Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Shaam Se Pehle (2)

Shaam Se Pehle (2)

شام سے پہلے (2)

شکیل کے بعد مجھے چومکھی لڑنی پڑی کہ میرے دیور گھر اور شکیل کی کمپنی سے ملنے والی قلیل رقم کے مدعی تھے، گو کہ گھر میرے نام پر تھا مگر میرے دیور، قدیر جتنا روڑا اٹکانے کی قدرت رکھتے تھے، انہوں نے وہ سارے حربے آزما ڈالے۔ میں سخت ترین حالات سے گزر رہی تھی کہ زندہ انسان کی سب سے بڑی ضرورت روٹی ہی ہے۔ یقین کرو عورت کو روٹی بہت بھاری پڑتی ہے۔ مجھے تو صحیح طور پر شکیل کا غم منانے کی مہلت بھی نہیں ملی۔

عدت کے فوراً بعد ہی نوکری کی کوششوں میں شہر بھر میں جوتی چٹخاتی پھری۔ اس آڑے وقت میں اللہ کے کرم کے صدقے میری بی ایڈ کی ڈگری کام آئی اور مجھے شمس تبریز بوائز اسکول میں نوکری مل گئی۔ ساتھ ہی میں نے اپنا معمولی سا زیور بیچا اور مکان کے کاغذات رہن رکھ کر بنک سے قرض لیا اور گھر کی چھت پر ایک بڑا کمرہ، باورچی خانہ اور غسل خانہ بنوایا، جو ہم ماں بیٹے کو کافی تھا۔ نیچے گھر کو کرایے پر دے دیا۔

اس تمام کاروائی میں تقریباً ڈھائی تین سال لگ گئے۔ جب ان ساری سختیوں سے نمٹ کر میں کُلی طور پر فرقان کی طرف پلٹی تو وہ کہیں بہت دور جا چکا تھا۔ عدالتی کارروائی اور اوپر کمرہ بنوانے کی مشقت اور نئی نوکری، ان جھمیلوں میں پھنس کر میری توجہ فرقان پر قدرے کم رہی وہ مزید زود رنج اور تنہا ہوتا چلا گیا۔ میری ہزار کوششوں کے باوجود ہم ماں بیٹے کے درمیان بس ضرورت ہی رشتہ رہی۔

پڑھائی میں فرقان کی دلچسپی کم ہی کم تھی۔ میری زندگی اسکول اور شام میں گھر پر بچوں کو ٹیوشن دینے پر ہی شروع اور ختم تھی۔ نوکری، ٹیوشن اور مکان کا کرایا، ہم ماں بیٹے کی عزت سے گزر بسر کے لیے کافی تھا۔ فرقان نے مشکلوں سے بی کام کیا اور صدر میں جعفر جی کے یہاں جونیئر اکاؤنٹنٹ لگ گیا۔ فرقان بیبا بچہ تھا۔ کسی عادتِ بد کا شکار نہیں، حتیٰ کہ اسے پان سگریٹ یا سنیما سے بھی شغف نہیں تھا۔ عجیب بات کہ اس کا کوئی ایک بھی گہرا دوست نہیں تھا، سارے ہم جماعتوں سے اس کی یاد اللہ ضرور مگر کوئی ایک بھی چیندہ و خاص نہیں۔

شاید میں ہیلی کاپٹر ماں بن گئی تھی، ضرورت سے زیادہ محافظ۔ میں نے سدا اسے اپنی حفاظت کے حصار ہی میں رکھا۔ زمانے کی سرد و گرم سے بچا کر مرغی کے چوزے کی طرح اپنے پروں کے نیچے۔ کیا کروں کراچی کے حالات ہی اتنے مخدوش رہے، یہ نوجوانوں کے لیے ساز گار نہیں تھے۔ گھر سے باہر جوانوں کے لیے کوئی صحت مند تفریح کا سامان ہی نہیں تھا۔ بس یہ گھر میں بیٹھا وڈیو گیم سے دل بہلایا کرتا تھا۔ شاید تبھی سے اسے عورت کے سائے اور تحفظ کی عادت ہوگئی تھی۔ ماں کی اوڑھنی بوسیدہ ہوئی تو بیوی کی اوڑھنی کا سایہ مطلوب و مقسوم ٹھہرا۔

