Seeto Aur Sunny (1)
سیٹو اور سنی(1)
کبھی کبھی کوئی یاد بجلی کی طرح کوندتی ہے۔ ایسے ہی آج بیٹھے بٹھائے " سیٹو " یاد آگئ۔ جاپانیوں کی اصلی عمر جاننا بھی کار دشوار ہے کہ یہ نہایت عمر چور ہوتے ہیں۔ ایسی ہی فنکار سیٹو بھی تھی۔ درمیانی قد و قامت، چھریری، چمپئ رنگت۔ بھونرے جیسی کالی آنکھوں اور کالے ریشم جیسے بالوں والی سیٹو۔ گربہ چال چلتی اور سلیقہ طریقہ، ادب و آداب جیسے گھٹی میں پڑا ہو۔
وقت کی قدر دان و خاموش طبع۔ وہ سب کی دوست تھی مگر حد ادب کے اندر، کسی کی ذاتیات میں دخیل نہیں اور اپنے معاملات میں بھی حد درجہ محتاط۔ میں اسے پھرتی اور سبک رفتاری سے ڈائننگ ہال میں کام نپٹاتے دیکھا کرتی اور اس کی لچک و نفاست پر عش عش کرتی۔ ہمیں دس دن ہوئے تھے بنگلہ دیش سے اس جگر مگر کرتی ہوئی اجنبی سر زمین پر اترے ہوئے۔ میں سحر آفریں بنگال سے بہار کا استقبال کر کے چلی تھی مگر یہاں بہار ابھی تک خوابیدہ تھی سو دھوپ کی تمازت جسم کو بڑی بھلی لگتی۔
رحمان، میرے میاں نے ڈھاکہ میں بیٹھے بیٹھے یہاں اپارٹمنٹ کرائے پر لے لیا تھا مگر نوکری کی تلاش ہنوز جاری تھی۔ وہ آئی ٹی کی فلیڈ کے ماہر تھے اس لیے امید واثق تھی کہ جلدی ہی نوکری کا بندوست بھی ہو جائے گا۔ جس بلڈنگ کی چودھویں منزل میں ہم لوگوں کی رہائش تھی، ٹھیک ویسی ہی عمارت پڑوس میں بھی تھی۔
ایک شام میں رجا اور روحا کے ساتھ نیچے گراؤنڈ کم پلے ایریا میں تھی کہ وہاں دو پیاری سی لڑکیوں سے ملاقات ہوئی۔ وہ فلپائن سے تھیں اور دونوں تنکوں کی ٹوپیاں پہنے ہنستی مسکراتی بس سے اتری تھیں۔ تنکوں کی ٹوپی نے مجھے ناسٹلجیا میں مبتلا کر دیا اور میں بے اختیار ان لڑکیوں کی طرف کھنچتی چلی گئی۔ وہ دونوں بہنیں تھیں اور اسی بلڈنگ میں چھٹی منزل کی رہائشی۔
ان لڑکیوں سے گپ شپ کے دوران پتہ چلا کہ پڑوس میں جو عمارت ہے وہ اولڈ ہوم ہے اور وہ دونوں وہیں ڈائنگ ہال میں ویٹریس ہیں۔ باتوں باتوں میں یہ اطلاع بھی ملی کہ آج کل وہاں پریپ کک کی آسامی خالی ہے۔ گھر آ کر میں نے رحمان سے اس نوکری کا ذکر کیا۔ پہلے تو وہ حسب معمول ہتھے سے اکھڑ گئے کہ تمہیں نوکری کی کیا سوجھی؟ میں کہا بھئ قسمت آزمانے میں کیا ہرج ہے؟ جب تمہیں نوکری مل جائے گی، میں کام چھوڑ دوں گی، کوئی بانڈ تھوڑی نا بھرنا ہے۔
رات کے کھانے تک میں نے رحمان کو انٹرویو کی حد تک راضی کر ہی لیا اور بیچارےکو با دل ناخواستہ ہی سہی اجازت دینی پڑی۔ دوسرے دن دس بجے میں پڑوس کی بلڈنگ گئی اور وہاں کے مینجر سے ملاقات کی۔ اب جانے ان کی ضرورت شدید تھی یا میری قسمت زور آور کہ چالیس منٹ کے بعد جب میں آفس سے اٹھی تو نوکری کا پروانہ میرے ہاتھوں میں تھا اور مینیجر جینیفر نے کچن اور ڈائنگ ہال کے دورے کے لیے مجھے ہیڈ کک کے حوالے کر دیا تھا۔
