Khirki (2)
کھڑکی (2)
میں صبح سویرے اپنی گیلری والی کھڑکی کے پاس دوربین سیٹ کر کے بیٹھ جاتا اور بس اسٹاپ پر کھڑے لوگوں کو دیکھتا رہتا، کچھ ہی دنوں میں میں کافی لوگوں سے مانوس ہو گیا، ان کے اوقات کار جان گیا اور کچھ لوگوں کو میں بطور خاص دیکھنے لگا تھا۔ سب لوگ مجھے اتنے قریب دکھتے، جیسے میں انہیں ہاتھ بڑھا کر چھو لوں گا۔ میری دلچسپی چند مخصوص لوگوں میں دن بدن بڑھتی جا رہی تھی۔ دوربین گویا میرا اٹوٹ انگ بن گئی تھی۔
تقریباً ساڑھےآٹھ نو بجے، میں اس شغل (دوربینی) سے فارغ ہوتا اور نثار میرا پارٹ ٹائم نوکر مجھے ناشتہ بنا کر دیتا، اس کے بعد وہ گھر کی صفائی ستھرائی کرتا اور ایک سالن اوراس کے ساتھ میرے حسبِ منشاء چاول یا روٹی بنا دیتا۔ اس بیچ ایک تھرمس کافی کا بنا کر میری رایٹنگ ٹبل پر رکھ دیتا۔ دس سے بارہ تک میرے لکھنے کا وقت تھا۔ نثار کے جانے کے بعد میرے فلیٹ کی اکلوتی چہل پہل ختم ہو جاتی۔ گویا
گھر میں ہیں بس چھ ہی لوگ
چار دیواریں چھت اور میں
پھر میں اور دوربین ایک دوسرے کو کمپنی دیتے۔ اس وقت میرے دیکھنے کا کوئی مخصوص ہدف مقرر نہیں تھا، کہیں بھی کچھ بھی دیکھ لیا کرتا۔ کھانے کے بعد قیلولہ اور کچھ پڑھنا یا پھر غزلیں سننا۔ ساڑھے چار بجے سے میں دوبارہ، پوری دل جمعئ سے بس اسٹاپ پر اپنے منتخب کردہ کرداروں کا انتظار اور ان کا مشاہدہ شروع کر دیتا۔ میں ان کرداروں کا اس قدر عادی ہو گیا تھا کہ، ان کی زندگی کے بارے میں پہروں سوچتا۔ میں تقریباً پونے تین سال سے ان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔ اصل میں لڑکی کی ملاحت نے مجھے اس کی جانب متوجہ کیا تھا۔ بلا کی نمکین اور پرکشش تھی۔
یہ تین لڑکیوں کا ایک گروپ تھا، ان تینوں میں جو سب سے زیادہ ملیح تھی اس کا نام ملیحہ تصور کر لیجیے۔ یہ تینوں گویا بس اسٹاپ کی رونق اور بہار تھیں۔ تینوں صبح سات بج کر پیتیس منٹ کے قریب قریب اسٹاپ پر آجاتیں اور ان کی فیکٹری کی بس پونے آٹھ یا سات پچاس پر آتی۔ اس سے ذرا پہلے ایک خوش جمال بھی آجاتا۔ اس کا نام جمیل فرض کر لیتے ہیں۔ خوش رو ہونے کے ساتھ ساتھ وہ خوش لباس بھی تھا۔ وہ ان لڑکیوں کے روانہ ہونے کے بیس پچیس منٹ بعد جاتا۔ اس کا اتنا سویرے آنا اور اپنے روٹ کی بس کو قصداً چھوڑنا مجھے چونکا گیا۔
غور کیا تو جمیل اور ملیحہ کے آنکھوں کے اشارے اور دبی دبی مسکراہٹ بہت کچھ عیاں کر گئے اور یہ محبت کی کہانی میرے سامنے ہی پھلی پھولی۔ اب اکثر ملیحہ وقت سے پہلے اکیلے ہی اسٹاپ پر آ جاتی اور جمیل بھی آجاتا اور ان کی مختصر گپ شپ چلتی، پھر وہ دونوں لڑکیاں بھی آتی اور ہنستی ہوئی ملیحہ سے ذرا فاصلے پر کھڑی ہو جاتی۔ واپسی پر بھی جمیل پہلے آجاتا اور بےچینی سے فیکٹری بس کا منتظر رہتا۔ اب اکثر یہ ہونے لگا کہ وآپسی میں جمیل کچھ قدم ملیحہ کے ساتھ چلتا۔ اب اشاروں کنائیوں سے بات گفتگو اور لفافے کے تبادلے پر آ چکی تھی، یقیناً ٹیلی فون نمبر بھی لیا دیا جا چکا ہو گا۔