فرقان کی شادی برادری ہی میں ہوئی ہے، فرحت میرے دور پار کے رشتے دار ہیں۔ فرقان کی شادی پر ہم لوگ نیچے گھر میں شفٹ ہو گئے اور اوپر کا پورشن، اولاد کے ہاتھوں ستائے گئے ایک قناعت پسند والدین کو نہایت کم کرائے پر دے دیا۔ شروع میں سب ٹھیک رہا مگر پھر میرے پرانے وضع کا مکان فرحت کو بہت تنگ اور گھُٹا گھُٹا لگنے لگا۔ وہ اتنی غلط بھی نہ تھی کہ میرا گھر مشرقی رخ پہ تھا جہاں ہوا کا گزر کم ہی کم تھا۔ پھر اسے محلے کی دقیانوسیت سے شکایت ہوئی اور ہوتے ہوتے مجھے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی خوشی کی خاطر گھر بیچنا پڑا۔

یہ والا گھر فرحت کے نام پر ہے اور یہاں آتے ہی اس نے ماتھے پر آنکھیں رکھ لی۔ میں بےوقوف بیٹے کی خوشنودی و آبادی کے چلتے اپنا سارا سرمایہ لٹا کر اپنے ہاتھ پیر کٹوا چکی ہوں۔ کووڈ کے بعد تو میں عضو معطل ٹھہری۔ کووڈ نے مجھے اتنا کمزور اور نڈھال کر دیا تھا کہ میں اپنی نوکری جاری نہ رکھ سکی۔ اسکول سے فراغت پر مجھے جو تھوڑا بہت پیسہ ملا اسی کو لے کر گھر میں آئے دن کی دانتا کل ہے۔ اب تو فرقان بھی برملا کہتا ہے کہ روٹی اور چھت تو ہے ہی آپ کے پاس۔ آپ ان پیسوں کا کیا کریں گی؟

فرحت کی سمجھ بوجھ اچھی ہے وہ ان پیسوں کو اچھی جگہ انویسٹ کرکے مہینوں میں منافع کھڑا کر دے گی۔ مگر میں جانتی ہوں، جن پر میری دو روٹی بھاری ہے ان سے بھلا میری بیماری اور دوا کا خرچا کیسے اٹھے گا۔ جانے یہ مجھے دفن بھی کریں گے کہ لاوارث قرار دے کر ایدھی کے سر مار دیں گے۔

آج کل کی لڑکیوں کو نجانے کیا ہوگیا ہے۔ جوانی کے زعم یہ اسی عورت کے درپے ہو جاتی ہیں جس نے اپنا خون جگر پلا کر ایک نحیف جان کو تنومند جوان کا روپ دے کر اور دل کی پوری آمادگی کے ساتھ ایک پڑھا لکھا، برسر روزگار شاداب وجود ان کے حوالے کیا ہوتا ہے۔ بدلے میں بس رشتے کا احترام اور تھوڑی سی چاہ ہی کی تو طلب گار ہوتی ہے وہ پرانی عورت۔ فرحت کو میرا وجود اب گورا ہی نہیں، بیٹا ہے کہ مانند بت خاموش تماشائی۔ بہو کی بدتمیزیوں سے زیادہ تو مجھے فرقان کی خاموشی ڈستی ہے۔

وہ بولتے بولتے نڈھال ہو چکی تھیں اور ان کی آنکھیں متواتر گریاں سے متورم۔ مجھے ان کی بےبسی پر بہت ترس آیا۔

آپ تھوڑی دیر آرام کر لیجیے خالہ۔

نہیں نہیں بیٹا رات گہری ہو جائے گی، تم بس مجھے رکشے میں بیٹھا دو میں ایدھی ہوم چلی جاؤں گی۔ کہیں ان کا دفتر نہ بند ہو جائے۔

انہوں نے گلوگیر لہجے میں پھر اپنی التجا دہرائی۔

کمال ہے خالہ بیٹا بھی کہہ رہی ہیں اور جانے کی بات بھی کر رہیں ہیں۔ اب رات ہوگئی ہے، آپ آرام کیجیے میں صبح خود آپ جہاں کہیں گی چھوڑ آؤں گا۔

