Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Phir Se (1)

Phir Se (1)

پھر سے (1)

آج میں نے صبح تڑکے بچوں کو اسکول روانہ کرتے ہی دن کے کھانے کی تیاری شروع کر دی کہ مصمم ارادہ یہی تھا کہ دنوں سے ٹلتے افسانے کو پایہ تکمیل تک پہنچاؤں۔ آج آسانی یوں بھی تھی کہ بختیار کا آفیشل ڈنر ہے، سو میٹھا پکانے کی چھٹی۔ کھانے کے ہم دونوں میاں بیوی شوقین اور بلا کے چٹورے بھی۔ میرے حالات تو خیر اور بھی مخدوش کہ تلی اور بیکری کی اشیاء از حد مرغوب، نتیجتاً گوشت کی تہوں میں ناک نقشے سب روپوش۔

شادی کی دسویں سالگرہ پر جب ہم دونوں پہ کوئی لباس نہ جچا اور میڈیکل رپورٹ بھی زور شور سے خطرے کی گھنٹی بجانے لگی تو ہوش کے ناخن لیے اور سنجیدگی سے وزن کم کرنے کے متعلق سوچا۔ بختیار کہ صاحب اختیار ٹھہرے سو فٹ سے جم جوائن کر لی۔ میرے لیے یہ امر قدرے مشکل کہ میں بیک وقت کئی رول نبھا رہی تھی اور میرا سب سے زیادہ وقت تو ڈرائیوری لے رہی تھی۔

دونوں بچوں کا اسکول سے پک اینڈ ڈراپ اور پھر ہفتے میں دو دن تیراکی کلاس، ایک دن جوڈو اور ایک دن انسٹرومینٹل کلاس تو گویا مجھ سے سڑکیں ہی نپوایا کرتے تھے۔ میری بچوں کے معاملے میں حد سے بڑھی ہوئی احتیاط مجھے کسی پر بھروسہ نہیں کرنے دیتی اور وجہ میرے اپنے بچپنے کے کچھ تلخ تجربات تھے۔ بچپن کی وہ خوفناک یادیں اب بھی کبھی کبھار میری نیندیں اڑانے کا باعث بنتی ہیں۔ اسی لیے میرے گھر کوئی کل وقتی ملازم نہیں۔

اس حفاظتی پیش بندی کے چکر میں، اپنے آپ پر میں نے اپنی استطاعت سے کہیں زیادہ بوجھ لاد لیا ہے اور مجھے کھل کے سانس بھی میسر نہیں۔ لو بات کدھر سے کدھر چلی گئی۔ میں اپنے دبلے اور اسمارٹ ہونے کا احوال بتا رہی تھی۔ یہ تو طے ہے کہ ڈائٹنگ میرے بس کا روگ نہیں سو میں نے آسان ترین حل نکالا یعنی واک، کھانے میں پورشن کنٹرول اور ایک گلاس پانی میں آدھ چائے کا چمچہ چیا سیڈ رات کو بھگو کر صبح نہار منہ پی لینا۔

اس کار دشوار کی شرط اولین ہے مستقل مزاجی اور اسی مستقل مزاجی کے سبب اپنی شادی کی بارویں سالگرہ پر میں اپنے ولیمے کے جوڑے میں دوبارہ با آسانی سما گئی۔ یہ بہت بڑی کامیابی تھی اور حقیقت تو یہ ہے کہ اس معاملے میں بختیار باوجود جم کے، کہیں پیچھے رہ گئے تھے۔ میں اپنے آپ کو دوبارہ کھونا نہیں چاہتی تھی، لہٰذا بہت محتاط رہتی، کھاتی سب کچھ مگر بھوک رہتے ہوئے ہاتھ کھینچ لینا میرا اصول ہے۔

زندگی بگولے کی طرح سب اڑائے لیے جا رہی تھی اور میں گن چکر بنی وقت کے تعاقب میں ہانپ رہی ہوں۔ طالب علمی کے دوران جم کے اردو ادب پڑھا اور دبا کے لکھا۔ شادی، گھر اور بچے مجھے میرے جنون سے بھی پرے کر گئے۔ شروع کے چھ سال تو بختیار کے ساتھ کی مدہوشی اور پھر دونوں بچوں کی دیکھ رکھ نے دیوانہ بنائے رکھا۔ بچوں کے بعد تو میرے پاس بختیار کے لیے بھی وقت نہیں تھا۔

