Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Dil Rubaiyan O Kaj Adaiyan Dil Ki (1)

Dil Rubaiyan O Kaj Adaiyan Dil Ki (1)

دل ربائیاں و کج ادائیاں دل کی (1)

نام گم جائے گا

چہرہ یہ بدل جائے گا

میری آواز ہی پہچان ہے

گر یاد رہے

بھلا گلزار کی یہ دلنشیں نظم کس نے نہ پڑھی یا سنی ہوگی؟

میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ مجھے اس کا عملی تجربہ بھی ہوگا مگر وقت اور اس کی چالیں!

یہاں ایڈمنٹن میں گرمیاں کم ہی پڑتی ہیں اور اس سے بھی مختصر موسمِ بہار کی دلربائیاں۔ باوجود سردی کی طوالت کے شکر کہ ابھی بھی یہاں کے مکینوں کے دلوں میں خلوص کی گرمی اور گداز موجود ہے۔

وہ کرسمس کے بعد کے خاموش دن تھے جب میں نے گھر کی تنہائی اور سناٹے سے گھبرا کر بازار کا رخ کیا۔ بازار میں معمول کی رونق سے کچھ کم ہی چہل پہل تھی۔ مجھے بازار سے کچھ لینا لوانا تو تھا نہیں بس وقت کے کوہ گراں کو سہل انداز میں کاٹنا اور انسانوں کے قرب سے مستفید ہونا تھا۔ میرے آج کے ایجنڈے میں فوڈ کورٹ میں لنچ اور اس کے بعد لائبریری یاترا شامل تھی۔ میرے ہفتے بھر کا منظم و مربوط شیڈول ہوتا ہے، جس میں منگل اور جمعرات ہسپتال میں تین گھنٹے والنٹیئر ورک، ایک دن گروسری اور ایک دن ریپئیرنگ خواہ وہ کسی بھی قسم کی ہو۔

سو بچیوں کی دوری کے باوجود میری زندگی متحرک اور مفید انداز میں گزر رہی ہے۔ بازار میں پیپلز ڈائمنڈ کو اپنی انگوٹھی صاف کرنے دی اور انگوٹھی کی صفائی کے دوران مختلف شو کیسوں میں جھانکتی پھری۔ اسی تاکا جھانکی میں مدر آف پرل کی ایک انگوٹھی پسند بھی آ گئی۔ سیلز گرل سے اسے نکلوایا اور شوق سے پہن کر دونوں بیٹوں کو تصویر بھیج دی۔ منٹ سے بھی کم وقفے میں دونوں بیٹیوں کا کیپیٹل لیٹر میں لکھا NO آ گیا۔ سو ہنستے ہوئے انگوٹھی اتار کر شکریہ کے ساتھ سیلز گرل کے حوالے کی اور اپنی صاف شدہ انگوٹھی پہن کر مزید ونڈو شاپنگ کے لیے آگے بڑھ گئی۔

پیر کی لڑکھڑاہٹ اور پیٹ کی ہلچل نے وقت گزرنے کا احساس دلایا تو فوڈ کورٹ کا رخ کیا۔ فوڈ کورٹ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور تقریباً سارے ہی ٹبل پر فیملیز ہی تھیں۔ اپنی پسندیدہ فش اینڈ چپس لے کر مجبوراً کاونٹر کے ساتھ لگے بار اسٹول پر بیٹھنا پڑا۔ میرے پیچھے کی ٹیبل پر بیٹھی فیملی حلیے سے تو نہیں البتہ بشرے سے کچھ کچھ پاکستانی لگ رہی تھی۔ اللہ جانے ہماری طرف کے لوگوں کو اپنے خؤب صورت بالوں کو بلوند کرنے کی خواہش کیوں جب کہ وہ ہمارے کمپلیکشن کے ساتھ جاتے بھی نہیں۔ اللہ مجھے اس ججمنٹل ہونے کی عادتِ بد سے بچائے کہ کمبخت چھوٹتی نہیں ہے منہ کو کافر لگی ہوئی۔ میری پوری توجہ اپنی مچھلی کی طرف تھی اور ساتھ ہی ساتھ میں قریب بیٹھے بچوں کی معصوم باتوں کا مزہ بھی لے رہی تھی۔

اتنے میں ایک حسین سن رسیدہ عورت ایک تین چار سالہ بچے کا ہاتھ پکڑے پکڑے آئی اور کہا لو بھئی ناہید! موصوف فارغ ہو گئے۔ پھر وہ دونوں ینگ خواتین خاندان کی کسی شادی کو ڈسکس کرنے لگیں۔ پہناونیاں سے لے کر کھانے کے مینو تک کا بخیہ ادھیڑا گیا۔ لڑکیوں نے ماں کو بھی شریکِ غیبت کرنا چاہا پر اماں پہلو بچا گئیں اور کہا دفعہ کرو جو انہوں نے مناسب سمجھا وہ کیا۔ جس پر نارنجی سویٹر والی نے تڑخ کر کہا کہ کیوں امی! میری شادی پر تو ممانی نے ہمارے انتظامات اور میری بری میں سو سو کیڑے نکالے تھے؟