میرے لیے وہ نا قابل یقین لمحہ تھا اور میں دلی خوشی سے سرشار تھی۔ میرےپاس کوئی پچھلا تجربہ تو تھا نہیں البتہ میری ہوم اکنامکس کی ڈگری ضرور کام آ گئی تھی۔ گھر آ کر خوشی خوشی رحمان کو بتایا پر وہ کچھ نا خوش سے تھے۔ اگلے دن میں کام پر پہنچی۔ بہت ہی بڑا اور شاندار کچن اور لحیم شحیم ڈائنگ ہال۔ یہ چار ستارہ اولڈ ہوم تھا اور یہاں تقریباً اسی پچاسی بوڑھے اور انتہائی بوڑھے رہائش پزیر تھے۔ ان میں ساٹھ فیصد تو جوڑے اور چالیس فیصد چھڑے چھانٹ تھے۔ عورتیں تعداد میں نسبتاً زیادہ تھیں۔
بیشتر لوگ زندگی سے بھرپور، زندہ دل و پر امنگ پر کچھ نہایت کھڑوس اور زود رنج بھی۔ اسٹاف میں چھ ویٹریس، چارہیڈ کک اور دو پریپ کک۔ دس بجے دن میں ہلکے اسنیک کے ساتھ چائے سرو ہوتی، بارہ سے ڈیڑھ کھانا۔ تین بجے پھر چائے، کافی اور چار سے ساڑھے پانچ بجے تک رات کا کھانا۔ ہفتے کے اندر اندر میں نے کام خوش اسلوبی سے سنبھال لیا اور مجھے کام میں مزہ آنے لگا۔
ویٹریس میں دو کا تعلق فلپائن، دو کا ایتھوپیا، ایک کا جاپان اور ایک کا سربیا سے تھا۔ ہیڈ کک لبنانی اور دوسری پریپ کک یہیں کی گوری تھی، باورچی خانہ کیا تھا ایک چھوٹی سی دنیا تھی۔ اس اولڈ ہوم کے بیشتر باشندے کینیڈین اور یورپین تھے، صرف ایک آدمی ہندوستانی تھا اس کا اصلی نام تو خاصا لمبا چوڑا تھا مگر وہ سنی کے نام سے معروف تھا۔
پریپ کک ہونے کی بنا پر میرا ڈائنگ ہال سے براہ راست تعلق نہیں تھا پر رش کی صورت میں یا کسی ویٹریس کی غیر حاضری کے سبب ڈائنگ ہال کا چکر لگتا رہتا۔ اکثر وضع دار مقیمی کھانے کے بعد باورچی خانے کی کھڑکی پہ آ کر کھانے کی تعریف اور شکریہ ادا کر کے جایا کرتے تھے اور ان کی یہ ادائے دل نواز میری حیرانی اور خوشی کا موجب ہوتی کہ ہم برصغیر والے، محنت کی عظمت اور سراہے جانے کے فن سے بھلا کب آشنا ہیں؟
مجھے یہاں کام کرتے ہوئے چار مہینے ہوچکے تھے اور میں نے اپنی عبوری مدت بہترین کارکردگی کے ساتھ پوری کر لی تھی۔ اس عرصے میں رحمان کو بھی بہت اچھی نوکری مل گئی مگر سب کچھ اتنا اچھا چل رہا تھا کہ رحمان نے ایک آدھ دفعہ رسمی طور پر مجھے نوکری چھوڑنے کہا اور میں نے بھی ہوں ہاں کر کے ٹال دیا۔ دونوں بچیاں اکٹھی اسکول جاتی اور ان کی اسکول بس انہیں عمارت کے صدر دروازے سے اسکول کے لیے پک کرتی۔
ساڑھے تین بجے وہ اسکول سے وآپس آتیں، رجا پانچویں اور روحا تیسری میں تھی۔ رحمان آفس کے لیے بہت سویر نکلتے تھے سو وہ چار اور بہت دیر ہوئی تو ساڑھے چار بجے تک گھر لوٹ آتے۔ اکثر بچیاں اسکول سے میرے پاس اولڈ ہوم آ جاتی اور آدھ گھنٹہ گپ شپ لگا کر گھر چلی جاتی۔ رجا ذمہ دار بہن کا رول بڑی خوش اسلوبی سے نبھا رہی تھی۔
راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا۔ میں اپنی پوری تنخواہ مستقبل میں خریدے جانے والے گھر کے لیے محفوظ کر رہی تھی۔ اپنا گھر میرا وہ دیرینہ خواب، جس نے لڑکپن ہی سے میری آنکھوں میں بسیرا کیا ہوا تھا۔ ڈائنگ ہال میں کام کرنے والی لڑکیوں کی انگریزی قدرے کمزور تھی۔ ایک دن تین بجے کے قریب کچن میں فون کی گھنٹی بجی، سیٹو فون کے قریب ہی کھڑی تھی سو اس نے لپک کر فون اٹھایا۔ ہوں ہاں کے بعد ایک گمبھیر خاموشی چھا گئی۔ میں نے سیٹو کو دیکھا تو وہ جھر جھر نیر بہا رہی تھی۔