ملیحہ کی ملاحت میں روز بروز اضافہ ہو رہا تھا اور اب وہ اسٹاپ پر موجود بہت سے لوگوں کی توجہ کا مرکز تھی۔ ایک دن ملیحہ کی سج دھج دیکھنے والی تھی، باقی دونوں لڑکیاں بھی اس سے بہت ہنسی مزاق کر رہی تھیں۔ اس دن ملیحہ فیکٹری بس پر نہیں چڑھی بلکہ جمیل کے ساتھ ٹیکسی میں بیٹھ کر چلی گئ۔ پھر یہ اکثر ہونے لگا۔ وہ مہینے دو مہینے پر اس کے ساتھ ٹیکسی میں بیٹھ کر کہیں چلی جاتی۔ جانے کیوں، اب ان کے تعلقات میں پہلے جیسی گرم جوشی اور وارفتگی نہیں رہی؟ خاص کر جمیل کی طرف سے خاصی سرد مہری اور بیزاری کا اظہارِ ہوتا۔
وہ اب اسٹاپ پر بھی دیر سے آنے لگا تھا، اکثر ملیحہ کی بس کے جانے کے بعد آتا اور ملیحہ کو اسٹاپ پر نہ پاکر، اس کے چہرے پر پھیلتا سکون میری دوربین کے لنس سے مخفی نہیں تھا۔ یہ مختصرََلو اسٹوری اپنے منطقی انجام پر پہنچ چکی تھی۔ ایک دن ملیحہ نے جمیل کے انتظار میں اپنی فیکٹری بس چھوڑ دی اور جب جمیل آیا تو ملیحہ گویا اس پر جھپٹ پڑی، آنسو بھی پہونچتی جاتی اور اپنا موبائل بھی جمیل کو دکھاتی جاتی۔ جانے کیا راز تحریر تھا موبائل اسکرین پر؟ جمیل اس کو بری طرح دھتکارتا ہوا اپنی روٹ کی بس پر بیٹھ کر روانہ ہو گیا۔
دو دن ملیحہ نظر نہیں آئی اور میرا کسی کام میں دل نہیں لگا، جان سے سو وسوسے چمٹے رہے۔ شام میں بھی صرف وہی دونوں لڑکیاں تھکی تھکی اسٹاپ پر اتریں۔ لگا سارا سماں ہی سونا سونا ہو گیا ہے۔ تیسرے دن ملیحہ تو نہیں، پر اس کی غمزدہ پرچھائی خاموشی سے اسٹاپ پر آئی اور کسی سائے کی طرح بس میں بیٹھ کر فیکٹری چلی گئی۔ وہ دونوں لڑکیاں بھی اب چہلیں نہیں کرتی اور پورا اسٹاپ ہی ویرانے میں تبدیل ہو گیا تھا۔ پھر ایک دم سے ملیحہ نے آنا بند کر دیا۔ جانے کیا بیتی اس پر؟ جمیل اب پہلے سے بھی زیادہ تر و تازہ اور بن ٹھن کر دفتر جانے لگا ہے۔
وہ دنوں لڑکیاں بہت سنجیدہ اور سہمی ہوئی آتی اور بس کے انتظار میں نظروں کو زمین پر گاڑے رکھتی۔ اب میں نے بھی دوربین رکھ دی ہے، بس خالی خالی نظروں سے اپنی وہیل چیئر پر بیٹھا آسمان پر اڑتی چیلوں کو دیکھتا رہتا ہوں، شاید میں بتانا بھول گیا تھا پچھلے پانچ برسوں سے میں Distal dystrophyمیں مبتلا ہوں۔ اب میری نقل حرکت بہت کم ہو گئی ہے بمشکل دیوار پکڑ کر یا واکر کے سہارے باتھ روم جاتا ہوں۔ اب تو میں ٹائپنگ بھی نہیں کر پاتا۔ ہفتے میں دو شام ایک لڑکا بختیار آتا ہے اور میری وائس ریکارڈنگ کو ٹائپ کر کے جہاں مجھے بھیجنا ہوتا ہے، بھیج دیتا ہے۔
بچوں نے اپنے پاس بلایا تو بہت مگر تجربات نے یہی سکھلایا ہے کہ، اللہ کے بعد انسان کا سہارا اس کی اپنی ذات ہی ہے۔ میں نے تینوں بیٹوں کو منع کر دیا ہے، ویسے بھی لندن اور نیویارک کی سردی میری بوڑھی ہڈیوں کی برداشت سے زیادہ ہے۔