Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Shaheen Kamal/
  4. Mera Yousuf

Mera Yousuf

میرا یوسف

مما مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے، مجھے گرلڈ ٹماٹر کھانا ہے!

میں لرز کر رہ گئی کہ گھر میں اب پھاکنے کو دھول بھی نہ بچی تھی۔ اچھا میرے لال میں کچھ کرتی ہوں۔

یوسف، میرا سات سالہ بیٹا، میرا لاڈلا۔ وہ میری نیم شبی کی مقبول دعا، جیسے میں نے شادی کے آٹھ سال بعد بڑی منتوں مرادوں سے پایا تھا۔ میرے بھورے گھنگھریالے بالوں والا یوسف واقعی یوسفِ ثانی۔ میرا تو دل ہی نہیں چاہتا تھا کہ اسے ایک پل کے لیے بھی اپنی آنکھوں سے اوجھل ہونے دوں مگر دل پر پتھر رکھ کر اسکول بھیجنا ہی پڑا۔ اس کی جدائی کے آٹھ گھنٹے میرے لیے اٹھ صدی ہوتے۔ میں گیلری میں کھڑی اس کی راہ تکتی اور جیسے ہی اسکول بس پھاٹک پر رکتی میں لپک کر دروازہ کھولتی اور اپنی بانہوں میں اپنی زندگی کو سمیٹ لیتی۔ گرل ٹماٹر، یوسف کے پسندیدہ سبزی اور وہ ہر روز، دن کے کھانے میں لازمی کھایا کرتا۔

آہ! دس دنوں سے چلتی یہ جنگ۔ اب میرے گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا اور ابو یوسف دس دنوں سے گھر لوٹے ہی نہ تھے۔ وہ ہسپتال میں زخمیوں کی جان بچانے کی جتن میں مصروف۔ سرجن جو تھے سو بنا رات دن کی تخصیص، لگاتار آپریشن تھیٹر میں مصروف کار۔ یہ ایک ابو یوسف ہی کی نہیں بلکہ غزہ کی جنوبی پٹی میں موجود ہر ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی ان تھک شب و روز کی مصروفیت تھی۔

میں نے یوسف کو سختی سے تاکید کی، یوسف! غور سے سنو دروازہ بالکل مت کھولنا، میں ابھی ٹماٹر لے کر آتی ہوں۔ میں نے پڑوس میں اُمِ محمود کے دروازے پر دستک دی مگر مسلسل دستک کے جواب میں بھی اندر خاموشی ہی طاری رہی۔ لگتا ہے یہ لوگ بھی شمالی غزہ جا چکے ہیں۔ میری بلڈنگ کے بیشتر مکین ہجرت کر چکے تھے۔ اب میں کیا کروں؟ میں نے پلٹ کر اپنے بند دروازے کو دیکھا۔ بند دروازے کے پیچھے خوف زدہ یوسف کی بھوک نے مجھے گلی کے آخری سرے پر واقع امِ مقداد کی دہلیز تک پہنچا دیا۔

سب خیریت امِ یوسف؟

امِ مقداد نے حیرانی سے پوچھا۔

ہاں الحمدللہ ابھی تک تو سب خیریت ہی ہے۔ اللہ ہم سب کو اپنی پناہ میں رکھے۔

میں نے سوکھے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے جواب دیا۔

امِ مقداد کیا تمہارے پاس ٹماٹر ہیں؟

میں نے لجاجت کے ساتھ بے قراری سے سوال کیا۔

اس نے حیرت سے مجھے دیکھا اور لمحے بھر کی ہچکچا کے بعد کہا، شاید، رکو میں دیکھتی ہوں۔

امِ مقداد نے میرے پھیلے ہاتھوں پر دو گلے ہوئے ٹماٹر رکھ دیئے۔ میں نمناک آنکھوں سے شکریہ کہہ کر تیزی سے پلٹی۔

اسی وقت ایک شدید دھماکے نے لمحے بھر کے لیے مجھے بہرا کر دیا۔ میں گرتی پڑتی گھر کی طرف دوڑی، مٹی اور گرد و غبار کا ایسا شدید طوفان کہ سانس لینا محال۔ آسمان تک اٹھتا کالا دھواں میری دنیا اندھیری کر رہا تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے میری اپارٹمنٹ کی عمارت اور اس سے متصل عمارت اب ملبے کا ڈھیر تھیں۔

