Mere Teen Dilbar (2)
میرے تین دلبر(2)
وہ نینا کے بیٹے کے کندھے سے سیدھے چھلانگ لگا کر میرے دل میں براج گیا۔ وہ کہنے لگی تم کیوں نہیں لے لیتں، میں نے سنا ہے کہ تمہیں بلی بہت پسند ہے۔ ہم نے کہا ہاں تم نے بلکل ٹھیک سنا ہے۔ کہنے لگی بس تم اسے لے لو۔ الحمدللہ!! مرادیں یوں بھی پوری ہوتی ہیں؟ دل ہی دل میں اللہ تعالی کا ہزار ہزار شکر ادا کیا کہ وہ سوال سے پہلے عطا کرتا ہے۔ واقعی طالب کی طلب سے داتا سے زیادہ کون واقف ہو گا؟ ہونٹ بھی نہیں ہلے اور گوہر مراد جھولی میں۔
کیسا سخی داتا ہے میرا رب۔ نینا کا بہت شکریہ ادا کیا اور چھٹی کے بعد خوشی خوشی اس بلونگڑے کو کسی متاعِ جاں کی طرح سمیٹے گھر آئے۔ سب ہی بہت خوش ہوئے کہ اس کے روپ میں کراچی والی بلی نظر آئی، گویا ماضی کی ایک کڑی ہاتھ آ گئی۔ اس کا نام چینو رکھا گیا۔ رات گئے تک اس روز گھر میں قہقہے گونجتے رہے۔ سونے کے لیے جاتے وقت ایمن نے اس کو گود لے لیا اور کہا کہ یہ تو میرا ہے۔
لیجیے!لوگ آساں سمجھتے ہیں ماں ہونا!کیا کہ سکتے تھے سوائے اس کہضرور بیٹا!مگر ایک بات ہے، میرے گھر میں آنے کے بعد چینو میرے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں رہتا تھا۔ جب تک ہم گھر میں ہوتے میرا سایہ بنا رہتا۔ میابی اور چینو کی دوستی ہو گئ تھی۔ پرجیسے جیسے چینو بڑا ہوتا گیا، ان دونوں کی لڑائی بڑھتی گئ۔ پھر ہم لوگ رینچ لینڈ منتقل ہو گئے۔ اس گھر میں آ کر چینو کے برتاؤ میں تو کوئی خاص فرق نہیں آیا مگر میابی کی خوشی دیدنی تھی۔
اس کے رویے اور مزاج پر بہت مثبت اثر پڑا۔ میابی خاصہ سوشل ہو گیا تھا۔ چینو گھر کا کتا تھا، کہیں بھی کھٹر پٹر ہو یا دروازے پر بیل بجے، چینو سب سے پہلے پہنچتا۔ ہم جب تک عشاء کی نماز پڑھتے وہ جائےنماز کے کنارے بیٹھا رہتا اور میرے ساتھ اوپر سونے جاتا۔ ایمن بتاتی ہے کہ " پتہ ہے امی جب آپ سو جاتی ہیں تو میرے پاس آ کے بیٹھ جاتا ہے، اور فجر سے پہلے دوبارہ اپ کے کمرے میں آ جاتا ہے۔ " چینو کی اس معصوم چالاکی پر بہت ہنسی آئی، بچیاں چونکہ یونیورسٹی میں تھیں تو ایمن اور سعدیہ رات رات بھر جاگ کر پڑھتی رہتی تھیں۔
اچھے بھلے دن گزر رہے تھے کہ ایک دن کام سے وآپسی پر گھر میں ایک نئے مکین کا اضافہ دیکھا۔ جی ہاں آپ نے بالکل درست اندازہ لگایا، تیسرا بلا۔ یہ اورنج ٹیبی تھا۔ عمر بمشکل دو مہینے۔ اب جب آ ہی گیا تھا تو کیا کہتے؟ سچی بات تو یہ ہے کہ کس دل سے کہتے؟ کہ اس کی گولڈن آنکھوں اور بھولی صورت کا وار بہت کاری تھا۔ اس کا نام مینی رکھا گیا۔ چینو میاں جھٹ، مینی کے گوڈ فادر بن گئے۔ مینی بہت کھلنڈرا اور شوخ تھا۔ یہ سعدیہ کا بلا قرار پایا۔
گرمیوں میں شام میں چینو میرے ساتھ ٹہلتے۔ ایک دفعہ میابی، چینو اور مینی تینوں باہر تھے اور بیک یارڈ کا دروازہ بھی کھلا تھا۔ اتنے میں وہاں سے ایک آدمی اپنے دو کتوں کے ساتھ گزرنے لگا۔ میابی سب سے زیادہ اسمارٹ ہیں، انہوں نے متوقع خطرہ بھانپ لیا اور فوراً گھر کے اندر آ گئے۔ مینی سے چوک ہوگئی اور السیشین کتے نے بھاگتے ہوئے مینی کی ٹانگ اپنے منہ میں دبوچ لی۔ چینو نے آو دیکھا نہ تاؤ کتے کے منہ پر حملہ کر دیا۔