دونوں بھائی بہن جڑواں اور پیدائش بھی سی سیکشن سے، مجھے تو صحیح معنوں میں دن میں تارے نظر آنے لگے تھے۔ ماں باپ سے بغاوت کرکے شادی کی تھی سو میکے اور سسرال سے سفارتی تعلقات بھی ٹھنڈے ٹھنڈے سے۔ وہ بڑے مشکل دن تھے، بختیار کی نوکری کے اوقات بھی سخت اور مالی آسودگی بھی نہیں۔ بختیار نے بڑا ساتھ نبھایا، دن میں دفتر اور رات رات بھر کبھی بیٹے تو کبھی بیٹی کو گود میں لیے رہتے کہ میرے ٹانکوں میں پس پڑ گئے تھے، خیر وہ کٹھن وقت بھی گزر گیا۔

ہماری پہلی ملاقات کا قصہ بڑا دلچسپ ہے۔ میں تازہ تازہ شعبہ صحافت کی پوسٹ گریجویٹ تھی اور نئی نکور نوکری کا پہلا اسائمنٹ ملا۔ مجھے جانے مانے مصنف کی کتاب کی تقریب رونمائی میں شرکت کرنی تھی اور تقریب کے احوال کے ساتھ ساتھ مصنف، جن کی یہ تیسری کتاب تھی، ان کا غیر روایتی سا انٹرویو بھی کرنا تھا۔ میں کافی پر اعتماد ہوں شاید کوئی کوئی دن منفی توانائی کے زیر اثر ہو جاتا ہے۔

اس دن بھی کراچی میں کن من برستی بارش تھی لہٰذا سڑکوں کا پوچھنا ہی کیا؟ طرفہ مصیبت کہ گاڑی کے کاربوریٹر میں پانی چلا گیا اور گاڑی صاحبہ روٹھی ہوئی محبوبہ کی طرح منہ بسور کر عین ایم اے جناح روڈ کے وسط میں کھڑی ہوگئیں۔ اطراف میں، گاڑیوں کے ہارن کا پی پاں کا بے سرا شور اور گاڑی کا بونٹ کھولے گھٹنے تک پانی میں شرابور ہونق لڑکی یقیناً تفریح طبع کا باعث تھی۔

خیر اسی افراتفری میں ایک ڈیشنگ نائیٹ Knight گھوڑے پر تو نہیں البتہ اپنی پھٹپھٹی ہنڈا 50 پر جلوہ افروز ہوئے اور لوگوں کے ساتھ مل ملا کر میرے سفید ہاتھی کو دھکا لگا کر سڑک کے کنارے لگایا اور کمال شیولری سے میرے لیے ٹیکسی بھی روک دی۔ میں لشٹم پشٹم تقریب میں قدرے تاخیر ہی سے سہی پر پہنچ گئی۔ بارش کی وجہ سے تقریب میں زیادہ لوگ نہیں تھے۔

مصنف موصوف کی شان میں تقاریر ہوتی رہی اور وہ ہیلیئم بھرے غبارے کی طرح اوپر اور اوپر مائل پرواز رہے۔ میں نے انٹرویو کی کوشش تو کی مگر مصنف صاحب کے چہرے پر پھیلی رعونت میرے ارادے کے آڑے آتی رہی۔ بوریت کو کم کرنے کے لیے میں نے چائے کی کپ اٹھائی اور ساتھ ہی کپ اٹھاتا ہوا جو دوسرا ہاتھ نظر آیا اسے دیکھ کر ایک انجانی سی خوشی محسوس ہوئی اور بے اختیار میرے منہ سے نکلا آپ؟

جواب میں اس نائیٹ نے ہنستے ہوئے کہا۔ "ارے آپ یہاں بھی؟"

اور ہم دونوں ایک ساتھ ہنس پڑے اور ساتھ ہی ابر بھی کھلا اور شفاف بڑی کھڑکی سے قوسِ قزح نے مسکرا کر آنکھ جھپکی۔ چائے ٹھنڈی اور انتہائی بد مزہ تھی سو میں نے کپ آہستگی سے ٹیبل پر دھر دی اور وہ میرے چہرے کے بگڑے زاویے دیکھ کر بے ساختہ مسکرانے لگا۔ حال احوال ہوا تو میں نے بتایا کہ بس مصنف کا انٹرویو رہ گیا باقی تقریب کی تفصیل اور مہمانوں کے تاثرات میں رقم کر چکی ہوں۔ کہنے لگا پھر دیر کیسی چلیے۔

