Kahani Kab Purani (2)
کہانی کب پرانی (2)
ملاقات پر یونی کی یادیں تازہ ہوئی اور عزیزہ نے بتایا، "ارے بھئ میں پچھلے سال اپنی چھوٹی بیٹی کے پروجیکٹ کے سلسلے سے اردو بازار گئی تو وہاں تیمور لنگ مل گیا تھا، تمہارا بہت پوچھ رہا تھا؟ "لگتا ہے آنچ ابھی تک سلگ رہی ہے، اس نے تمہارے بارے میں پوچھا میں نے بتا دیا کہ بھئ لندن میں عیش کر رہی ہے۔ وقت کی گرد باد نے تیمور کی یاد کو دھول کر دیا تھا کہ بہت کچھ جھاڑ جھٹک کہ مجھے وہ مجنوں یاد آیا، اور میں چاہتے ہوئے بھی اپنی دوستوں کو یہ نہ بتا سکی کہ یونیورسٹی کے آخری دن اس نے مجھے ایک کتاب تحفے میں دی تھی۔
جس میں موجود خط اور اس کے متن سے مجھے چھ ماہ بعد آگاہی ہوئی کہ اس دن یونی سے وآپسی پر، پہلے ابا جی کے دل کے دورے کی منحوس خبر ملی اور اس کے ایک ہفتے کے بعد ابا جی کا ہسپتال ہی میں انتقال ہو گیا، انہیں گھر آنا نصیب ہی نہیں ہوا۔ ان کی جدائی میں ہم لوگوں کی دنیا اندھیری اور دل ویران ہو گیا تھا۔ میں بے اماں و بے سائباں، یتیمی اور عدم تحفظ کے جان لیوا ظالم احساس سے پہلی بار آشنا ہوئی تھیں۔
امی کی عدت ختم ہونے کے بعد جب ہم لوگوں نے گھر بدلا تو وہ کتاب اور اس میں رکھا خط بھی ملا، تیمور نے مجھے پروپوز کیاتھا۔ ان دنوں ذہن اتنا منتشر تھا کہ مجھے اس خط کا جواب بھی نہیں سوجھا اور کچھ دن وہ خط اسی کتاب میں ساکت مقید رہنے کے بعد ڈسٹ بن کی نذر ہوا۔ میری تیمور سے کوئی جزباتی وابستگی نہیں تھی مگر میں اس کی جنوں خیزی سے آشنا ضرور تھی۔ کم عمری کی اپنی معصومیت اور بے وقوفیاں ہوتی ہیں سو میں بھی تیمور کی وارفتگی پہ ہنستی ہی رہی اور کبھی اسے سریس لیا ہی نہیں۔
دوستوں کے ساتھ برنچ بہت خوشگوار رہا، پر مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ اب دوبارہ یہ محفل نہیں سجنے والی کہ سب دوستیں پابندیوں اور ذمہ داریوں کی جکڑ بندیوں میں محصور، میں ان کی زندگیوں میں اپنی وجہ سے کوئی ہلچل یا ان کی روٹین کو تلپٹ کرنا نہیں چاہتی تھی۔ اس دن یادوں کو ریوائنڈ کرتے ہوئے، ہنستے ہنستے آنکھوں میں آنسو بھی آئے اور دل نے درد کی ٹیس بھی محسوس کی۔ گھر آ کر جانے کیوں میں نے تیمور کو سرچ کیا اور بھلا ہو مارک زیوکربرگ کا کہ تیمور مل بھی گیا اور انتہائی مقام حیرت کہ ابھی تک غیر شادی شدہ تھا۔
کراچی آ کر ایک سال تک تو میں نے گزشتہ برسوں کی تھکن اتاری اور بھلا ہو کووڈ کا کہ سوشل گیدرنگ کم کم تھی سو ملنے ملانے کی درد سری بھی نہیں۔ سال کے آخر میں جب کراچی گلابی سردی کی شال میں ملعوف تھا، تو دو برس کے طویل وقفے کے بعد کراچی ایکسپو سینٹر میں بک فئیر کی چہک و دھوم تھی۔ میں پانچوں دن صبح ہی وہاں جاتی رہی کہ شام میں وہاں کا رش نا قابل بیان و برداشت۔ لوگوں کا ذوق و شوق دیدنی گویا ایک خلقت وہاں امنڈ آئی تھی۔ جانے کیوں مجھے گمان سا ہے کہ وہاں میں نے، سٹی سنٹر کے اسٹال پر تیمور کو دیکھا تھا۔
نئے سال کے ابتدائی سرد دنوں میں میرے سب سے چھوٹے اور دلارے بھانجے احمد کی شادی کے ہنگامے جاگ اٹھے اور کووڈ کی پابندیوں کے باوجود شادی کی گہماگہمی عروج پرتھی۔ شادی کے دن میں، قدرے تاخیر سے شادی ہال پہنچی کہ میرے ذمہ داریوں میں باجی کے گھر کو لاک کرنا بھی شامل تھا مگر بھانجے کے حجلہ عروسی کو سجانے والی ٹیم نے کام ختم کرنے میں بہت وقت لے لیا، سو مجھے بھی ہال پہنچتے پہنچتے دیر ہو گئی۔
