Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Hibakusha (2)

Hibakusha (2)

ہیباکوشا (2)

بلڈنگ کا چوکیدار اپنی کسی مجبوری کے سبب کام چھوڑ کر واپس اپنے گاؤں جا رہا تھا، سو جانے سے پہلے وہ اپنے کسی جانے والے کو اپنی جگہ کام پر لگوا کر گیا۔ نیا چوکیدار عمر رسیدہ تھا اور اکثر اس کے ساتھ ایک پیارا سا چار ساڑھے چار سال کا بچہ ہوتا تھا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ، وہ اس کا پوتا ہے۔ میں اسے آفس آتے جاتے دیکھا کرتی تھی، اور وہ گلو سا بچہ مجھے بہت پیارا لگتا تھا۔ میں نے اسے اسامہ کے خاصے کپڑے اور کچھ کھلونے دیے اور وہ معصوم اسی میں خوش ہو گیا۔ پھر میں نے چوکیدار سے کہا کہ، جب اسامہ اسکول سے وآپس آ جائے تو تم گل خان کو میرے فلیٹ پر بھیج دیا کرو کہ، دونوں بچے ساتھ کھیل لیا کریں گے۔

گھر میں بھی باورچی کو ہدایت دی کہ، گل خان جب بھی آئے اسے کھانا ضرور کھلا دینا۔ اسامہ تنہائی کا مارا بچہ، گل خان کے ساتھ کھیل کر بہت خوش ہوتا۔ میں جی ہی جی میں سوچ رہی تھی کہ، گل خان پانچ سال کا ہو جائے تو اس کا اسکول میں داخلہ کروا دوں۔ مجھے وہ پھول سا خوب صورت بچہ بہت پیارا لگنے لگا تھا اور اس سے ایک عجیب سی انسیت ہو گئی تھی۔ اس دن جانے کیوں میری طبیعت بہت بےچین تھی۔ ہلکہ بخار تھا اور دل تو گویا حلق میں دھڑک رہا تھا۔ میں گیارہ بجے ہی اپنے دفتر سے اُٹھ گئی۔ اپارٹمنٹ کے پارکنگ لوٹ میں نعمان کی گاڑی دیکھ کر جی اور پریشان ہو گیا کہ، اللہ سب خیر رکھے۔

اوپر فلیٹ میں زندگی حسبِ معمول تھی، ساس نماز کی چوکی پر اور سسر برآمدے میں اخبار منہ کے آگے کئے ہوئے پڑھنے میں مصروف۔ بیڈ روم خالی تھا، باتھ روم میں جھانکا وہاں بھی نعمان نہیں تھے۔ میں پچھلی بالکونی چیک کرنے کے لیے اسامہ کے کمرے کے قریب سے گزری، تو مجھے کچھ گھٹی گھٹی سی آوازیں سنائی دی۔ میں نے بےاختیار کمرے کا دروازہ کھول دیا اور حیرت اور دہشت سے میری آنکھیں پھٹ گئی۔ کاش کاش! میں نے وہ مکروہ منظر نہ دیکھا ہوتا۔ مجھے دیکھتے ہی گل خان پر نعمان کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی اور وہ مڑا تڑا کپڑوں سے بےنیاز بچہ بلکتا ہوا مجھ سے لپٹ گیا۔

میں سکتے میں کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔ ایسا لگا جیسے میں ختم ہو گئی ہوں، ہر احساس اور حس سے عاری۔ نعمان میرے برابر سے تیزی سے نکلتا چلا گیا۔ کچھ دیر بعد وہ معصوم بچہ رو دھو کر خود ہی چپ ہو گیا۔ میں نے اسے نہلا کر کھانا کھلایا اور ساتھ ہی ڈسپرین بھی چور کر اسے کھلا دی، اور اسامہ کے بستر پر لیٹا دیا۔ اسامہ بھی اسکول سے آ چکا تھا، وہ گل خان کو نڈھال سوتا دیکھ کر پریشان ہو گیا تھا۔ میرے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں کروں کیا؟ غصہ اتنا شدید تھا کہ دل چاہ رہا تھا کہ، نعمان کو شوٹ کر دوں۔ شام میں چوکیدار گل خان کو لینے آیا، تو میں نے ڈرتے ڈرتے اسے چوکیدار کے حوالے کیا۔