وہ مصنف سے بڑھ کر ملا اپنا تعارف اور کسی کا حوالہ دیا اور ساتھ ہی میرا تعارف بھی کروا دیا اور بات سے بات نکلتی چلی گئی اور یوں میرا شاندار سا غیر رسمی انٹرویو تیار ہوگیا۔ کیا جادوگر تھا وہ نائیٹ بھی۔ وآپسی میں ہم ساتھ ہی نکلے۔ مجھے پانچ منٹ رکنے کا کہ کر قریبی گلی میں کہیں تیزی سے چلتا ہوا غائب ہوگیا اور ترنت ہی گرما گرم بھاپ اڑاتی چائے لے کر بوتل کے جن کی طرح حاضر۔

اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی اس چائے کی خوشبو اور ذائقہ جوں کا توں میرے ذہن و دہن میں موجود ہے اور یقین کیجیے اس سے اچھی چائے میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں پی۔ شادی کے بعد میں نے کئی بار اسی ڈھابے سے چائے پی مگر اس پہلی چائے جیسا سواد پھر نہیں ملا۔ یہ یقیناً اس کی ہمراہی کا سحر اور میرے دل کی کارستانی کا اثر تھا۔

میں اتنا جلدی کسی سے متاثر نہیں ہوتی مگر اس کے ساتھ تو واقعی ایسا لگا کہ بیک گراؤنڈ میں موسیقی بج رہی ہے، ڈوپٹہ ہوا میں اڑتا جا رہا اور بال لہرانے لگے ہیں بلکہ میرا دل تو مور کی طرح ناچنے کا چاہ رہا تھا۔ اس نے مجھے ٹیکسی میں بٹھایا، ٹیکسی کا نمبر نوٹ کیا اور اپنا سیل نمبر دیا کہ بس گھر پہنچ کر "ریچ" کا میسج کر دیجیے گا۔ آہا اسمارٹ موو۔ میں دل ہی دل میں مسکرائی کہ چلو شکر آسانی سے نمبر مل گیا کہ مجھے اس سے نمبر مانگتے جھجک محسوس ہو رہی تھی پر دل کا اصرار بھی شدید تھا۔

میں اپنے جذبات سمجھنے سے بالکل قاصر تھی۔ نہ میں ٹین ایجر تھی اور نہ ہی کوئی شرم و حیا کی پتلی۔ میں نے مخلوط درس گاہوں میں تعلیم حاصل کی تھی اور میرے حلقے میں میرے لڑکے دوست بھی شامل تھے مگر تئیس سال، چار مہینے اور چھ دن میں دل پہلی بار ایسے مچلا تھا۔ دل کا جانا مجھے بہت بھایا اور ٹیکسی میں چلتا گانا

"آج کل پاؤں زمین پر نہیں پڑتے میرے"۔

لگا کہ میرا ہی ترجمان ہے، میں نے ٹیکسی ڈرائیور سے کہا، بھیا ذرا آواز تو اونچی کر دو اور جی چاہا کہ کھڑکی سے سر نکال کر مست بھیگی ہوا سے لطف اندوز ہوں مگر گھٹنے گھنٹے پانی میں ڈوبی سڑک پہ یہ رومانوی عیاشی ممکن نہیں تھی۔

بختیار سے میسیجز کے بعد ملاقاتوں کا سلسلہ دراز ہوا اور معاملہ کھٹاک سے شادی تک جا پہنچا۔ اپنے اور بختیار کے معاشی تفاوت کی وجہ سے راہ کی کٹھنائیوں کا اندازہ مجھے تھا مگر میں یہ بھی جانتی تھی کہ یہ ہٹیلا دل اب پیچھے ہٹنے والا نہیں۔ گھر میں شدید کشیدگی رہی کہ ممی فارن آفس میں تعینات اپنے بھتیجے کو چھوڑ کر ایک معمولی بینک آفیسر سے میری شادی کے حق میں نہیں تھیں اور بختیار کے گھر میں خاندان سے باہر شادی کا رواج نہیں تھا۔

Check Also

Riwayat Aur Ijtehad

By Muhammad Irfan Nadeem