Hibakusha (1)
ہیباکوشا (1)
کل رات میرے دیور مقصود کا فون آیا تھا اور اس نے تمہارے انتقال کی خبر دی۔ اب جو جیتے جی میرے لیے معنی نہ رکھتا تھا، اس کے انتقال پر کیا ملال؟ نہیں باخدا مجھے کوئی دکھ نہیں، اتنا بھی نہیں جتنا اخبار میں ایک عام آدمی کی موت کی خبر پڑھ کر ہوتا ہے۔ ہاں البتہ یہ ضرور ہوا کہ، اس اطلاع نے پھر سے مجھے میرے اذیت ناک ماضی میں دھکیل دیا۔ وہ ماضی جس کی تابکاریاں میرے دل و ضمیر کے لیے ہلاکت خیز ہیں، اور جو مجھے اٹھتے بیٹھتے huantکرتا ہے۔ اتنے سال گزر جانے کےباوجود بھی، اکثر ڈراونے خواب کی شکل میں میری راتوں کو بےنور اور رنجور کرتا ہے۔
میری بھی کیا زندگی ہے؟ پیدا ہوتے ہی ماں مر گئ اور باپ بیوی کے غم میں اس قدر دل گرفتہ ہوئے کہ، اولا سے ہی بےگانہ ہو گئے اور پھر تنہائی نے ان کو اتنا کلسایا کہ، چار سال کے اندر اندر دوسراہٹ بھی جوڑ لی مگر اس تمام جمع جوڑ میں میں مکمل طور پر تفریق تھی سو رلتی رلاتی، خالہ سے ہوتی ہواتی انڈیا سے پاکستان ماموں کے متھے پڑی۔ ماموں ٹھہرے سیلر، سو ان کے پاؤں میں سدا بھنور ہی رہے۔ انہوں نے مجھے اپنی بیگم نازلی کے حوالے کیا اور حوالے بھی کیا کیا؟ بسرا ہی دیا، بھولے سے بھی مجھ پر دوسری نظر نہ ڈالی۔ میں جھوٹن، اترن برتتی ہوئی قد نکالتی چلی گئی۔
میں شاید فطرتاً باغی بھی تھی کہ جب حق نہیں ملا تو جھپٹنے بھی لگی، پر کمزور کی کیا گرفت اور کیا ہی جھپٹ؟ ممانی پرایؤیٹ اسکول کی پرنسپل تھیں اور میں پیلے اسکول میں پڑھتی تھی، جس کی معمولی فیس بھی بھیک کی طرح کئ کئ دن کی یاددہانی کے بعد، اچھوتوں کی طرح دی جاتی تھی۔ میں اکثرخالی پیٹ اسکول پہنچ کر، میدان میں لگے نل سے پیٹ کی آگ بجھانے کی ناکام کوشش کرتی تھی۔ پتہ نہیں یہ قدرت کی ستم ظریفی تھی یا مہربانی، کہ میرے پاس ذہن بھی تھا اور حسن بےمثال بھی۔ میں ہنستی بھی بےتحاشا تھی اور روتی بھی دھاروں دھار، بلکہ ہنستے ہوئے بھی میرے آنسو بہتے تھے۔
مجھے یاد ہے، میٹرک کے امتحانات کی داخلہ فیس دینی تھی اور ماموں صاحب حسبِ معمول، بحری جہاز پر سمندر سمندر بہتے تھے اور میں یہاں تِل تِل مرتی جیتی تھی۔ ان دنوں نازلی مامی نے اپنا موڈ اس قدر بگاڑ لیا تھا کہ میری فیس مانگنے کی ہمت ہی نہیں پڑتی تھی، پر اللہ بھی کیسا بے نیاز ہے؟ اور کیسے نہ کیسے انتظام کرا ہی دیتا ہے۔ رعنا نے میری زرد رنگت اور ڈبڈبائی آنکھوں کا بھید پا لیا تھا، سو خاموشی سے میری فیس ادا کر دی۔ جب اس نے ایڈمٹ کارڈ اور ڈیٹ شیٹ میرے ہاتھوں پر رکھی، تو شاید پہلی بار میں اس کے گلے لگ کر سرِ عام روئی تھی ورنہ میرے رونے کی ہمراز تو صرف میری تکیہ اور رات کی سیاہی تھی، جو بچپن ہی سے میری ہمراہی اور سہیلی بھی۔
گھر میں جب نازلی مامی کو پتہ چلا کہ، مجھے ایڈمٹ کارڈ مل گیا ہے تو انہوں نے قیات ڈھا دی کہ بھیک منگی نے ہم لوگوں کی ناک کٹوا دی، چار لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے جوگے نہیں چھوڑا، لوگ کیا کہیں گے کہ ہم لوگ بھانجی کا خیال نہیں رکھتے؟ ان کی بڑبڑاہٹ دو دن تک جاری رہی، مگر کمال کی بات ہےکہ اس بار ماموں خاموش رہے۔ یہ بات کسی عجوبے سے کم نہ تھی بلکہ سچ پوچھو تو معجزہ تھا۔ میٹرک میں میرا رزلٹ شاندار رہا۔ اب ماموں نے ممانی، سے چوری چوری میرا جیب خرچ بھی باندھ دیا تھا۔ حیران کُن بات یہ کہ میری ساری دوستیں بہت امیر تھیں، پر مجھے کبھی بھی اپنی کم مائیگی کا احساس نہیں ہوا۔