میں اسٹیج پر دلہن دولہا کو مبارکباد ہی دے رہی تھی کہ بھانجے کی سالیوں اور ان کی سہیلیوں کے غول نے اسٹیج پر رسم کے لیے ہلا بول دیا اور میں نے اسٹیج سے اُترنے ہی میں عافیت جانی۔ اسٹیج سے اُترتے ہوئے انجانے میں، میری پنسل ہیل سے کسی کا پیر کچلا گیا اور "اُف " کی صدائے دل گیر پر میں نے سرا اٹھا کر دیکھا توتمیور لنگ تم!میں نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا؟ اب بھی یہی کہتی ہو؟ اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا اور غریب واقعی لنگڑاتا ہوا قریبی کرسی پر بیٹھ گیا۔
میرا خجالت سے برا حال تھا کہ میں اب ہلکی پھلکی پروا نہیں بلکہ خاصی ہیکل باد سموم تھی اور مجھے شدت سے تیمور کے پیر پر ترس آ رہا تھا۔ میں نے تمیور کا بغور جائزہ لیا، لیجیے وہ بھی اقبال مند ہو چکے تھے۔ وہ لہراتی زلفیں جنہیں سر کے ایک جھٹکے سے پیچھے پھینکا جاتا تھا، وہی ادائے دلبری جس پر کئی نازک دل اٹکتے تھے، اب ناپید تھی۔ ہائے گزرتا وقت بھی کیسے کیسے خراج لیتا ہے۔ اب اگر میرا بغور جائزہ لے کر فارغ ہو چکی ہو تو، آرام سے بیٹھ جاؤ۔ تیمور نے کرسی پیش کرتے ہوئے کہا:جانے وہ ماحول کا فسوں تھا یا دل کی بے ایمانی، چاند ماری ہی ہو گئی۔
اس مختصر وقت میں ہم دونوں نے دنیا جہاں کی باتیں کر لیں۔ زمان و مکاں کی قید سے آزاد اور لوگوں کی گھورتی نظروں سے قطعی بے پروا۔ میری یادداشت میں ایسا کوئی لمحہ مقید نہیں کہ یونیورسٹی میں کبھی ہم، ایک دوسرے سے براہ راست مخاطب بھی ہوئے تھے۔ اس نے اپنی رام کہانی سنائی، وہ بھی مسترد ہوتا اور کرتا، انجام کار تنہا تھا اور کچھ ایسی ہی میری کتھا بھی تھی۔ نہ ہی اس نے اشاروں یا تمسخر اڑاتی آنکھوں سے مجھے میرا موٹاپا جتایا اور نہ ہی میں نے اس کے گنجے پن پر کوئی دل آزار اشارہ کیا۔ میرا ماننا ہے کہ انسان اپنی دل کی خوشی کے لیے چاہے، ہئیر ٹرانسپلانٹ کروائے، ڈائیٹ کنٹرول کرے یا لائپو سیکشن ہی کوں نہ کروا لے۔ یہ سب اس کا ذاتی فیصلہ اور اس کی اپنی مرضی اور خوشی پر منحصر ہونا چاہیے نا کہ معاشرتی دباؤ کے سبب۔
ایسا محسوس ہوتا تھا، جیسے ہم دونوں کسی گم شدہ پزل کے ٹکڑے تھے، جو اب با آسانی ایک دوسرے میں ضم۔ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی کیسی سے اتنی زیادہ اور بے ساختہ باتیں کیں تھیں یا کبھی کسی سے اس حد تک ذاتیات شئیر کیں تھیں۔ وہ بھی میرے سامنے ایک کھلی کتاب کی مانند تھا اور اس کی روشن شفاف آنکھیں سچی اور لہجے میں بلا کی اپنائیت اور مٹھاس۔ اس نے بتایا کہ چار دن کے بعد اس کی وآپسی ہے۔ جب دلہن کی رخصتی کا غلغلہ بلند ہوا تو یکایک اس نے "اپنا سوال دہرایا اور پوچھا کہ پھر تمہارا کیا جواب ہے؟ "
گھر آ کر احمد نے مسکراتے ہوئے پوچھاخالہ کیا چل رہا ہے؟ کیوں برخوردار! کیا محبت پر صرف تمہاری نسل ہی کی اجارہ داری ہے؟ ساتھ ہی ہم دونوں کا جاندار مشترکہ قہقہ گونجا۔ چار دن کے بعد ہم جاپان کے شہر Hakoneکی جانب محو پرواز تھے۔ زندگی یوں بھی کروٹ بدلتی ہےبھلا کہانی کب پرانی ہوتی ہے۔