Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Salahuddin Chacha (2)

Salahuddin Chacha (2)

صلاح الدین چچا (2)

پھر دو ہزار تیرہ میں ان کی بیماری کی اطلاع آئی اور ہم نے بےچین ہو کر کراچی جانے کا فیصلہ کر لیا۔ میرے کراچی آنے سے صلاح الدین چچا بہت خوش تھے، جیسے ان میں ایک توانائی سی آ گی ہو، مگر ہم انہیں دیکھ کر دھک رہ گئے تھے کہ صرف ایک سال نے ان سے کتنا کچھ چھین لیا تھا۔ ان کے ساتھ گزرے وہ دو مہینے میری زندگی کے یاد گار ایام ،کہ وہ وقت مکمل طور پر ہم دونوں چچا بھتیجی کا تھا۔ صلاح الدین چچا نے ہم سے اپنی ہر چھوٹی بڑی بات شئیر کی، اپنے ساتھ اپنے بچپن کی سیر کرائی، چٹاگانگ، جمیسا باد، ڈھاکہ راجشاہی، اپنی کامیابیاں و ناکامیاں حتیٰ کہ اپنے خواب اور خواہشات بھی۔

ان کی کیمو اور ریڈیو تھراپی میں ہم ان کے ساتھ ہوتے تھے۔ ریڈیشن کے باعث ان کی سوختہ جلد پر ایلویرا لگاتے اور ان کو سنتے رہتے کہ ان دنوں سارا سارا دن ان کو سننا میری پسندیدہ ترین مصروفیت تھی۔ ان کے پاس یادوں کا خزانہ تھا۔ ہم نے انہیں مشورہ دیا کہ آپ ان یادوں کو ریکارڈ کیجیے پھر کسی اچھے مصنف سے اپ کی خود نوشت لکھوا لیں گے۔ انہیں یہ آئیڈیا بہت پسند بھی آیا مگر تنگی وقت نے اس پر عمل درآمد کا موقع ہی نہیں دیا۔ وہ تکلیف میں تھے اور انہیں پیاس بھی بہت لگتی تھی مگر کبھی شکایت نہیں کرتے تھے۔

جب درد سے بہت بے چین ہوتے تو کہتے ذرا گردن اور کندھے تو دبا دو۔ کیمو کی وجہ سے انہیں کھانے میں ذائقہ نہیں ملتا تھا، اس بنا پر کبھی کبھی جھنجھلا جاتے کہ کھانے پینے کے شوقین تھے، سبزی بہت پسند تھی۔ اچار اور چٹنی کے بغیر ان کا گزار ممکن نہیں تھا۔ امی کے ہاتھوں کے ذائقے کو بہت یاد کرتے تھے۔ کہتے، "بھابھی کے ہاتھوں کا کھانا تو چھوڑو، ان کے تو ہاتھوں کا میٹھا (رائتہ) اتنا ذائقہ دار ہوتا تھا کہ حد نہیں، ویسا میٹھا ہم نے پھر کبھی پیا ہی نہیں۔" نجمہ، کھانا پکانے والی کی آئے دن شامت آئی رہتی تھی کہ کھانا اچھا نہیں پکا ہے۔

کبھی قسمت سے ذائقہ محسوس ہو جاتا تو بہت خوش ہوتے اور نجمہ کو بلا کر تعریف کرتے اور انعام بھی دیتے۔ دال، بھات، تلی مچھلی، ترئی کی ترکاری، دھنیا پتی کی چٹنی، شاہدہ آپا کے ہاتھوں کا ڈالا ہوا آم کا اچار اور تازہ تیکھی ہری مرچیں ان کا پسندیدہ کھانا تھا۔ تازہ ہری مرچیں اس کثرت سے کھاتے کہ ہم مزاق میں کہتے کہ صلاح الدین چچا، مرچیں کھانے میں تو آپ نے طوطے کو بھی مات دے دی ہے۔ حسرت سے کہتے

کیا کریں ! کسی چیز میں ذائقہ ہی نہیں۔

اچار کو بھوجن دھکیل کہتے تھے۔

میری کراچی سے واپسی سے ایک دن قبل ان کے گھر بڑی یاد گار شام گزری تھی۔ ہم سب ان کے کمرے میں جمع تھے اور بینا بھی فون پر جدہ سے شریک محفل تھی۔ جانے کیسے بات شعر و شاعری کی طرف مٹر گئی اور طے پایا کہ ہر شخص ایک غزل سنائے گا۔ وہاں اس وقت تین نسل جمع تھی اور ہم سب نے باری باری غزل پڑھی۔ فاطمہ ریکارڈ کر رہی تھی، شاید ابھی بھی اس کے فون میں وہ ریکارڈنگ موجود ہو۔ ان کی پسندیدہ ترین ہستی جس سے انہیں والہانہ عشقِ تھا، وہ دادی جان تھیں۔ ہم نے آج تک اپنی ماں سے کسی کی ویسی محبت و عقیدت نہیں دیکھی جیسی، صلاح الدین چچا کو اپنی ماں سے تھی۔ اولادوں میں ان کو فاطمہ عزیز ترین۔

