونیورسٹی میں تو وقت ہی نہیں ملتا تھا سو میں نے یہی سوچا تھا کہ ہفتے کی رات کو بچوں کو پڑھانے کے بعد میں اس کے ساتھ ہی آپ کے گھر آؤں گا تاکہ رات رک جاؤں اور اس سے اس رویے کا سبب پوچھوں مگر اس سے پہلے ہی یہ سب ہو گیا۔

پولیس نے جب ہمیں شہزاد کا ذاتی سامان واپس دیا تو اس میں ایک ڈائری بھی تھی جو اس سے پہلے میری نظروں سے کبھی بھی نہیں گزری تھی۔ اس ڈائری میں اس کے لکھے گئے کچھ مختصر افسانے اور اقتسابات پڑھ کر میں دہل گئی۔ وہ سب اسی خالی پن کے عکاس تھے جن کا ذکر اس نے اس رات کیا تھا۔ تو کیا یہ آسودگی اور آسانی تھی جس نے اس کی جان لی؟ کیا جشن لطف و راحت کی فراوانی اس کی قاتل تھی؟ یہ کھوج مجھے ریسرچ تک لے آئی اور میں Dr Dina Goldstein Silvermanکا پیپر اور ان کی ریسرچ کا لب لباب پڑھ کر دنگ رہ گئی۔

میرا introvert اور کاملیت پسند شہزادہ اسمائلنگ ڈپریشنSmiling depressionکا شکار تھا اور ہم لوگ جان ہی نہ سکے۔ وہ تو ہر کام بڑے منظم طریقے سے کرتا تھا اور اس کے چہرے کو روشن کرتی اس کی نرم مسکراہٹ اس کا خاصہ تھی۔ اس کی زندگی میں بظاہر کوئی غم اور پریشانی نہیں تھی مگر وہ بلا کا حساس بچہ تھا اور یہ سکھ، چین اور قرار اس کی روح کا آزار بن گئے۔ اس نے اس رات کہا تھا کہ

امی ہر صبح و شام ایک سی ہے، اتنی روٹین کی زندگی کہ میں اپنی حیات کے اگلے پانچ سالوں کی پیشنگوئی کر سکتا ہوں۔

پھر کیا امی؟

ایک ہی جیسے دن رات، کوئی نیا پن نہیں۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ اس زندگی کے بعد کیا ہے؟

وہ ہمیشہ ہمیش کی زندگی کیسی ہے؟

مجھے اپنی زندگی سے شکایت تو نہیں مگر میں ابدی زندگی کا متلاشی ہوں؟

ہائے میں کیوں نہ چونکی؟

میرے اندر خطرے کی گھنٹی کیوں نہیں بجی؟

میں بےخبری میں ماری گئی۔ میرے شہزادے کو آسودگی مار گئی۔ میرا بچہ اندر سے تنہا تھا۔ وہ موت کے بھید کو کھوجنے کے لیے زندگی کے پل کو پار کر کے موت کی دھندلکوں میں کھو گیا۔ اس بات سے قطعی بے خبر یا شاید بے حس کہ اس کی جدائی ہم دونوں پر کیسی قیامت بن کر ٹوٹے گی اور اس کے ساتھ ساتھ ہم بھی جان ہار دیں گے۔ ہائے بھلا ایسے بھی کوئی کرتا ہے شہزاد؟ اولاد کب سمجھے گی کہ ماں باپ کی سانس کی ڈور اور زندگی کی امنگ تو بس اولاد کے دم سے ہے۔

رنج کتنا بھی کریں ان کا زمانے والے

جانے والے تو نہیں لوٹ کے آنے والے

کیسی بے فیض سی رہ جاتی ہے دل کی بستی

کیسے چپ چاپ چلے جاتے ہیں جانے والے

اس حادثے کے بعد بیشتر ملنے والوں نے ہم لوگوں سے قطع تعلق کر لیا اور مجھ پر دوست اور نام نہاد دوستوں کا فرق روز روشن کی طرح عیاں ہو گیا۔ اس پر درد گھڑی میں میرے کچھ بہت اپنے بےگانے اور کچھ یکسر انجانے اپنے بن گئے۔ درد کی کٹھالی بھی خوب ہے، یہ جزبے کے کھرے پن کو واضح طور پر بناوٹ کے کچرے سے چھانٹ کر اجال دیتی ہے۔ شہزاد کی خودکشی معاشرتی ٹیبو تھی اور اس چلتے معززین ہم لوگوں سے ملنے سے گریزاں تھے۔ ہم دونوں تقریبا ََاکیلے رہ گئےتھے اور دن بہ دن تنہائی کی دلدل میں دھنستے جا رہے تھے۔

ایک دن میں نے فیس بک پر اپنی بپتا تحریر کی اور پھر آہستہ آہستہ میرے گرد ہمارے ہی جیسے گرفتہ دل جمع ہونے لگے اور پھر "گریف سپورٹ" گروپ وجود میں آیا اور ہم ایک دوسرے کا درد بانٹنے لگے اور ہمیں کندھا میسر آ گیا۔ ہم سب ایک دوسرے کا نہ صرف سہارا بنے بلکہ اسمائلنگ ڈپریشن smiling depression پر مکالمہ بھی شروع کر دیا۔ اس سلسلے میں ورک شاپ اٹینڈ کی، ماہرین سے ملاقاتیں کی اور مجھے اطمینان ہے کہ اجتماعی کوششوں کے باعث ہم لوگ کچھ شہزاد کی زندگیاں بچانے میں کامیاب رہے اور میری زخمی ممتا اب قدرے پر سکون ہے۔

اپنے بچوں پر گہری نظر رکھیے اور ان کے کہے لفظوں کو جانچیے۔ دھیان رکھیے کہ ان کے معمولات کی خفیف سی تبدیلی بھی آپ کی نظروں سے اوجھل نہ ہو۔ خدا نہ کرے کہ کبھی ہماری طرح کے پچھتاوے کسی دشمن کا بھی مقدر ہوں۔ جانے کیوں آج بار بار ذہن کے پردے پر اپنی ایک طالبہ کا پوچھا گیا سوال دستک دے رہا ہے۔ بہت پرانی بات ہے، دسویں جماعت کی الوداعی تقریب تھی اور میمونہ نے مجھے سے پوچھا تھا کہ

"مس بتائیں دنیا کا مشکل ترین کام کون سا ہے؟"

اس وقت اس سوال کا کیا جواب دیا تھا یاد نہیں، مگر یہ سوال میرے ذہن میں ہمیشہ کے لیے اٹک گیا تھا۔ میمونہ دنیا کی اس بھیڑ میں جانے کہاں ہو گی؟ مگر اب میرے پاس اس سوال کا بہت واضح جواب ہے، سنو میمونہ

"دنیا کا مشکل ترین کام، اپنے بچے کی نماز جنازہ پڑھنا اور اس کو قبر میں اترتے ہوئے دیکھنا ہے۔ "

Check Also

Kahani Aik Dadi Ki

By Khateeb Ahmad