Jaag Pakistan Jaag
جاگ پاکستان جاگ
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
اکتوبر کے مہینے میں دو کانگریسی Steve Chabot, Ro Khanna نے ایوان نمائندگان میں یہ قرارداد پیش کی کہ نصف صدی پہلے بنگلہ دیش کی آزادی کی جدوجہد کے دوران پچیس مارچ 1971 سے سولہ دسمبر 1971 تک پاکستان آرمی نے بنگالیوں کا قتل عام کیا۔ اس سے پہلے اسی سال مارچ کے مہینے میں شیخ حسینہ واجد یہ مطالبہ کر چکی ہیں کہ پچیس مارچ کو International genocide day قرار دیا جائے۔
بنگلہ دیش کی حکومت کی جانب سے پاکستان آرمی پر تیس لاکھ بنگالیوں کے قتل عام اور دو لاکھ بنگالی عورتوں کی آبرو ریزی کا سنگین ترین الزام لگایا گیا ہے۔ اس الزام کی شروعات شیخ مجیب الرحمٰن کے بنگلہ دیش پہنچتے ہی یعنی 8 جنوری 1972 کی پریس کانفرنس میں ہوئی۔ بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد جب پاکستان نے شیخ مجیب کو رہا کر دیا تو وہ لندن سے ہوتے ہوئے بنگلہ دیش پہنچے۔
لندن میں ان سے ملاقات کرنے والے پہلے بنگلہ دیشی سراج الرحمٰن، جو بی بی سی کے براڈ کاسٹر اور صحافی بھی تھے۔ ان کا بیان ہے کہ میں شیخ مجیب سے ملنے والا پہلا بنگلہ دیشی ہوں۔ میں ان سے ملا اور انہیں نوزائیدہ ملک کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہی دی۔
شیخ مجیب بنگو بندھو نے پوچھا ہمارے کتنے آدمی مارے گئے؟
سراج الرحمٰن: تین لاکھ۔
۔۔
اسی بات کے دوسرے گواہ تاج الدین اور قمر الزماں ہیں۔ جب ڈھاکہ ائیرپورٹ پر بنگو بندھو کا جہاز لینڈ کیا تو جہاز میں سب سے پہلے تاج الدین اور قمر الزماں داخل ہوئے اور شیخ مجیب کو حالات حاضرہ سے جانکاری دی۔ مجیب الرحمٰن کے سوال کہ ہمارے کتنے آدمی مارے گئے؟
تاج الدین: تین لاکھ۔
لیکن جب مجیب نے ڈیوڈ فروسٹ David Frost کو انٹرویو دیا تو ڈیوڈ کے سوال پر کہ اس آزادی کے سفر میں آپ نے اپنے کچھ ساتھیوں کو بھی کھو دیا، آپ کیسا محسوس کرتے ہیں؟
شیخ مجیب کا جواب تھا صرف قریبی ساتھیوں ہی کو نہیں بلکہ میرے تیس لاکھ لوگ مارے گئے ہیں۔
شیخ مجیب الرحمٰن کی زبان کی یہ لغزش شاید پاکستان کو بہت مہنگی پڑنے والی ہے۔ نصف صدی سے زائد عرصہ بیت گیا مگر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے نہ ہی کبھی اس الزام کی تردید کی اور نہ ہی کاونٹر اٹیک کیا۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی یہ مجرمانہ غفلت اور خاموشی کہیں پاکستان کی پیشانی کا کلنک نہ بن جائے۔ پاکستان کو اپنے دفاع کے لیے کھڑا ہونا پڑے گا کہ ہم عوام اس زبردستی کی کالک کو اپنے چہروں پر پوتنے کے لیے تیار نہیں۔
کرنل اکبر حسین جو بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے ہیرو ہیں ان کا بنگلہ دیش پارلیمنٹ میں پندرہ جون 1993 کو دیا گیا بیان کچھ یوں ہے۔ "قیام بنگلہ دیش کے فوراً بعد حکومت نے اعلان کیا تھا کہ جس خاندان میں بھی آزادی کی راہ میں جانی نقصان ہوا ہے، بنگلہ دیش کی حکومت ہرجانے کے طور پر اس خاندان کو دو ہزار ٹکا تاوان ادا کرے گی"۔ اس مد میں صرف تین ہزار درخواستیں موصول ہوئیں۔
چھبیس مارچ 1971 سے لیکر سولہ دسمبر 1971، کل بنتے ہیں 262 دن۔ مشرقی پاکستان میں اس وقت پاکستان آرمی کی کل تعداد تقریباً پینتیس چھتیس ہزار تھی۔ فوج، عسکری ذمہ داریاں نبھانے کے ساتھ ساتھ انتظامی امور بھی سنبھال رہی تھی۔ کسی بھی کیلکولیشن سے کیا یہ عملی طور پر ممکن ہے کہ پاکستان آرمی 11450 افراد کا یومیہ قتل کرے؟ انہیں دفن بھی ایسا کرے کہ آج تک نشان بھی نہ ملے؟
بنگلہ دیش کے قیام کے فوراً بعد شیخ مجیب الرحمٰن کے خصوصی حکم پر بنگلہ دیش کی تحقیقاتی کمیشن جو بنگلہ دیش آرمی، باڈر سیکورٹی فورسز، رینجرز، پولیس اور سول انتظامیہ پر مشتمل تھی۔ ان کی جان فشانی سے تیار کردہ رپورٹ کو شیخ مجیب الرحمٰن نے اس کے مرتب کرنے والے کے منہ پر دے مارا کہ شدید عرق ریزی اور تحقیق کے باوجود اس میں مرنے والوں کی تعداد محض 56743 تھی۔ شیخ مجیب الرحمٰن نے جھنجھلا کر اس رپورٹ کے پرزے پرزے کر دیئے تھے۔
میرا سوال یہ بھی ہے کہ قیام بنگلہ دیش کے وقت وہاں سات لاکھ سے زیادہ محب وطن غیر بنگالی رہائش پذیر تھے؟ ان کے انجام کی بابت دنیا کیوں خاموش ہے؟