ہمیں یاد ہے، پاپا کو دوسرا ہارٹ اٹیک ہوا تھا، جب صلاح الدین چچا ہسپتال سے واپس آئے تو خیریت پوچھنے پر انہوں نے میری تسلی کے لیے کہا کہ سب ٹھیک ہے، بس تفصیلی چیک اپ کے لیے ڈاکٹر نے روک لیا ہے، ان شاءاللہ بھیا جلدی گھر آ جائیں گے۔ ہمیں ان کی باتوں پر یقین نہیں تھا سو ہم نے کہا قسم کھائیے کہ سب خیریت ہے؟ کہنے لگے" ہاں ہاں بٹو کی قسم بھیا خیریت سے ہیں۔" ہم نے کہا نہیں، بٹو کی نہیں فاطمہ کی قسم کھائیں اور صلاح الدین چچا گھبرا گئے، کہنے لگے، " نہیں، نہیں فاطمہ کی قسم نہیں کھا سکتا"۔

وہ اپنے چاروں بچوں سے غیر معمولی محبت کرتے تھے مگر فاطمہ میں ان کی جان بند تھی اور شاید فیصل کی جان ان میں قید۔ فیصل نے آخری وقتوں میں ان کی بہت خدمت کی۔ اللہ تعالیٰ ان کے چاروں بچوں کو خوش اور آباد رکھے اور جزائے خیر عطا فرمائے آمین۔ بھائی بہنوں میں ان کا دل سب سے زیادہ بڑی پھوپھی سے ملا ہوا تھا۔ ان سے وہ اپنا دکھ سکھ کرتے تھے۔ سیفو چچا کی زندہ دل کمپنی وہ بہت انجوائے کرتے تھے۔ حقیقت یہ کہ وہ خاندان کے ہر شخص کے خیرخواہ اور ہمدرد تھے۔ اپنے ملازمین پر مہربان اور شفیق۔

یادیں اور باتیں بہت، کیا کیا یاد کیا جائے کہ اپنے لوگ تو دل میں بسے وہ پیارے ہوتے ہیں جن کے ساتھ آپ اپنی زندگی جی رہے ہوتے ہیں اور پھر ایک دم موت چپکے سے شب خون مارتی ہے۔ صلاح الدین چچا کے کیس میں تو موت دراتی ہوئی، با آواز بلند اعلان کرتی ہوئی آئی تھی کہ "جتنی باتیں کرنی ہیں اور جتنے لاڈ دلار اٹھانے ہیں، اٹھا لو کہ وقت بہت تھوڑا ہے۔"

مگر اتنا تھوڑا!

یہ نہیں پتہ تھا کہ اتنی مختصر مہلت۔ 2014 چھ مارچ، اس دنیا میں ان کا آخری دن تھا۔ اس دن کے بعد ہم میں سے بہتوں کے لیے بہت کچھ بدل گیا۔ شاہدہ آپا کا چھیڑ چھیڑ کر لڑنے والا محبوب شوہر نہیں رہا، چاروں بچوں کا شفیق اور گھنی چھتنار جیسی چھاؤں والا ذمہ دار باپ، نواسے، نواسیوں اور پوتا پوتی کا لاڈ اٹھانے والا محبتی دادا، نانا، بڑی پھوپھی کا محرم راز عزیز بھائی اور میرا باپ جیسا چچا نہیں رہا۔ ان کی جدائی نے میری یتیمی کو دائمی کر دیا۔ لے جانے کو تو موت محض ایک شخص کو لے کر جاتی ہے مگر وہ جانے والا کئی دلوں کو ویران کر جاتا ہے۔

صلاح الدین چچا کی جو بات اب بھی دل پر خراش ڈالتی ہے وہ ان کا کا حسرت سے کہا گیا ایک جملہ ہے

" شاہین! ہم مرنا نہیں چاہتے، ساری عمر تو محنت کرتے اور ذمہ داریاں نبھاتے گزری، اب جب فراوانی ہے، فراغت ہے تو چلنے کی سیٹی بج گئ ہے۔"

صلاح الدین چچا اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو اور آپ کو جنت کے بلند ترین درجے کا مکین بنائے۔ آمین ثم آمین۔

ہمیں یقین ہے کہ ان شاءاللہ آپ وہاں بہت خوش ہوں گے۔

Check Also

Baray Maidan Ka Khilari

By Muhammad Saqib