Itni Madaraton Ke Baad (1)
اتنی مداراتوں کے بعد (1)
بچپن سے سنتے آئے ہیں سفر وسیلہ ظفر لیکن کچھ سفر ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں دل گھائل ہوتا ہے اور تل تل ڈوبتا ہے۔ منزل جیسے جیسے قریب آتی جاتی روح بدن کا ساتھ چھوڑتی محسوس ہوتی ہے۔ میں یعنی شہباز علی پاکستان کی قومی پرواز سے دبئی پہنچا ہوں اور چار گھنٹوں پر محیط جان لیوا انتظار کے بعد امارات ایئرلائن مجھے میری منزل مقصود پر پہنچا دے گی۔ یہ نصف صدی پرانا قصہ ہے۔
میری پوسٹنگ کھاریاں میں تھی جب مجھے اماں کی چٹھی ملی کہ چچا برکت نے رشتے کے لیے ہاں کر دی ہے اور شادی کے لیے عید کے تیسرے دن کی تاریخ مقرر ہوئی ہے سو میں ابھی سے چھٹی کی درخواست دے دوں۔ خط پڑھتے ہی میں نے لڈی ڈالی کہ من کی مراد پوری ہوگئی تھی۔ نسترن مجھے بچپن سے پسند تھی، بھولی بھالی سفید گلاب جیسی پاکیزہ اور معصوم۔ اس کا اور میرا سنجوگ ناممکن تھا مگر اس دنیا میں شاید کچھ بھی ناممکن نہیں کہ معجزے کبھی بھی ہو سکتے ہیں۔
میرے ابا انڈیا، پاکستان کی پہلی جنگ 1948 میں شہید ہو گئے تھے۔ تب میں نے پاؤں پاؤں چلنا سیکھا تھا۔ بس اسی وقت ابا کی انگلی میرے ہاتھوں سے چھوٹ گئی پھر میرے ساتھ زمانے نے وہی رویہ روا رکھا جو یتیموں کے ساتھ مروجہ ہے۔ تایا نے زمین پر قبضہ کر کے اماں کو گھر سے بےدخل کر دیا اور اماں اپنے ہی گاؤں میں اجنبی ہوگئی۔
اماں تھی بڑی ہمت والی، اس نے ابا کا گاؤں نہیں چھوڑا بلکہ وہیں چچا برکت کے کھیت کے پرلی طرف جھونپڑی ڈال لی اور جھونپڑی کے کچے آنگن میں تندور بنا لیا۔ اسی تندور کے آگے بیٹھے بیٹھے اماں نے اپنی پوری جوانی جھلسا دی پر کسی کا بڑھا ہاتھ قبول کر کے سکھ کی چھپر چھاؤں قبول نہ کی۔ چچا برکت ہم ماں بیٹے پر شفقت رکھتا تھا مگر ہمارا درجہ اور اوقات اتنی ہی تھی جتنی خاندان میں کسی غریب رشتہ دار کی ہوتی ہے۔
میری شدید خواہش تھی کہ میں اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان آرمی میں بھرتی ہو جاؤں سو انٹر کرتے ہی میں پاکستان آرمی میں بطور سپاہی بھرتی ہوگیا۔ جب میں وردی میں ماں کے سامنے آیا تو اماں بہت بہت روئی، ویسے تو غریب اکثر و بیشتر ہی روتی تھی پر اس دن کا رونا الگ تھا۔ اس رونے میں منزل کو پا لینے کی سرخ روئی کے ساتھ ساتھ میاں کا غم بھی از سر نو تازہ ہوگیا تھا۔ ماں نے کہا تھا کہ
"تو حولدار ناظم علی کا بیٹا ہے، دیکھ بیٹا نثار، اپنے باپ کی عزت رکھنا اور دشمن کو کبھی پیٹھ مت دکھانا۔ "
پھر میں کھاریاں چلا آیا میری یونٹ تھی پنجاب 33۔ دن گزرتے گئے اور میرا ماں کی طرف چکر لگتا رہا۔ ایک دفعہ جب میں گاؤں گیا تو ماحول میں بہت کھنچاؤ تھا پوچھنے پر پتہ چلا چچا برکت کے بیٹے ناظم نے اپنی پسند سے شہر میں شادی کر لی ہے اور اب اس وجہ سے لڑکی والوں نے نسترن کا رشتہ بھی لوٹا دیا کہ جب ہماری بیٹی تمہارے گھر کی بہو نہیں بن سکتی تو نسترن بھی ہماری بہو نہیں بنے گی کہ یہ ادلے بدلے کا رشتہ تھا۔