میری حیثیت ہمیشہ گروپ میں شہزادی جیسی ہی رہی، کچھ میں جامہ زیب بھی تھی کہ ململ بھی مجھ پر اطلس تھا۔ انہی حالات میں میں نے بی اے کر لیا۔ ممانی نے میرے لیے آنے والے ہر اچھے رشتے کو ٹھکرا دیا تھا۔ میں کالج کے زمانوں سے ریڈیو پر بزم ِطلبہ کے پروگرام میں شرکت کرتی آئی تھی، وہیں ریڈیو اسٹیشن پر مجھے ہفتہ وار فرمایشی پروگرام کی میزبانی کی پیشکش ہوئی اور میں نے فوراً قبول کر لی۔ میری لیے دیدہ و دِل فرشِ راہ کیے تو کئ جوان تھے، پر مخلصی سے ہاتھ تھام کر سر کو تحفظ کی ردا سے ڈھکنے والے بہت کم۔ جو تھے بھی ان کی والدہ کے لیے میں نا قابلِ قبول تھی، کہ گھر آتی تھی صرف خالی خولی لڑکی۔
جس کے ساتھ تھی نہ باڑی نہ گاڑی۔ نہ ہی میکے کا ٹھاٹ اور نہ ہی اونچے عہدوں کا سپورٹ، سو ایسے خسارے کا سودا بھلا کون کرتا؟ میرے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ، کہ آخر میرا ہو گا کیا؟ ان ہی دنوں مجھے اور میرے ریڈیو فیلو فرحان کو ائیر لائن میں نوکری مل گئی۔ اس نوکری سے زندگی میں پہلی بار، مجھے پیسے کی کچھ آسودگی نصیب ہوئی۔ فرحان کا بڑا بھائی نعمان، دفتر سے وآپسی پر فرحان کو پک کرنے آتا تھا۔ اکثر مجھے بھی ڈراپ کر دیتا تھا۔ معمول کی گپ شپ سے ہوتے ہوتے واپسی کے راستے میں کچھ دیر رُک کر، کھانے پینے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا اور چھ سات مہینوں کے بعد نعمان نے مجھے پرپوز کر دیا۔
اندھی کیا چاہے دو آنکھ۔ اچھی معقول فیملی تھی۔ نعمان بھی خوش شکل و خوش گفتار تھا۔ میں نے اسے ماموں سے ملنےکو کہا۔ باوجود نازلی مامی کی اگر مگر کے، ماموں نے نعمان کا رشتہ قبول کر لیا کہ، شاید وہ اپنی بیماری سے ڈر گئے تھے اور بہشت میں بہن کے آگے شرمندگی سے بچنا چاہتے تھے۔ شربت کے گلاس پر نکاح ہوا، اور میں خالی ہاتھوں ماموں کی دعا کے سہارے نئے آنگن میں بس گئ۔ میری سسرال اگر بہت اچھی نہیں تھی، تو بری بھی نہیں تھی۔ یہاں سب اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔ گھر میں ساس، سسر، دیور اور ہم میاں بیوی تھے۔ دو بیاہی نندیں بھی تھیں مگر ان کا آنا جانا کم کم ہی تھا۔
گھر میں پکانے کے لیے اور گھر کے بقیہ کاموں کے لیے دو ملازم تھے، سو گھر میں کوئی چخ چخ نہیں تھی۔ ساس اپنے نماز وظیفے میں مشغول اور سسر اخبار اور اسپورٹس چینل کے رسیا۔ شروع کے دو سال بہت اچھے گزرے پھر ہمارا پیسوں پر جھگڑا شروع ہو گیا کہ، نعمان کا اصرار تھا کہ گھر کے خرچے کی مد میں تم بھی شراکت کرو، سو میں تقریباً اپنی آدھی تنخواہ گھر کے خرچ کے نام پر دینے لگی۔ نعمان اب گھر اور میری ذات سے لاپروا ہونے لگے تھے۔ انہیں دنوں مجھے ماں بننے کی خوش خبری ملی، مگر نعمان کا مزاج بری طرح بگڑ گیا کہ اتنی جلدی کیا ہے ماں بننے کی؟ فقط دو ہی سال تو ہوئے ہیں شادی کو۔
ادھر میری طبیعت گرتی گئ، ادھر نعمان کے پیر کھلتے گئے۔ مجھے مختلف ذرائع سے، ان کی شہر میں مختلف لڑکیوں کے ساتھ اڑے اڑے پھرنے کی خبریں ملنے لگیں۔ جھگڑے آئے دن کا معمول بننے لگے تھے، اور نعمان نے اب گھر کے خرچوں سے کلی طور پر ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ اسامہ کی پیدائش نے حالات کو قدرے سنبھالا دیا کہ، میں میٹرنٹی لیو پر تھی اور ان کے ساتھ ہر جگہ جانے آنے لگی تھی، سو مجبوراً نعمان کو اپنی بیرونی سرگرمیاں کم کرنی پڑیں۔ اسی کھینچا تانی اور جھگڑے میں اسامہ پانچ سال کا ہو گیا اور اسکول جانے لگا۔ نعمان کی طرف سے دوسرا بچہ بالکل نو نو تھا، سو دل مار کر اسامہ پر ہی اکتفا کیا۔