Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Sada Ba Sehra (2)

Sada Ba Sehra (2)

صدا بہ صحرا(2)

میں نے بڑی چوکنی اور محتاط جوانی گزاری تھی میرے صبر کی ردا میں ایک بھی پیوند نہیں تھاپھر اب کیا ہوا؟ اس عمر میں کہاں اور کیسے لڑکھڑائی؟ میں نے یہ کیسے فراموش کر دیا تھا کہ نفس کا اژدھا کبھی بھی انگڑائی لیکر بیدار ہو سکتا ہے، ڈس سکتا ہےمیں اپنے اندر اگتے سبزے سے کیسے بےخبر رہی؟ پھر میں نے شعوری کوشش سے دبیر سے چیٹ میں کمی کی اور ان کو اپنے بیٹے کی اسلام آباد کی پوسٹنگ کا نہیں بتایا۔ اسلام آباد کراچی والوں کے ویسا ہی سحر افریں ہے جیسے تھر والوں کے لیے نخلستان یہاں اس قدر ہریالی اور شگفتگی ہے کہ بیان سے باہر تراوٹ اور سبزے نے روح کو شاداب کر دیا تھا۔

قدرت بےطرح فیاض تھی اسلام آباد پرگو موسم، رویہ، لوگ اور طور طریقے سب کچھ کراچی سےبہت مختلف تھا پر میرے لیے زیادہ فرق یوں نہ ہوا کہ میرا باہر کی دنیا سے واسطہ برائے نام ہی تھا۔ میں تو موسم اور پہاڑوں کے حسن کی اسیر تھی۔ ان دنوں کچھ دل بھی خوش گمان تھا اور زندگی تتلی کے پروں کی طرح ملائم اور رنگین محسوس ہوتی تھی اندر کی بھید بھری دنیا بھی اپنے کشف دھیرے دھیرے منکشف کرتی ہے اور انسان تحیر ذدہ اور مسحور رہ جاتا ہے۔ ڈی۔ ایچ۔ اے میں واقع یہ بڑی دیدہ زیب اور آرام دہ کوٹھی تھی۔ یہ جبران کے دوست کے ماموں برگیڈیر ولید کی تھی اور وہ دو تین سالوں کے لیے اپنی بیٹی کے پاس آسٹریا جا رہے تھے اس لے بہت ہی معمولی کرائے پر جبران کو یہ کوٹھی مل گئی۔

برگیڈیر صاحب کو دراصل اپنی کوٹھی کے لیے کوئی بھروسے کا بندہ چاہیے تھا۔ انہیں جبران کی صورت بھروسے کا بندہ مل گیا اور ہم لوگوں کو نہایت مناسب کرائے پر شاندار کوٹھی میرے کمرے سے متصل شترنجی ٹائیلوں سے آراستہ مستطیل برآمدا تھا اور برآمدے سے دو سیڑھیاں اتر کر ہریالی کا ایک خوشنما قطعہ جہاں ایک اکیلا املتاس کا درخت اور وہ درخت اپنے حسن اور اکلوتے پن کے سبب مجھے بہت Fascinate کرتا تھا۔ اب میرا زیادہ تر وقت اس پچھلے برآمدے میں روکنگ چیر پر کتابیں پڑھتے گزرتا۔ اسلام آباد میں ان دونوں بہار اپنے جوبن پر تھی فضا خوشبو سے بوجھل تھی اور باغ کا وہ قطعہ مسحور کن تھا۔

ایک شام جبران کے کولیگ نے کھانے پر بلایا تھا اور جبران کا فون چارج نہیں تھا اس نے GPSکے لیے میرا فون مانگا اور اس طرح دبیر کے علم میں یہ بات آئی کہ میں اسلام آباد میں ہوں کہ میں ہمیشہ اپنی لوکیشن آف رکھتی تھی۔ ان کے پوچھنے پر جب میں نے جبران کے تبادلےکا بتایا تو انہوں نے بہت خوشی اور حیرانگی کا اظہار کیا وہ بھی ڈی۔ ایچ۔ اے ہی میں کہیں رہتے تھے۔ دو تین دن کے بعد دبیر نے ملنے کی خواہش کا اظہارِ کیا اور کہا کہ انہیں کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں جو بالمشافہ ہی ممکن ہیں۔ ان کے اصرار پر میں انکار نہ کر سکی کہ میرے دل کی بھی یہی آرزو تھی اور ملنے کی ہامی بھر لی۔