یا اللہ!!! کیا ہوا سیٹو؟
کس کا فون تھا؟
سیٹو نے بتایا کہ آئرین کا فون تھا اور ہیو مر گیا ہے۔
کیا؟ ؟ ؟ ؟
میں اور ہیڈ کک بیک وقت چلائے اور بے اختیار لفٹ کی جانب دوڑے۔ ہیو اور آئرین ایک آئرش کپل تھا اور بلا مبالغہ ہم سب کا پسندیدہ بھی۔ نہایت ظریف، بدلہ سنج اور مہذب۔ تیزی سے دھڑکنے دل کے ساتھ آٹھویں فلور پر پہنچے، آئرین کے اپارٹمنٹ کا دروازہ چوپٹ کھلا تھا، میرا دل ڈوب گیا۔ لرزتے قدموں سے اندر قدم رکھا تو دیکھا کہ ہیو صوفہ پر نڈھال سا بیٹھا ہے اور آئرین اسے گھونٹ گھونٹ اورنج جوس پلا رہی ہے۔ پتہ چلا کہ ہیو کی شوگر لیول کم ہونے کی وجہ سےوہ چکرا کر گر گیا تھا پر اب بہت بہتر محسوس کر رہا ہے۔ ہیڈ کک نے وہیں سے پیرا میڈیکس کو فون کیا اور میں شکر کا کلمہ پڑھتے ہوئے نیچے کچن میں وآپس آ گئ۔
میں نے سیٹو کو بتایا کہ ہیو ٹھیک ہے۔ پھر اس سے پوچھا کہ آئرین نے فون پر کیا کہا تھا؟
سیٹو معصومیت سے کہنے لگی
Irene told that Hue passed out، so a I thought he is dead۔
میں نے ہنستے ہوئے کہا سیٹو
She said passed out not passed away۔
اور سیٹو حسب عادت منہ پر ہاتھ رکھ کر بے ساختہ ہسنے لگی۔ اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر، سر پیچھے پھینکتے ہوئے ہنسنے کی ادا اتنی موہنی ہوتی تھی کہ اس لمحے وہ بالکل نو عمر لڑکی لگتی، کوئی مان ہی نہیں سکتا تھا کہ یہ پچپن سال کی عورت ہے۔ سیٹو کی کہانی بھی درد و الم سے بھری تھی اور اس نے انتہائی مشقت بھری زندگی گزاری تھی۔ سیٹو نے اپنے خاندان کے ساتھ جاپان کے شہر اوکیناوا Okinawa سے ہجرت کی تھی۔
سیٹو، اس کا میاں اور ایک بیٹی، اس کی دوسری بیٹی یہیں پیدا ہوئی تھی۔ پانچ چھ سال بعد سیٹو کے میاں کا دل کسی گوری پر آ گیا اور وہ سیٹو کو بے یار و مددگار چھوڑ کر اڑنچھو ہوگیا۔ اس کے بعد سیٹو کی زندگی محنت و مشقت سے عبارت ہوئی، اس نے اپنی بیٹیوں کی دیکھ رکھ اور تعلیم کی کوششوں میں اپنی جوانی خاک کر دی۔ ماں کی طرح بیٹیاں بھی محنتی تھیں اور اب اس کی ایک بیٹی نرس اور دوسری سرامکس میں ڈپلومہ حاصل کر کے اچھا کما رہی تھیں۔
سیٹو اپنی بڑی بیٹی جو شادی شدہ تھی، اس کے ساتھ، اس کے بیسمنٹ میں رہتی تھی اور اپنی زندگی سے مطمئن تھی۔ ہمارے ڈائنگ ہال میں ایک مختصر قد و قامت اور جھلسی رنگت کا حامل عیسائی ہندوستانی بھی رہائشی تھا۔ وہ بنگال کے سحر آفریں شہر یعنی دارجلنگ کا باسی تھا اور عموماً وسیع ڈائنگ ہال کے پچھلی جانب، آتش دان کے قریب بیٹھا کرتا۔ اچھا مہذب اور رکھ رکھاؤ کا حامل تھا۔ وہ اکثر کچن کی کھڑکی پر آ کر بنگلہ میں مجھ سے حال احوال لیتا اور یوں مختصر مدت کے لیے وہ دارجلنگ اور میں ڈھاکہ سے ہو آتے۔