انہوں نے بےبسی سے مجھے دیکھا اور سر جھکا دیا۔

میں کمرے کا دروازہ بند کرکے ابا کے کمرے میں چلا آیا۔ کھانے کے بعد ابا سے میری طویل گفتگو رہی۔ فجر کی اذان پر ان کے کمرے سے نکلا اور نماز پڑھ کر صوفے پر بےسدھ سو گیا۔ قریباً نو بجے آنکھیں کھلیں اور یکدم پچھلی رات کا سارا واقعہ دماغ میں کوند گیا۔ میں صوفے سے اچھل کر خالہ کے کمرے کی جانب بھاگا۔ خالہ بستر پر پاؤں لٹکائے خالی خالی نظروں سے دیوار کو دیکھ رہی تھیں۔ میں نے ان سے اپنے دیر سے اٹھنے پر معذرت کی اور الٹے پیروں ناشتے کے انتظام کے لیے باورچی خانے دوڑا۔

دیکھا تو ناشتا ہوٹ پوٹ میں تیار تھا اور ابا وہیں کچن میں کونے میں دھری ٹیبل پر ناشتے میں مصروف تھے۔ تم منہ ہاتھ دھو کر ان کے ساتھ ہی ناشتا کر لو، جب تک میں دم پہ رکھی چائے تھرماس میں انڈیل دیتا ہوں۔ ابا نے مجھے دیکھتے ہی حکم صادر کر دیا۔

خالہ نے مشکلوں سے ناشتا کیا کہ ان کی سوئی ایدھی سینٹر پر ہی اٹکی ہوئی تھی۔ میں تو خالہ کے ساتھ الجھا رہا اور ابا نے آج مدتوں بعد کھانا بنایا اور کیا خوب بنایا۔

۔۔

عصر سے پہلے ہم سب بیٹھک میں بیٹھے چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ اطلاعی گھنٹی بجی۔ دروازے پر ایک پریشان حال شخص کھڑا تھا۔ میں نے قیاس کیا کہ یہ فرقان ہی ہے تاہم میں سلام کرکے خاموش کھڑا رہا۔

اس نے بمشکل تھوک نگلتے ہوئے کہا کہ جی سامنے والے باقر صاحب بتا رہے ہیں کہ میری اماں آپ کے گھر ہیں؟

آئیے آئیے اندر آ جائیں، دروازے پر کھڑے ہو کر بات کرنا مناسب نہیں۔

میں نے ایک طرف ہو کر اسے اندر آنے کا راستہ دیا۔

بیٹھک میں قدم رکھتے ہی صحیح معنوں اس کے پیروں تلے زمین نکلتی چلی گئی۔ بیٹھک میں محلے کی مسجد کے امام صاحب اور ہمارے دونوں پڑوسی ابا کے ساتھ بیٹھے تھے۔ امام صاحب اپنا رجسٹر بغل میں دابے، ابا سے الوداعی مصافحہ کر رہے تھے۔ ٹیبل پر پڑا بڑا سا میٹھائی کا ڈبہ، پھولوں کا ہار اور کونے والے صوفے نفیس لباس زیبِ تن کیے ساکت چہرے والی خالہ کو دیکھ کر گویا فرقان کے جسم کا سارا خون سمٹ کر اس کے چہرے پر آ گیا۔

اماں گھر چلو!

شدتِ جزبات سے اس کی آواز پھٹ سی گئی۔

دھیرج فرقان صاحب، یہاں آپ کی اماں کا تو پتہ نہیں مگر میری امی ضرور رہتی ہیں۔

میں نے فرقان کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا۔

ابا نے آگے بڑھ کر فرقان سے کہا

"بیٹے راشدہ آپ کی والدہ ہیں اور وہ جب چاہیں آپ کے گھر ملنے جا سکتی ہیں مگر اب یہ گھر ان کا ہے اور وہ کلی طور پر اپنی مرضی کی مالک و مختار۔ "

یہ سنتے ہی جہاں خالہ کا چہرہ پرسکون ہوا وہیں فرقان کا چہرہ دھواں دھواں ہوگیا اور کچھ کہنے کی کوشش میں اس کے ہونٹ کپکپا کر رہ گئے۔ وہ اپنے شکستہ قدموں پر گھسٹتے ہوئے بیٹھک سے یوں نکلا جیسے جنت بدر انسان۔

Check Also

Khawaja Saraon Par Tashadud Ke Barhte Waqiat

By Munir Ahmed Khokhar