Salahuddin Chacha (1)
صلاح الدین چچا (1)
انسان کو اللہ نے دھنک فطرت بنایا ہے۔ ہر انسان کی بہت ساری جہتیں اور پرتیں ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا احسانِ عظیم ہے کہ اس نے انسان کو رشتوں کے ساتھ دنیا میں بھیجا۔ میرے بھی بہت سارے پیارے و نیارے رشتے ہیں، سب ہی دل کے قریب مگر کچھ ایسے بھی جن کے بغیر ذائقے پھیکے اور دنیا بے رنگ۔
جن سے مل کے زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں، مگر ایسے بھی ہیں
صلاح الدین چچا بالکل اس شعر کی تفسیر۔
صلاح الدین چچا اپنے نو بھائی، بہنوں میں عین درمیان میں، یعنی پانچویں نمبر پرہیں، اور یہی توازن اور تحمل ان کی طبیعت کا خاصہ اور زندگی کا برتاؤ بھی۔ دبلے پتلے، خوب صورت آنکھوں اور دلکش سراپے کے ساتھ ساتھ انتہائی وضع دار۔ ان سے منسلک میری اولین یاد، مڈفورڈ ہسپتال کی ہے جب کسی حادثے کے باعث ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی اور ہم پاپا کے ساتھ ان کی عیادت کو ہسپتال پہنچے تھے۔ چھت کی کڑی میں بندھی ان کی ٹانگ اور اس کے ساتھ لٹکتا وزن دیکھ کر میرے اوسان ہی خطا ہو گئے اور اس یاد کی دہشت عرصے تک ذہن پرطاری رہی۔
میری عزیز ترین یاد ان کے گلے کا سُر ہے۔ کیا لاجواب آواز تھی؟ صلاح الدین چچا سہگل کو بہترین طریقے سے گاتے تھے۔ ویسے تو میرے ددھیال میں سب ہی بہت سریلے ہیں مگر ان کی گائیکی کا انداز ہی جدا تھا۔ ڈھاکہ میں پابندی سے ہونے والی ہفتہ وار دعوت میں عموماً صلاح الدین چچا اور کبھی کبھار پاپا بھی سُر بکھیرا کرتے تھے۔ ڈھاکہ میں صلاح الدین چچا کے گھر ایک گٹار بھی ہوا کرتا تھا جس پر ہمیشہ میری رال ٹپکتی تھی پر جسے چھونے پر بندش عائد تھی۔ ہم نے ایک آدھ بار ہی انہیں اسے بجاتے دیکھا تھا۔
میری بہت خوبصورت یاد کریم آباد کے گھر کا آباد آنگن تھا، جہاں سُر سنگیت کی خوب محفل جما کرتی تھی۔ کیسا یاد گار اور چہچہاتا وقت تھا وہ بھی۔ جب ہم لوگ مشرقی پاکستان سے لٹ لٹا کر مغربی پاکستان پہنچے تو صلاح الدین چچا اپنی فیملی کے ساتھ کراچی آ چکے تھے اور واٹر پمپ میں کرائے کے گھر میں رہتے تھے۔ وہ دوبارہ اپنا بینک جوائن کر چکے تھے مگر ان دنوں ان کی خواری بہت تھی کہ انہیں کوئی مستقل برانچ نہیں ملی تھی بلکہ ایک ہفتے ٹاور تو دو ہفتے تین ہٹی یا گڈاپ دوڑایا جاتا تھا۔ صلاح الدین چچا، بس سے لٹک کر شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے جایا کرتے تھے کہ اب ڈھاکہ کے ٹھاٹھ قصہ پارینہ تھے، مگر اس کسمپرسی میں بھی کبھی ان کے منہ سے شکایت نہیں سنی۔
ہم لوگ کراچی میں survival modeمیں زندگی کو منانے کی کوششوں میں ہلکان تھے اور اسکریچ سے زندگی شروع کر رہے تھے کہ ایک دن صلاح الدین چچا، بیٹری سے چلنے والا تین بینڈ کا ٹرانسسٹر اور ایک الارم کلاک لے کر ہنستے مسکراتے گھر میں داخل ہوئے اور بنا شوال کے میری عید کروا دی۔ اس وقت ان کے اس تحفے نے جو خوشی دی تھی وہ تو شاید اب نئی نکور گاڑی بھی نہ دے سکے۔ ان کی شخصیت بڑی ہی دیالو اور مہربان تھی، مل بانٹ کر کھانے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے والی۔