انہوں نے میری سہولت کو مد نظر رکھتے ہوئے مجھے Cafe Burning Brownieمیں مدعو کیا جو میرے گھر سے قریب ہی تھا اور میں وہاں جبران کے ساتھ جا چکی تھی۔ بدھ کے دن گیارہ بجے میں کیفے پہنچی۔ مجھ پر ایک گھبراہٹ اور ہیجانی کیفیت طاری تھی میں بظاہر خود کو کمپوز رکھنے کی پوری کوشش کر رہی تھی حالانکہ میرے دل کی دھمک میرے کانوں میں گونج رہی تھی کیفے پہنچے مجھے آدھ گھنٹے سے اوپر ہو چکا تھا اور دبیر کا کہیں پتا نشان نہ تھادو دفعہ اپنے پرس پر گرفت مضبوط کرتے ہوئے میں وآپسی کے ارادے سے اٹھی اور دونوں بار ہی میرا دل اس فیصلے کےآڑے آیا آخر سوا بارہ بجے میں کیفے سے باہر آ گئی۔

پارکنگ میں دس منٹ مزید انتظار کیامیرا خجالت اور وسوسے سے برا حال تھا دبیر اس قدر معقول آدمی تھے کہ ان سے وعدہ خلافی کی توقع نہیں تھی۔ گھر وآپسی پر ہمت کر کے ان کو میسج کیا مگر جواب ندارد آج اپنے جزبات پر میں خود حیران ہوں میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میں ندرت کے علاوہ کسی کو چاہ سکتا ہوں۔ اس کی موت نے مجھ سے جینے کی امنگ چھین لی تھی۔ وہ تو بھلا ہو بیٹی رحمہ کا جس نے مجھ اپنے میں الجھا کر پھر زندگی کی طرف کھینچ لیا۔ رحمہ کی شادی کے بعد میں بہت تنہا ہو گیا تھا اور دوسراہٹ کے لیے انٹرنیٹ کا سہارا لیا اور لکھنا لکھانا شروع کر دیا۔ نیٹ پر جہاں کافی لوگوں سے جان پہچان بڑھی وہیں مسرت عثمانی سے بھی تعارف ہوا۔

آرٹیکل اور مضامین پر ہوتے تبصروں سے بات چیت کا آغاز ہوا اور جانے کیسے ان سے ایک قربت اور اپنائیت کا رشتہ بنتا چلا گیا۔ جس دن ان سے بات نہ ہوتی طبیعت میں ایک بےکیفی اور اضمحلال رہتامجھے اب تنہائی کھلنے لگی تھی اور میں نے مسرت سے بات کرنے کی ٹھانی یہ بھی اچھا تھا کہ وہ بیٹے کی فیملی کے ساتھ اسلام آباد منتقل ہو گئی تھیں مجھے زرا بھی اندازہ نہیں ہے کہ وہ کیا جواب دینگی مگر میں قسمت آزمانا چاہتاہوں۔ بدھ کو ان سےcafe burning brownieمیں گیارہ بجے ملاقات طے ہوئی ہے اور میں کسی ٹین ایج لڑکے کی طرح نروس ہوں اور حدت جزبات سے تپ رہا ہوں۔

یہ رات کسی طور کٹے تو صبح ہوصبح ہو تو دید ہوصبح ناشتے سے فارغ ہو کر عرصے بعد میں بہت اہتمام اور لگن سے تیار ہوا گل دستہ اور کتاب میں رات ہی لے آیا تھارات مضطرب ہی گزری تھی کسی پہلو قرار نہ تھا۔ مسرت کے جواب کے وسوسے نے بےدم کیا ہوا تھا اور میں امید و بیم کے مابین معلق تھا۔ مجھے ان کے ردعمل کا بھی خوف تھا ابھی میرا ہاتھ گاڑی کے دروازے کو ان لاک ہی کر رہا تھا کہ مجھے لگا کہ میری آنکھوں کے آگے پھلجھڑیاں جل رہی ہیں، انار پھوٹ رہے ہیں میں زمین پرگرتا چلا گیا اور میرا ذہن مکمل تاریکی میں ڈوب چکا تھا۔ جب میری آنکھیں کھلی تو اجنبی ماحول تھا اور میں کسی کو بھی پہچانے سے قاصر تھا حد کے اپنا جسم ہلانے پر بھی قدرت نہیں رکھتا تھا۔ پھر میری حسیات نے رحمہ کے لمس کو شناخت کر لیا۔