وہ غریب پھول سا بچہ کملا گیا تھا۔ میں نے چلتے ہوئے اسے کھلونے اور چاکلیٹس بھی دیں، مگر وہ سب بھی اس کی مسکراہٹ لوٹانے میں ناکام تھیں۔ مجھے اپنے آپ سے بھی گھن آ رہی تھی کہ، میں کیوں نعمان کے جرم کو ڈھانپ رہی ہوں؟ کیوں اس گھناؤنے جرم کی پردہ پوش ہوں؟ دوسری شام نعمان بالکل نارمل انداز میں گھر میں داخل ہوا، میرے چیخنے چلانے پر ساس سسر بھی کمرے میں آ گئے۔ ساس تو کسی صورت اپنے بیٹے کو مجرم ماننے پر تیار نہ تھیں، البتہ سسر خاموش رہے شاید ان کی خاموشی سے شہ پا کر نعمان نے چیخ کر کہا کہ، اتنا شور مچانے کی کیا ضرورت ہے؟

کچھ دے دلا کر چلتا کرو۔ مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا!کیا کوئی اتنا گرا ہوا اور اس قدر بھی سفاک بھی ہو سکتا ہے؟ تیسرے دن گل خان کی دادی چوکیدار کے ساتھ آئی اور اس نے بہت لعن طعن کی، اور رو رو کر بددعائیں بھی دیں۔ میں خاموشی سے سر جھکائے سنتی رہی کہ کہنے کو کچھ تھا ہی نہیں۔ میرے سسر چوکیدار کو بلا کر اپنے کمرے میں لے گئے، اور پھر آدھ گھنٹے بعد گل خان کے دادا اور دادی خاموشی سے چلے گئے۔ سچ ہے پیسے میں بڑی طاقت ہے، یہ ظالم بے کسوں کی مجبوریاں بڑی آسانی سے خرید لیتا ہے۔ مجھے نہیں پتہ کتنے میں ڈیل ہوئی اور کیا ڈیل ہوئی؟ مگر مجھے ان سبھوں سے شدید نفرت اور اپنے آپ سے کراہت آ رہی تھی۔

میں نعمان کی شکل دیکھنے کی روادر نہ تھی، لہٰذا میں اسامہ کے کمرے میں منتقل ہو گئ۔ اسامہ کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا مگر اتنا جان چکا تھا کہ، کچھ بہت برا ہوا ہے اور اس کا تعلق گل خان سے ہے۔ دفتر میں مجھ سے خاک کام نہیں ہو رہا تھا اور گھر بھی کاٹنے کو دوڑ رہا تھا، سو بہتری اسی میں جانی کہ میں کچھ عرصے کے لیے منظر سے ہٹ جاؤں۔ اسکول میں گرمیوں کی تعطیلات میں بیس دن باقی تھے، میں نے اسکول میں اسامہ کی چھٹی کی درخواست دی خود آفس سے ایک ماہ کی چھٹی مع تنخواہ اور ایک ماہ کی چھٹی بغیر تنخواہ کے، کل ملا کے دو ماہ کی چھٹیاں لے کر نیویارک، اپنی اسکول کی دوست شہناز کے گھر پہنچ گئ۔

میں اگر پاکستان میں رہتی تو میرا یقینی برین ہمیرج ہوجاتا۔ پندرہ دن کے اندر اندر میں نے واپس پاکستان نہ لوٹنے اور مستقل طور پر امریکہ میں رہنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ میں کسی بھی قیمت پر اب نعمان کے ساتھ نہیں رہ سکتی تھی، اس کے نام اور اس کے تصور سے مجھے ابکائی آتی تھی۔ میں نے اسامہ کا اسکول میں داخلہ کروا دیا تھا، اور ساتھ ہی اپنی اور اسامہ کی امیگریشن بھی فائل کر دی اور نوکری کی تلاش میں لگ گئی۔ میں اکثر سوچتی ہوں کہ، کیا گل خان زندگی میں کبھی بھی اس اذیت اور دہشت سے باہر آ سکے گا؟

یا وہ بھی ایٹم بم کا حادثہ جھیلنے والوں کی طرح" ہیباکوشا " ہے جو جب تک جیتے رہیں گے، اسی جان کنی کی اذیت میں مبتلا رہیں گے۔ اس بلکتے کراہتے بچے کی بےبس و لاچار تصویر نے، پچھلے تینتیس سالوں سے میرے ذہن میں اپنے پنجے گڑا رکھے ہیں اور میں ہر بار اس یاد کے ساتھ مرتی ہوں۔ میں ہمیشہ اپنے آپ کو مجرم سمجھتی ہوں کہ، میں نے بروقت پولیس میں رپورٹ درج کیوں نہیں کروائی؟ یہ خلش مجھے چین نہیں لینے دیتی اور یہ ندامت میرے ساتھ ہی میرے قبر میں جائے گی۔

Check Also

All The Shah’s Men

By Sami Ullah Rafiq