مغربی پاکستان آ کر انہوں نے جان توڑ محنت کی اور پھر ماشاءاللہ، اللہ تعالیٰ انہیں نوازتا ہی چلا گیا۔ وہ کم عمری سے ہی سیلف میڈ تھے۔ آٹھویں کے بعد پڑھائی کے ساتھ ساتھ ہی راشن ڈپو پر راشن کارڈ لکھنے کا کام شروع کردیا تھا۔ بی کام انہوں نے نوکری کے ساتھ ساتھ کیا۔ کراچی میں انہوں نے جب گاڑی خریدی تو ہم سب ان کی گاڑی کے پہلے سوار تھے اور یہ قافلہ گاڑی میں لد لدا کر کلفٹن پہنچا اور یوں ہم نے زندگی میں پہلی بار کلفٹن کا دیدار کیا۔ اللہ جانے ہم سب اس چھوٹی سی گاڑی میں کیسے فٹ ہوتے تھے؟ مگر ہوتے تھے اور رچ گچ کر ہوتے تھے۔ ایک بڑے مزے کا قصہ ہے۔
پاپا اور صلاح الدین چچا، دونوں ایک ساتھ ہر پندھوارے سبزی منڈی جایا کرتے تھے۔ اس وقت سبزی منڈی شہر ہی میں تھی۔ ہمیں بڑا شوق تھا منڈی دیکھنے کا۔ ہر دفعہ ہم بھی ساتھ چلنے کی ضد کرتے اور پاپا سے حسب سابق ڈانٹ بھی سنتے۔ ایک دفعہ میری ضد سے تنگ آ کر انہوں کہا چلو آج تم ساتھ چلو اور اپنا یہ ارمان بھی پورا کر لو۔ میری خوشی کا تو ٹھکانہ ہی نہیں تھا، مگر جناب بس اب آگے کیا لکھیں کہ اس ایک پھیرے نے میرے چودہ طبق روشن کر دیے اور پھر ہم نے زندگی میں کبھی سبزی منڈی کا نام نہیں لیا۔ صلاح الدین چچا نے بنا ڈانٹے، عملی طور پر سکھا دیا تھا کہ بڑوں کی ماننے ہی میں عافیت ہے، مگر پھر چچا نے سبزی منڈی کو میری چڑ ہی بنا دیا۔
ان کی حس مزاح بہت اچھی تھی گو کہ تھوڑے سے sarcasticبھی تھے۔ شاعری اور مزاح کے دل دادہ، مشاعروں میں دل جمعی سے شرکت کرتے اور کرنٹ افیئرز کے شیدا۔ وہ بہت زندہ دل اور زندگی سے بھرپور تھے۔ مچھلی کے شکار کے شوقین، مہینے میں ایک اتوار شنار گاؤں کا چکر یقینی ہوتا اور وہاں علی کے ساتھ مل کر مچھلی کا شکار لازمی کرتے، وہیں مچھلی پکڑی جاتی اور تلی، بھونی بھی جاتی۔ قدرت اور قدرتی نظاروں سے انہیں خصوصی لگاؤ بھی تھا۔ صلاح الدین چچا نے ہم لوگوں کو بہت گھمایا پھرایا اور کراچی کی خوب سیر کروائی، ان کے ساتھ ہاکس بے، کلفٹن، گھارو، کہاں کہاں تفریح نہیں کی؟
بلکہ میری زندگی کا بہت سارا پہلا تجربہ صلاح الدین چچا کے ہی مرہون منت تھا۔ ان کا گھر ہم تینوں بہنوں کا پسندیدہ ترین گھر تھا۔ ہم لوگوں کے گھر ٹی وی نہیں تھا تو صلاح الدین چچا خود آ کر اپنی گاڑی میں ہم لوگوں کو اپنے گھر لے جاتے اور وہاں ہم لوگ ہاکی کا میچ دیکھتے۔ اپنے گھر ٹی وی آنے کے باوجود ہاکی کا میچ صلاح الدین چچا کے گھر دیکھنا بہت بڑی تفریح تھی کیونکہ گول ہونے کی صورت میں سب سے زیادہ شور وہی مچاتے تھے اور ان کا ڈراینگ روم، ڈرائنگ روم نہیں بلکہ اسٹیڈیم لگتا تھا۔
ان کی شخصیت کے تین پہلو نمایاں ترین تھے۔ جان توڑ محنت، حس مزاح اور صلہ رحمی۔ ان کے دل اور گھر کا دروازہ سب کے لیے یکساں کھلا تھا۔ امیر، غریب، اپنا، پرایا کسی کی کوئی تفریق نہیں تھی، سب کے لیے دیدہ و دل کشادہ۔ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت نوازا تو انہوں نے دیواریں بلند نہیں کیں بلکہ دستر خوان وسیع کر دیا۔ 2012 میں یسرا کی شادی ہم نے صلاح الدین چچا کے گھر ہی سے کی تھی اور بالکل اسی مان اور استحقاق کے ساتھ، جیسے اگر پاپا حیات ہوتے تو ان کے گھر سے کی ہوتی۔ وہ بڑا یاد گار وقت تھا اور صلاح الدین چچا ہر موقعے پر دل کی خوشی کے ساتھ پیش پیش رہے تھے۔