یہ میرے سامنے رحمہ کھڑی تھی میں حال میں لوٹ آیا میں خفیف حرکت سے بھی معذور تھا اور پوری قوت صرف کرنے کے باوجود بھی بولنے سے قاصررحمہ نے مجھے بتایا کہ میرا بلڈ پریشر خطرناک حد تک بڑھ گیا تھا اور مجھے میرے پڑوسی محمود قریشی بےہوشی کے عالم میں ہسپتال لائے اور محمود ہی نے حماد کو اطلاع دی رحمہ نے مجھے یہ خبر بد بھی دی کہ مجھے پر فالج کا حملہ ہوا ہے اور آج مجھے اسپتال میں نواں دن ہےیہ انکشاف جان لیوا تھامیرا اپنا آپ میرے پنجر میں یوں پھڑپھڑا رہا تھا جیسے اندھی ابابیل کنوئیں کی دیواروں سے سر پھوڑتی پھرےمیں ایک ٹک رحمہ کو اور اس کے بہتے آنسوؤں کو دیکھتا رہا۔

شاید میری بھی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے کہ رحمہ کبھی ٹیشو اور کبھی اپنے ڈوپٹے سے مسلسل میرا چہرہ پونچھ رہی تھی اور میرے پائنتی پہ کھڑے حماد کا چہرہ شدت ضبط سے سیاہ ہو رہاتھا۔ میں صرف ایک بات سوچ رہا تھا کہ فالج بجائے جسم کے ذہن پر گرتا تو کتنا اچھا ہوتا میں کم از کم بےبسی اور معذوری کہ اس سفاک اور جان لیوا احساس سے تو عاری ہوتا آگے کی بےکس و بےبس زندگی کا تصور ہی سوہان روح تھا۔ جانے کیوں میرے ذہن میں مستقل نو دن کا فقرہ گردش کر رہا تھا پھر ایک نام جھماکے کی طرح روشن ہوا "مسرت"اور میرا دل درد سے بھر گیابہت سارے سوال ذہن کے پردے سے ٹکرا کر آنکھوں تک آتے ہیں مگر رحمہ اور حماد ان سوالات کو بوجھنے سے قاصر تھے۔

درد بھی شاید گونگا ہوتا ہےزبان میری بند ہے، بس آنکھوں سے رواں سیل اشک ہے جو بے پناہ ہےانسان کس قدر بےبس ہے ایک بے فیضا خاکی پتلاآج پندرہ دن ہو گئے ہیں دبیر الحسن کا کوئی میسج نہیں، کوئی پتہ نشان نہیں ان کا فون بھی بند جا رہا ہے دل یہ ماننے کو تیار نہیں کہ میرے ساتھ بھیانک مزاق ہوا ہےدل ابھی بھی ان ہی کا ہمنوا ہے مگر آج میں نے فون کی سم ڈسٹ بن میں پھینک دی ہے۔ اب میں نے ورچوئل دنیا سے مکمل طور پر ناطہ توڑ لیا ہے میرے دل میں تنہائی کا ڈیرا ہے اور املتاس کے زرد پھول جو کچھ دن پہلے تک خوشی کے پیغام بر لگتے تھے اور اب کسی حسین دوشیزہ کے زرد گالوں پر ڈھلکتے آنسو سے مشابہ ہیں دل کی دنیا کیا اجڑی کہ آنکھوں کی جوت ہی بجھ گئی اور دنیا بےرنگ ہو گئی۔

Check Also

Final Call

By Umar Khan Jozvi