Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Shaam Se Pehle (1)

Shaam Se Pehle (1)

شام سے پہلے (1)

میں نے عید کی چھٹیوں کے ساتھ اضافی چھٹیاں بھی لے لیں تھیں تاکہ اس بار گھر جا کر ابا جان کا مفصل چیک اپ کروا سکوں۔ پچھلے ٹرپ پر ابا جان مجھے نسبتاً زیادہ خاموش اور کمزور لگے تھے اور ان کی گرتی صحت مجھے فکرمند رکھتی۔

محلے میں عرصے دراز سے خالی پڑا املی کے درخت والا مکان آباد ہوگیا تھا، جو میرے لیے باعثِ خوشگوار حیرت بھی۔ میں نے رات کے کھانے پر اپنے گوشہ نشین ابا سے نئے آنے والوں کی بابت دریافت کیا کہ کیسے لوگ ہیں؟ حسب توقع ابا، آنے والوں کے کوائف سے لاعلم تھے، بولے ہاں شاید چھوٹی سی فیملی لگتی ہے۔

میں نے جب میڑک پاس کیا تھا تو ہم لوگ پاپوش، گیارہ نمبر سے گلشن اقبال پانچ نمبر منتقل ہوگئے تھے۔ ابا کی محنت شاقہ سے بنایا گیا یہ مکان اس وقت ادھورا ہی تھا۔ دو سال کی مدت میں کہیں جا کر یہ گھر مکمل ہوا۔ یہ گھر ہم سب کے خوابوں اور آرزوؤں کا مسکن تھا۔ امی جان جو گھر کی تعمیر پر سب سے زیادہ خوش تھیں، انہیں جلد ہی اپنی راجدھانی سے ہجرت کرنی پڑی کہ جگر کے کینسر نے انہیں خوشیوں سے محضوظ ہونے کی مہلت ہی نہیں دی۔ امی کے بغیر آپا، ناجیہ، میں اور گھر، ویران اور ابا جان بالکل ہی گم سم ہو گئے تھے۔

کیسے نہ ہوتے، امی، ابا کی صرف فرسٹ کزن ہی نہیں بلکہ بچپن کی محبت بھی تھیں۔ ایسی شریک حیات جس نے ابا کی شاہراہ حیات کے کانٹے اپنی پلکوں سے چنے تھے۔ یہ دونوں صحیح معنوں میں رفیق اور ہم دم و دم ساز تھے۔ ابا جان ہمیشہ کے کم گو پر اب تو ہوں ہاں سے بھی گئے، لگتا تھا کہ نطق کہیں مقفل کرکے چابی دریا برد کر چکے ہیں۔ اس گھر کی ساری حرارت اور رونق امی کے دم قدم سے تھی، اب تو گھر میں بس ایک چپ کی گونج تھی جو برمے کی طرح دل کے آر پار ہوتی۔ آپا اور ناجیہ بھی تعلیم مکمل کرکے اپنے گھر بار کی ہوئیں اور میں پردیس کا ٹھیکرا ہوا۔

عیدِ قرباں ہمیشہ کی طرح اپنی روایتی رونق اور گہما گہمی کے ساتھ گزری، ابا اور میں نماز کے بعد قبرستان گئے، آج تو شہر خموشاں بھی پر رونق تھا۔

ایک دوپہر میں نانبائی سے روٹیاں لے کر واپس آ رہا تھا تو املی والے گھر سے کسی عورت کی اونچی اونچی غضب ناک آوازیں باہر تک سنائی دے رہی تھی، وہ کسی کو بری طرح ڈانٹ پھٹکار رہی تھی۔ میں نے اس گھر سے اکثر ایک دبلی پتلی عمر رسیدہ عورت کو ایک بچے کا ہاتھ تھامے، اسے اسکول چھوڑتے اور لاتے دیکھا تھا۔