گاؤں کے بڑے بیچ میں پڑے مگر چچا کرم الٰہی (نسترن کے ہونے والے سسر نے) پٹھے پر ہاتھ ہی نہ رکھنے دیا یوں بچپن کا لگا لگایا رشتہ ٹوٹ گیا۔ چچا برکت نے اس بات کا بہت اثر لیا اور بیمار پڑ گیا اور ساتھ ہی ساتھ ناظم کو بھی عاق کر دیا۔ مسجد کے امام صاحب نے برکت چچا کو بہت سمجھایا کہ اسلامی تعلیمات میں عاق کی کوئی شرعی حیثیت نہیں اور یہ سختی سے منع ہے مگر چچا برکت اپنی ہٹ پر قائم رہا۔
میں بھی چچا برکت کی مزاج پرسی کو گیا۔ چچا نے واقعی اس صدمے کو دل پر لے لیا تھا اور اب وہ پہلے کے مقابلے میں آدھا بھی نہیں رہا تھا۔ پہلی بار میں نے زندگی میں جواں ہمت چچا کے لرزتے ہاتھوں کو دیکھا اور میرا دل بیٹھ گیا۔ اولاد کی طرف سے ملنے والے دکھ والدین کو روگی کر چھوڑتے ہیں۔ چاچی بھی اداس تھی مگر چچا کی طرح نڈھال نہیں البتہ نسترن کی اداسی میرے دل کو بہت چبھی گو کہ اس کی اداسی فطری اور جائز تھی۔ وہ بچپن سے اسی کا نام اپنے نام کے ساتھ سنتی آ رہی تھی پھر اسے مستقبل کی دہشت بھی تھی کہ اب آگے کیا ہوگا؟
چچا برکت کے گھر سے واپسی پر میں نے اماں سے اپنی دیرینہ آرزو کا ذکر کیا پر اماں خاموش رہی۔ اماں نے کہا بیٹا ہمارا اور ان کا کوئی جوڑ نہیں، کہیں وہ یہ نہ سمجھیں کہ ہم لوگ ان کے مشکل وقت کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ میں نے اماں کی منت کی کہ اماں رشتہ تو لے جائیں، کیا ہوگا زیادہ سے زیادہ انکار ہی ہوگا نہ، مگر مجھے تاحیات یہ ملال تو نہیں رہے گا کہ میں نے کوشش نہیں کی۔ جواب میں اماں خاموش ہی رہی اور میں بےحد رنجور کھاریاں واپس آ گیا۔
مجھے اچھی طرح سے یاد ہے وہ پہلی جنوری 1971 کی روشن اور چمکیلی دوپہر تھی جب مجھے اماں کی چٹھی ملی جس میں یہ خوشخبری تھی کہ چاچا برکت رشتے کے لیے مان گیا ہے اور عید کا تیسرا دن شادی کے لیے مقرر ہوا ہے۔ میری خوشیوں کا ٹھکانہ نہیں تھا۔ خدایا خدایا، میرے تہجد کے آنسو باریاب ہوئے، پتہ نہیں دعاؤں میں محبوب کو مانگنا چاہیے بھی کہ نہیں؟ پر میں نے نسترن کو مانگا تھا اور بہت تڑپ کر مانگا تھا۔ اب میں سجدے میں گر کر اس ربّ کریم کا شکر گزار تھا۔
سنہ اکہتر ملک کے لیے سازگار نہ تھا کہ ملکی فضا عجیب دم گھونٹنے والی تھی خاص کر مشرقی بازو سے عجیب عجیب خبریں آ رہی تھیں۔ یقین نہیں آتا تھا کہ بھائی بھائی بھی برسرِ پیکار ہو سکتے ہیں۔ ہم لوگوں کو یہی بتایا گیا تھا کہ سرحد پار سے ہندو بنیے نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے فوجی بھی مکتی باہنی کی مدد کے لیے بھیج دیئے ہیں۔ عجیب دل خراش خبریں آتی تھیں مشرقی پاکستان سے اور حالات کی سفاکی دیکھیے کہ بھائی بھائی کے خلاف صف آرا تھے۔
مارچ میں پنجاب 33 کا ڈھاکہ جانے کا حکم نامہ آ گیا اور مجھے گھر جانے کو فقط تین دن کی چھٹی ملی۔ میں نے گھر پہنچ کر اماں سے کہا کہ برکت چاچا سے پوچھیں اگر نسترن کو اعتراض نہیں تو آج شام میں رخصتی کر دیں۔ یوں اس روز عصر کی نماز کے بعد مسجد ہی میں میرا نکاح ہوا اور میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی پوری ہوئی۔ دو دن کدھر ہوا ہوئے خبر نہیں۔ میں نسترن سے غازی بن کر لوٹنے کا وعدہ کر کے کھاریاں آ گیا۔
