Malal e Daroon (1)
ملال دروں (1)
آنکھیں کھلیں اور ہاتھ میکانیکی انداز میں بیڈ سائیڈ پر پڑے سیل فون کی طرف بڑھا۔ تازہ خبروں کی شہ سرخیاں پڑھتے ہی مجھے گویا چار سو چالیس وولٹ کا جھٹکا لگا۔ یہ متوقع تو تھا مگر پھر بھی مجھے یہ خبر لرزا گئی۔
ہائے کیا دنیا کو میری بد دعا لگ گئی!
میں عالمِ اضطراب میں کمرے کے طول کو ماپنے لگا اور میری کنپٹیوں میں درد کی شدید ٹیس اٹھنے لگی۔ ابھی راتیں ٹھنڈی مگر دن ریت میں بھنے مکئی کے دانوں کی طرح گرم اور سوندھے تھے۔ میں روزانہ کی طرح، صبح جاگ کر کچھ دیر بستر پر لیٹے لیٹے، بے مقصد چھت سے لٹکتے پنکھے کے پروں کو تکتا رہا پھر کسلمندی سے پیر گھسیٹا ہوا غسل خانے کا رخ کیا۔ جاتے وقت کو بمشکل پکڑ کر جلدی جلدی بے روح نماز ادا کی اور باورچی خانے کی راہ لی۔ میں اکثر دنیا و مافیہا سے بے خبر چائے کے ابلتے پانی کو اتنی دیر تک تکتا کہ پانی بخارات بن کر اڑ جاتا، جانے کیوں مجھے پانی کے بلبلوں میں بنتی مٹتی شکلیں نظر آیا کرتی ہیں۔
موڈ ہوتا تو رات کی بچی نان اور چائے حلق سے اتار لیتا ورنہ اکثر خالی پیٹ ہی دفتر کے لیے نکل پڑتا۔ میرے فلیٹ سے مرکزی شہر تک کا فاصلہ بائیک سے یہی کوئی پندرہ بیس منٹ کا ہے۔ راستے میں پل کے نیچے درجنوں نشئی نظر آتے ہیں، جنہیں دیکھ کر پہلے تو مجھے گھن آیا کرتی تھی پر اب ان پر رشک آتا ہے۔ وہ بن داس، اپنے اطراف سے بے خبر، اپنی دنیا میں مست و مگن کہ ان کی دنیا میں کوئی تغیر و ابتلا ہے ہی نہیں۔ میں اپنی ابتری و اضطراری کے باوجود دفتری کام پوری تندہی سے نپٹاتا ہوں، نو شورٹ کٹ، نو کٹ کارنرز۔ کبھی کبھی تو یہ دل اتنا الجھ جاتا کہ جی چاہتا ہے کہ کسی بن میں جا بسرام کروں۔
شروع میں ایسا کیا بھی مگر زندگی کے اپنے پھندے ہیں اور یہ کبھی شکنجہ کستی اور کبھی ڈھیل دےکر مضروب کے ساتھ بالکل بلی چوہے والا کھیل کھیلتی ہے۔ آتش فشاں بھی تو بظاہر عام پہاڑوں ہی جیسا، بلند و بالا اور خوشنما مگر اندر ہی اندر ابلتے ہوئے لاوے سے کھولتا ہوا۔ میں بھی عین مین ایسا ہی، ظاہری طور پر متعدل اور اندر تلاطم ہی تلاطم۔ میں باتونی کبھی بھی نہیں رہا پر اب میری خاموشی مزید گہری اور آنکھیں شاید دہکتی ہوئی ہیں کہ لوگ باگ مجھ سے کتراتے ہیں اور میں بھی لوگوں سے وحشت زدہ ہوں۔ میری زندگی کا یہ رخ بڑا غیر یقینی ہے۔
میرا بڑا جی چاہتا ہے کہ یہ سب بس ایک خواب ہو، بے شک طویل اور بھیانک ہی سہی پر محض خواب، کہ خواب کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو، بالآخر ختم ہو جاتا ہے مگر میری یہ حسرت، حسرت ہی رہی۔ میری اور ماہ پارہ کی پسند کی شادی تھی، ماہ کی پسند اور میری جنوں خیزی۔ ان دنوں محبت کی تاپ سے میرا پنڈا پھنکتا تھا۔ میرا کوئی آگے پیچھے تو تھا نہیں، سو اپنی نازوں کی پالی بیٹی کا ہاتھ میرے اکیلے کے ہاتھوں میں دینے میں انہیں سو سو وسوسے ستاتے تھے، مگر شوریدہ جزبات کے آگے بھلا کب بند بندھے ہیں؟