میں ابا جان کے چیک اپ اور ٹیسٹ کے چکر میں کلنک اور لیب کے درمیان گھن چکر بنا ہوا تھا۔ کھانے کے بعد مجھے بے طرح سگریٹ کی طلب محسوس ہوئی تو میں دبے قدموں گھر سے باہر نکل آیا، باہر چار سو چلچلاتی دھوپ اور دوپہر کا حبس بھرا سوگوار سناٹا طاری تھا۔ اپنے گھر کے دروازے پر استادہ گل مہر کے مہربان سایے تلے سگریٹ کا پہلا کش ہی لیا تھا کہ املی والے مکان کا دروازہ دھڑاک سے کھلا اور کسی نے ایک نحیف وجود کو باہر دھکا دے دیا۔

دیکھا تو وہی دبلی پتلی عورت ہچکیوں سے روتی اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش میں مزید بکھر رہی تھی۔ ابھی میں متحیر آگے بڑھنے ہی والا تھا کہ ایک اوبر کار آ کر رکی اور اس گھر سے ایک عورت اسی چھوٹے بچے کے ساتھ ایک سوٹ کیس لے کر باہر نکلی اور ایک گٹھری اس بوڑھی عورت کی جانب اچھال دی۔ بوڑھی عورت نے لپک کر اس عورت کا ڈوپٹہ پکڑ لیا اور لجاجت سے کہا

بیٹی میں کہاں جاؤں گی؟

اس عورت نے جھٹکے سے اپنا ڈوپٹہ چھڑاتے ہوئے نخوت سے کہا

جہنم میں!

اور اوبر میں بیٹھ کر یہ جا وہ جا۔

یہ سارا تماشا کوئی منٹ سے اوپر ہی بھر کا تھا۔ میں آگے بڑھا اور انہیں سہارا دے کر اٹھایا اور کہا خالہ یہ سامنے ہی میرا گھر ہے، آپ گھر میں چل کر بیٹھیں، پانی وانی پیجیے پھر سوچتے ہیں کہ کیا کرنا ہے۔ نہیں نہیں بیٹا تم مجھے رکشہ کر دو میں نارتھ کراچی کے ایدھی ہوم چلی جاؤں گی۔ انہوں نے بےچارگی سے اپنی کہنی سے رستے خون کو اپنی ساری کے آنچل میں جذب کرتے ہوئے کہا۔ ٹھیک ہے خالہ، پہلے آپ گھر تو چلیں، آپ کے زخم کی ڈریسنگ کر دوں، پھر آپ جو کہیں گی ویسا ہی کروں گا۔ چلیں آئیں شاباش۔ میں نے انہیں سہارا دے کر اٹھاتے ہوئے کہا۔

شکر کہ ابا سو رہے تھے، میں انہیں اپنے ہی کمرے میں لے آیا۔ انہیں بستر پر ٹیک لگا کر بیٹھایا اور جلدی سے اے سی آن کیا، پھر باورچی خانے سے ٹھنڈا پانی اور فرسٹ ایڈ باکس لا کر ان کی ڈریسنگ کی۔ پانی پی کر ان کے اوسان قدرے بحال ہوئے مگر پھر ان کی وہی تکرار کہ مجھے ایدھی ہوم چھوڑ آؤ۔

خالہ آپ پریشان نہ ہوں، پڑوسیوں کا بہت حق ہوتا ہے۔ ہم لوگ مل جل کر اس مسئلے کا کوئی حل نکال لیں گے۔ میں نے انہیں تسلی دینے کی کوشش کی۔

نہیں بیٹا اس مسئلے کا کوئی حل نہیں، فرحت کئی دن سے مجھے گھر سے نکلنے کا کہہ رہی تھی اور آج اس نے نکال کر ہی دم لیا۔ انہوں نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے گلوگیر آواز میں کہا۔

آپ فکر کیوں کرتی ہیں آپ کا بیٹا معاملہ سنبھال لے گا۔

نہیں بیٹا ایسا کچھ نہیں ہونے والا، فرحت کے آگے اس کی بولتی بند ہے۔

انہوں نے بےبسی سے ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔

یہ سن کر تو میں حیرت سے گنگ رہ گیا۔ کیا کوئی بیٹا اتنا بھی کٹھور اور بےغیرت ہو سکتا ہے؟

نہیں نہیں کوئی بیٹا ایسا نہیں کر سکتا۔

میں ابھی تک حیران پریشان تھا۔

اب کُل یُگ ہے بیٹا اور سب ممکن۔ میں نے بیوگی میں فرقان کو بڑی محنتوں سے پالا، اسے سختی و تندی کی بادِ سموم سے لحظہ لحظہ بچایا پر جانے کہاں غلطی کر بیٹھی؟