گھبرا کر کتے کے مالک نے چینو پہ لات جما دی۔ اس اثناء میں مینی اور پھر چینو بھی گھر کے اندر آ گئے۔ چینو کافی تکلیف میں تھا سو اس کو کلینک لے جایا گیا۔ ایکسرے سے پتہ چلا کہ جبڑا ہل گیا ہے۔ علاج مالجہ ہوا اور چینو صاحب صحتیاب ہو گئے۔ سب ملنے جلنے والوں میں چینو میاں کی بہادری کی دھاک بیٹھ گئ۔ یسرا کے سالانہ امتحانات چل رہے تھے اور اس کا پروجیکٹ تھا تو اس نے کہا امی ممکن ہے ہم دو تین دن گھر نہ آئیں۔
اب پروجیکٹ مکمل کر کے ہی گھر آئیں گے۔ ہم نے دوسرے دن پورے گروپ کے لے کھانا بنا کر یونیورسیٹی پہنچا دیا۔ شام میں یسرا کا فون آیا کہ پلیز اب کھانا مت لائیے گا، سب کا نیند سے برا حال ہے اور جاگنے کے لیے ہم سب کو بہت جنگ کرنی پڑ رہی ہے۔ ادھر گھر میں میابی کا یسرا کے بغیر برا حال، ہر جگہ اس کو ڈھونڈے اور پھر مین گیٹ پر اکر بیٹھ جائے اور میاوں میاوں شروع۔
نہ کچھ کھائے نہ پیئے، عجب صورت حال تھی۔ دوسری صبح یسرا کو فون کیا کہ خدارا تھوڑی دیر کے لیے آ جاؤ! میابی نے میاؤں میاؤں کر کر کے ہم سب کو پاگل بنا دیا ہے۔ خیر یسرا گھر آئیں میابی کوئی دس منٹ لگاتار بولتے رہے، یسرا بھی انہیں سہلاتی اور جواب دیتی رہیں۔ ان کو پیار کیا کھلایا پلایا اور خود ناشتہ کیا پھر دوبارہ یونیورسٹی گئی۔ چینو سمجھ دار ہونے کے ساتھ ساتھ غضب کا حسن پرست بھی تھا۔ جی حیران مت ہوں۔ بلکل سچ عرض کر رہے ہیں۔
ایک دفعہ نٹ کچھ مسئلہ کر رہا تھا، کمپنی کو شکایت درج کروائی اور انہوں نے کہا کہ ہم ابھی اپنا بندہ بھیجتے ہیں۔ اب خوبئ قسمت کہ وہ بندی نکلی اور وہ بھی ہوشربا۔ خدایا، خدایا اسے دیکھ کر تو ہم خود دم بخود تھے۔ کیا اس قدر حسین ہونا بھی ممکن ہے؟ ؟ وہ قدرت کی صنائی کا شاہکار تھی۔ چینو تو اس پر دل وجان سے فدا(بخدا اس کے علاوہ اور کوئی آپشن بچتا بھی نہیں تھا)۔ اس کی گود سے اترنے پر راضی ہی نہیں۔ ہم نے اس سے پوچھا کہ تم یہاں کہاں جھک مار رہی ہو؟
تم تو ٹاپ ماڈل یا ایکٹرس بن سکتی ہو؟ کہنے لگی نہیں میڈیا کی دنیا بہت گندی ہے، میں کم از کم یہاں محفوظ تو ہوں۔ ایک گوری کے منہ سے اس جواب نے ہمیں حیران دیا۔ اسی طرح ایمن کی دوست پرب اور یسرا کی دوست عشا بہت خوبصورت تھیں اور انکی آمد پر چینو کی خوشی دیدنی ہوتی۔ ہم چینو کی حسن کی پرکھ پر حیران تھے۔ چینو میاں بہت سوشل تھے اور مہمانوں کو entertain کرنے میں ماہر، پر حسینوں کے پرٹوکول کا لیول ہی الگ تھا۔
اب رہ گئے مینی تو وہ حسن (میرے نواسے) پر ہزار جان سے فدا ہیں۔ سونا ہے تو حسن کے ساتھ، کھیلنا ہے تو حسن کے ساتھ۔ ایک دن حسن سو رہے تھے اور یسرا ان کے ناخن کاٹ رہی تھی۔ مینی کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کیسے یسرا سے نیل کٹر چھین لے۔ مستقل یسرا کے ہاتھ پر ہاتھ مارتا رہا کہ یہ مت کرو۔ مینی باہر پھرنے کا بہت شوقین ہے، شاید کسی سیاح کی روح ہے اس میں۔ سردیاں اس کو اسی لئے بری لگتی ہیں کہ وہ باہر نہیں جاسکتا اور اس بات پر بھنوٹ ہو کر میابی سے لڑائی کرتا ہے۔
میابی اب سترہ سال کے ہیں، اس لیے ان کو سنیر سیٹزن کا درجہ حاصل ہے۔ چینو کا 16 دسمبر 2018 میں انتقال ہو گیا۔ مینی بارہ سال کے ہیں، مگر یہ ابھی تک ننھے بالک ہی ہیں۔ جب کبھی حسن سے لڑائی ہوتی ہے تو حسن کو ایک ادھ تھپڑ لگانے سے بھی باز نہیں آتے۔ ان تینوں بلوں کے مزاج اور فطرت اس قدر مختلف اور دلچسپ کہ حد نہیں۔ تو یہ ہیں میرے تین دلبر۔