ہماری رجمنٹ پندرہ مارچ کو ڈھاکہ ایئرپورٹ پر اتری۔
اف! کیا خوبصورتی تھی بنگال کی، ہریالی گویا آنکھوں میں کھبی جائے۔ مگر اس حسن پر ایک سہم طاری تھا۔ ایئرپورٹ کا عملہ ہم لوگوں سے بالکل تعاون نہیں کر رہا تھا اور ہمارے بنگالی بھائیوں کے چہروں پر ایک واضح تحقیر آمیز مسکراہٹ تھی اور انہوں نے آپس میں، ہمارے متعلق بنگلہ زبان میں غالباً کوئی ناروا بات بھی کی تھی جس پر عملے کے دیگر افراد کھل کر ہنسنے لگے تھے۔ ہم لوگوں کو خاموش رہنے کا حکم تھا۔
ہم سب ٹرکوں میں سوار ہو کر ہیڈ کوارٹر پہنچ گئے۔ یہاں سے پھر کچھ چٹاگانگ اور کچھ کومیلا باڈر پر بھیج دئیے گئے۔ میں ڈھاکہ میں پوسٹیڈ تھا اور میرے فرائض میں ڈھاکہ ریڈیو اسٹیشن کی حفاظت و نگرانی تھی۔ پچیس مارچ کو آپریشن سرچ لائٹ کے بعد شیخ مجیب کو گرفتار کر لیا گیا اور تین چار دن کے بعد اسے کراچی بھیج دیا گیا۔ آپریشن سرچ لائٹ میں کافی خون خرابہ ہوا اور پاکستان آرمی مقامی لوگوں کے لیے مزید قابل نفرت ٹھہری۔
مکتی باہنی اور دوسرے شرپسند عناصر یا تو باڈر پار کر گئے یا انڈر گراؤنڈ ہو گئے۔ اب پوری شدت سے گوریلا جنگ شروع ہو چکی تھی۔ مکتی باہنی اپنے علاقے سے یوں آشنا تھے جیسے آدمی اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے اس پہ طرہ یہ کہ ان کو عوام کی حمایت و ہمدردی بھی حاصل تھی۔ مغربی پاکستان سے آنے والی کمک کے لیے بنگال کی برسات نیا تجربہ اور عوام کا عدم تعاون الگ درد سر تھا۔
ڈھاکہ کے مضافات میں تخریب کاروں کے کئی گڑھ تھے۔ ڈھاکہ کے باہر سدھیر گنج پاور ہاوس تھا جہاں سے بجلی کے تار مختلف اطراف کو جاتے تھے۔ تخریب کاروں نے یہ تار کاٹ کر بجلی کی سپلائی منقطع کر دی تھی۔ مرمت کے کام کے لیے مغربی پاکستان سے پانچ افراد پر مشتمل واپڈا کا عملہ منگوایا گیا۔ جس میں دو اسسٹنٹ انجینئرز، ایک لائن سپرٹنڈنٹ، ایک فورمین اور ایک لائن مین شامل تھا۔ عملے کے پانچ آدمیوں کی حفاظت پر میں، شبیر اور اختر حسین مامور تھے۔ ہم پر مکتی باہنی نے دن دہاڑے حملہ کر دیا۔
اس حملے میں واپڈا کے عملے کے پانچ افراد اور پاکستان آرمی کے تین جوان شہید ہوئے۔
16 جولائی 1971۔
سپاہی نثار علی ولد ناظم علی۔
پنجاب 33۔
سکنہ راولپنڈی۔
سدھیر گنج میں وطن عزیز کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہو گئے اور انہیں پورے اعزاز کے ساتھ آرمی قبرستان بنانی میں سپرد خاک کر دیا ہے۔
یہ اطلاع گھر پر بجلی بن کر گری، جسے شہید کی بیوہ اور شہید کی ماں نے پورے وقار اور تحمل سے جھیلا۔ دو دن کی بیاہتا پیٹ سے تھی اور آنے والا بچہ دنیا میں آنے سے پہلے ہی یتیم ہو چکا تھا۔ سولہ دسمبر 1971 کو ملک دو لخت ہوا اور میں یعنی شہباز علی ولد نثار علی اسی سیاہ رات تولد ہوا۔ کیسا محروم بچہ جس کی پہلی چیخ میں اس کی ماں اور دادی کی آہ و بکا بھی شامل تھی۔
اب میری عمر پچاس سال ہے۔ دادی بیس سال پیشتر ہمارا ساتھ چھوڑ گئی مگر اس نے دادا اور ابا کو میری آنکھوں میں مجسم کر دیا تھا۔