مجھے ان کی بےکلی نے بےچین کر دیا۔ اچھا آپ آرام کریں میں ابھی آتا ہوں۔ مجھے اندازہ تھا کہ وہ بھوکی ہیں۔ میں نے کھانے کی ٹرے سجائی اور ان کے آگے رکھ دی۔ انہوں نے ہچکچاتے ہوئے بسمہ اللہ پڑھ کر کھانا شروع کیا مگر ہر نوالہ گویا ان کے حلق میں اٹک رہا تھا جیسے وہ پانی کا گھونٹ بھر کر نیچے دھکیلنے کی کوشش کرتیں۔ جو سچ کہوں تو مجھ سے ان کی بے چارگی برداشت نہ ہوئی اور میں کچن میں آکر چائے بنانے لگا۔ ابا بھی شاید کھٹ پٹ سے جاگ گئے تھے وہ باورچی خانے آ گئے۔

میں نے انہیں مختصراً خالہ کی ببتا سنا دی۔ وہ افسردہ ہو گئے اور کہا کہ تم نے اچھا کیا جو انہیں گھر لے آئے۔ میں اپنے کمرے ہی میں ہوں، کچھ ضرورت ہو تو آواز دے لینا۔ یہ کہہ کر وہ دبے قدموں اپنے کمرے میں چلے گئے۔ میں نے خالہ کو چائے کے ساتھ پین کلر دی اور کہا آپ مجھ پر بھروسہ کر سکتی ہیں۔ چائے مکمل خاموشی میں پی گئی، چائے کی خالی پیالی بیڈ سائیڈ پر رکھ کچھ لمحے سکوت کے بعد ان کی تھکی تھکی آواز کمرے میں سرسرائی۔

میرا نام راشدہ ہے اور میرے میاں کا نام سید شکیل احمد۔ شکیل، ابا کے کولیگ کے بیٹے تھے اور ہم دونوں ہی کا تعلق متوسط گھرانوں سے تھا۔ شکیل پرائیویٹ کمپنی ملازم تھے سو تنخواہ تو اچھی مگر مشقت بلا کی تھی۔ سسر کے گزرنے کے بعد ترکے میں کچھ رقم ملی تھی۔ وہ رقم، کچھ کمیٹی کے پیسے جوڑ کر اور باقی ہاؤس بلڈنگ سے قرض لے کر ناظم آباد تین نمبر میں شکیل نے اپنے سائبان کا انتظام کیا۔

ابھی ہاؤس بلڈنگ کا آدھا قرض ہی ادا ہوا تھا کہ میری پرسکون جنت کے دروازے پر اجل نے دستک دے دی۔ شکیل ہفتے سے سینے میں گھٹن اور دباؤ کی شکایت کر رہے تھے۔ گلی کے ڈاکٹر کو دکھایا، اس نے گیس کا درد تشخیص کیا اور احتیاطاً ای سی جی کروانے کا مشورہ دیا۔ جمعرات کی شام دفتر سے واپسی پر وہ عباسی شہید ہسپتال چلے گئے۔ وہاں بستر پر ابھی ٹیکنیشن ان کے سینے پر تاریں ہی لگا رہا تھا کہ شدید قسم کا دورہ پڑا اور ان کا دل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رک گیا۔

ڈاکٹروں نے دل کو متحرک کرنے کی اپنی سی کوششیں بھی کی مگر حضرت عزرائیل بھلا کب ٹلتے ہیں۔ شکیل کی کہانی ختم ہوئی اور ساتھ ہی میری مشقت کا آغاز۔ اس وقت فرقان ساتویں جماعت میں تھا۔ فرقان ہمیشہ سے کم گو اور شرمیلا بچہ تھا، حالانکہ اکلوتا تھا سو وہی ہماری پوری توجہ اور محبت کا مرکز بھی مگر یہ اپنی ذات کے خول میں بند ہی رہا۔

Check Also

Khyber Pakhtunkhwa Ka Jahannam

By Najam Wali Khan