میں یوسف یوسف پکارتی ہوئی بے قراری سے ادھر ادھر دوڑتی رہی۔ جانے کس بند دروازے کے پیچھے میرا سہما ہوا یوسف تھا مگر اب تو وہاں کسی دروازے کا وجود ہی نہ تھا؟

ملبے پر لوگوں کا، رضا کاروں کا ہجوم تھا۔ جانے کس نے مجھے ایمبولینس میں بیٹھا دیا کہ زخمی سارے ہسپتال روانہ کر دیئے گئے ہیں، یوسف وہیں ہوگا۔ میں ہسپتال میں ہر ہر جگہ یوسف کو کھوجتی پھری، دارالشفا کی دوسری منزل پر مجھے تھکے اور پژمردہ ابو یوسف مل گئے۔ انہیں دیکھ کر میں جیسے ڈھ گئی، میرے پیروں سے مانو جان ہی نکل گئی اور میں میرا یوسف، میرا یوسف پکارتی گرتی چلی گئی۔ ابو یوسف نے مجھے سہارا دیا۔ بلڈنگ کے مسمار ہونے کی خبر ان تک پہنچ چکی تھی۔ انہیں، ہمارا یوسف زخمیوں میں نہیں ملا تھا۔ ابو یوسف نے مجھ سے کہا کہ تم یہیں بیٹھو میں مردہ خانہ دیکھ کر آتا ہوں۔

نہیں، نہیں! خدارا نہیں!

یوسف وہاں نہیں ہوسکتا۔

وہ وہاں کیسے ہو سکتا ہے؟

اس کے لیے تو میں نے ہمیشہ عمرِ خضر مانگی ہے، وہ وہاں بالکل بھی نہیں ہو سکتا۔

ابو یوسف کا چہرہ ضبط سے سیاہ پڑ رہا تھا۔ جب میں نے انہیں لڑکھڑاتے ہوئے اُدھر جاتے دیکھا تو اپنی ٹوٹی ہمت کو مجتمع کرتے ہوئے میں بھی ان کے پیچھے ہو لی۔ میرے دروازے تک پہنچنے سے پہلے ہی ابو یوسف اندر داخل ہوچکے تھے۔ میں دروازے کا پٹ تھامے وہیں ساکت کھڑی تھی، شاید دعا مانگنا بھی بھول چکی تھی۔ میرے دل کا خالی پن اور سناٹا مجھے انہونی کی خبر دے رہا تھا۔ اندر سے میں نے ابو یوسف کی دل دوز "اللہ" سنی اور میرے بدترین خدشات پر مہر لگ گئی۔

میں اپنے لال کو، اپنے یوسف کو آخری بار نہلانا اور اس کے خون میں تربتر گھنگھریالے بالوں کو سنوارنا چاہتی تھی مگر غزہ میں تو اب پینے کو بھی پانی میسر نہیں۔ ابو یوسف نے مجھے میرے یوسف کا آخری دیدار بھی کرنے نہیں دیا۔ وہ بس مسلسل اپنا دل مسلتے رہے اور مجھ سے محض اتنا ہی کہا کہ "تم بس اسے ویسے ہی ہنستا مسکراتا ہوا یاد رکھو"۔

ہائے! میرا منت مرادوں سے مانگا گیا بدر کامل گہنا گیا۔ تم میرے لخت جگر، میرے یوسف! تم موت کے کنویں میں کھوئے ہو، میں وہاں سے تمہی واپس کیسے لاؤں؟

میں دیر تک کفنائے ہوئے یوسف کو گود میں لیے بیٹھی رہی مگر میری اجڑی گود اس کے سرد وجود کو گرمانے سے قاصر تھی۔ اچھا ہوا انہوں نے میرے یوسف کو اجتماعی قبر میں دفنایا ہے۔

بچہ ہے نا اکیلے قبر میں ڈر جاتا!

Check Also

Eid Gah

By Mubashir Aziz