ماہ نے بھی بھوک ہڑتال اور ہزار جتنوں سے انہیں میرے حق میں راضی کر ہی لیا اور یوں ماہ کی ہمراہی نے مجھے اس دنیا کا خوش نصیب ترین انسان بنا دیا۔ شادی کے اوائل دنوں میں ہمارے وسائل بہت کم تھے، اتنے کم کہ ہم دونوں ایک ہی کون آئس کریم کو انجوائے کرتے اور پیدل چلتے ہوئے ایک دوسرے کی سنگت سے لطف اندوز ہوتے۔ ماہ کی باتیں بھی اس کی صورت کی طرح موہنی اور دل آویز تھیں پر ہاتھوں میں ذائقہ کم کم۔ میں ٹھہرا بلا کا چٹورا اور میرے ہاتھوں میں قدرتی ذائقہ بھی۔ ماہ کو بہترین کھانا پکانا میں نے ہی سکھایا تھا، پر پکانے میں ماہر ہو جانے کے باوجود بھی ظالم پیاز مجھ ہی سے کتروایا کرتی تھی۔
وقت تو سرپٹ مشکی گھوڑے کی طرح بھاگتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ میرے اور ماہ کے تیرہ سالہ ساتھ نے ہم دو، کو پانچ کر دیا۔ میرے ماشاءاللہ تین خوب صورت و ذہین بچے اور ماہ کی غیر مشروط محبت۔ انسان خدا سے بھلا اس سے زیادہ اور کیا مانگ سکتا ہے؟ گزرتا وقت ہمیں معاشی استحکام سے بھی نوازتا چلا گیا، اتنا کہ اب خواہشات میری جیب کی دسترس میں تھیں۔ اب سوچتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ مجھے زندگی میں اتنی آسانیاں اور سہولتیں ماہ کی فراہم کردہ تھیں۔ اس نے مجھے ہمیشہ بچوں کی پڑھائی اور گھریلو ذمہ داریوں سے دور رکھا۔
میں کامل یکسوئی سے دفتر نبھاتا اور پھر بچا ہوا سارا وقت بھر پور طریقے سے ماہ اور بچوں پر خرچ کرتا۔ ہم لوگ گھومنے پھرنے کے بہت شوقین تھے اور اس چکر میں ہم لوگوں نے اپنی ہنڈا سیوک پر تقریباً پورا سندھ اور جزوی طور پر بلوچستان دیکھ رکھا تھا۔ ماہ پارہ کو اسلام آباد میں اپنے چھوٹے بھائی کے بیٹے کے عقیقے کی تقریب میں شرکت کرنی تھی، تقریب چوں کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں تھی اس لیے ماہ اور بچوں نے ٹرین سے جانے کا فیصلہ کیا۔ بچوں کا بذریعہ ریل گاڑی یہ پہلا سفر تھا لہٰذا ان کی خوشی دیدنی بھی، خاص طور پر دونوں بڑے بچے کی۔
سیف تو خیر چھوٹا تھا مگر قسیم اور خولہ کے جوش و خروش کا عالم ہی اور تھا۔ کزنز سے ملنے کی خوشی تو تھی ہی مگر سب پر سوا ریل گاڑی کا سفر تھا۔ میں نے ان کی آسانی کو مدنظر رکھتے ہوئے سلیپر بک کیا تھا۔ میرا اپنا ارادہ یہی تھا کہ تقریب سے دو دن پہلے پہنچوں گا، پھر بچوں کو مری اور لاہور گھماتا ہوا کراچی واپس۔ اسٹیشن پر بچوں سے ہنسی مزاق اور کھیل چلتا رہا۔ سلیپر کے ڈبے میں سب خوش تھے، سیف ایک برتھ سے دوسری برتھ پر چھلانگیں لگانے میں مشغول اور خولہ نے تو جھٹ اوپر والی برتھ پر قبضہ کر لیا تھا۔
میں نے قسیم کو دروازے اور کھڑکیاں بند کرنے کا طریقہ اور خدا نہ خواستہ کسی ایمرجنسی کی صورت میں زنجیر کھینچنا بھی سمجھا دیا۔ قسیم ہے تو گیارہ سال کا مگر ماشاءاللہ بہت سمجھ دار، کوئی بھی بات اسے صرف ایک دفعہ بتانی پڑتی ہے۔ اسے ہدایت دی کہ ماں، چھوٹی بہن اور بھائی کا بہت دھیان رکھنا ہے اور کسی بھی اسٹیشن پر بھول کر بھی نہیں اترنا۔ احتیاطََ پانی کی بوتلوں کا کریٹ بھی لے آیا اور ماہ پارہ کی پسندیدہ میگزین بھی۔ ڈبے سے اترنے سے پہلے بچوں کو باری باری گلے لگایا، اب سب اداس تھے، سیف تو مجھ سے چمٹ گیا، میری گود سے اتر ہی نہیں رہا تھا۔ میری نو سالہ خولہ نے گلے لگتے ہوئے چپکے سے ایک پرچہ میری جیب میں سرکا دیا۔