تو پھر تم بھی وہی کرو گی؟

پھر فرق کیا رہ گیا تم میں اور ان میں؟

ارے گولی مارو! دنیا تو کہتی ہی رہتی ہے۔ اللہ میاں نے دو کان کاہے کو دیے ہیں؟

سنو اور اڑا دو بس۔

ماں نے ہنس کر کہا اور ان کے اس جملے کی ادائیگی "گولی مارو" نے مجھے بے ساختہ پلٹ کر انہیں دیکھنے پر مجبور کر دیا۔ یہ آواز اور لہجہ بہت مانوس لگ رہا تھا۔ میری آنکھیں ان کی مسکراتی آنکھوں سے ٹکرائیں اور میں نے ہنس کر ہاتھ ہلا دیا۔ جواباً انہوں نے بھی ہاتھ لہرایا گو کہ ان کی دونوں بیٹیوں کو میرا یہ دیسی پنا ذرا نہ بھایا۔ جب میں اٹھنے لگی تو دیکھا کہ وہ اکیلی ہی اپنے نوزائیدہ نواسے کی نگرانی کے ساتھ ساتھ اپنے فون پر گیم کھیلنے میں مگن ہیں۔ میں شدید تذبذب میں تھی مگر دل نے اکسایا کہ پوچھنے میں کیا حرج ہے؟ زیادہ سے زیادہ انکار ہی کر دیں گی، کوئی کھا تو نہیں جائیں گی۔ میں ہمت کرکے ان قریب گئی اور باآواز بلند سلام کیا۔ انہوں نے سر اٹھاتے ہوئے پرجوش انداز میں جواب دیا۔

پاکستان؟ میرا اگلا سوال تھا۔

ہاں کراچی سے، انہوں مسکراتے ہوئے کہا۔

آپ۔۔ حوریہ چ۔۔ چ۔۔ ی

میرا مطلب ہے آپ مسز متین تو نہیں؟

وہ اس قدر فٹ اور فریش لگ رہی تھیں کہ میرے منہ سے ان کے لیے لفظ چچی نکلا ہی نہیں۔ ایک لمحے کو ان کی آنکھوں کی پتلیاں سکڑیں اور چہرے پہ تلخی کا سایہ پھیلا پھر اگلے ہی لمحے انہوں نے بشاشت سے مسکراتے ہوئے کہا ہاں میں ایکس مسز متین ہوں۔

تم کون؟

میں متین چچا کے سیکنڈ کزن، ابصار احمد کی بیٹی۔

او اچھا! تم حسینہ بھابھی کی بیٹی ہو، نگہت یا عطرت؟

میں ان کی چھوٹی بیٹی عطرت ہوں۔ میں ان کے حافظے پر دنگ تھی۔

انہوں نے سر تا پیر میرا ناقدانہ جائزہ لیا اور کہا کیوں بھئی! ابھی سے یہ بڑھاپہ کیوں اوڑھ لیا ہے؟

میں کیا کہتی بس کھسانی ہنسی ہنس کر رہ گئی۔ ہم دونوں کی عمروں میں شاید سات، آٹھ برسوں ہی کا فرق تھا اور اب میں اگر ان سے بڑی نہیں بھی تو ان کی ہم عمر ہی لگ رہی تھی۔

آپ ادھر ہی رہتی ہیں؟ میں نے بات بدل دی۔

نہیں میں ورجینیا میں ہوتی ہوں۔ یہاں ایڈمنٹن نواسے کی پیدائش پر انیلا کے پاس آئی ہوئی ہوں۔ انہوں پیار سے بچے کو دیکھتے ہوئے کہا۔

آپ کی بچیاں بھی ہیں ماشاءاللہ، مجھے پتہ نہیں تھا۔ اف! میں اور میرے احمقانہ سوالات۔ زبان کے پھسلتے ہی مجھے اپنے سوال کی نامعقولیت کا شدت سے احساس ہوا، پر تیر خطا ہو چکا تھا۔

انہوں نے غور سے مجھے دیکھا اور قدرے تلخی سے کہا، ہاں بھئی متین سے ایک بیٹا، عبدالمنان سے دو بیٹے اور راجا بھاسکرن سے دو بیٹیاں۔

شاید میری آنکھوں کی پھیلتی پتلیاں ان کی باریک بین نظروں سے پوشیدہ نہیں رہیں اور انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے کہ تم میرے دین کے بارے میں متفکر ہو یا کوئی فتویٰ جاری کرو تمھاری اطلاع کے لیے عرض ہے کہ بھاسکرن شادی کے وقت مسلمان ہو چکے تھے۔

نہیں نہیں چچ۔۔ ی یہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے۔

میری زبان لڑکھڑا گئی۔

ذاتی معاملہ! اس خاندان میں کچھ ذاتی رہنے دیا جاتا ہے؟

انہیں شاید بہت کچھ تلخ یاد آ گیا تھا۔

چھوڑو دفعہ کرو اپنی سناؤ؟

انہوں نے ایک دم سے موضوع بدلا اور میں نے بھی سکون کی سانس لی۔

میں نے مختصراً انہیں اپنی روداد سنا دی۔ انہوں نے میرے میاں حبیب کا مجھے پرسہ دیا اور دونوں بیٹیوں کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ ہم نے آپس میں ٹیلی فون نمبروں کا تبادلہ بھی کیا۔ میں نے انہیں اپنی طرف آنے کی پر خلوص دعوت دی مگر انہوں نے معذرت کر لی کہ کل ہی ان کی ورجینیا روانگی ہے۔

گھر آ کر میں دیر تک ان کی یادوں میں الجھی رہی۔ متین چچا کے ولیمے کا نیوتا ہمارے گھر بھی آیا تھا۔ امی بتاتی تھیں کہ بڑا شاندار ولیمہ تھا۔ ان دنوں جانے رواج نہیں تھا یا یہ شاید یہ ہمارے ہی گھر کا دستور تھا کہ سیانی ہوتی لڑکیوں کو شادی بیاہ کی تقریبات میں نہیں لے جایا جاتا تھا۔ ہم لوگوں نے متین چچا کا رشتہ طے ہونے کے بعد دلہن کے حسن کی بہت دھوم سنی تھی اور مارے شوق کے ہم دونوں بہنیں ولیمے پر جانا بھی چاہتی تھیں مگر کاہے کو امی لے جاتیں؟ ان کی ایک ٹیڑھی نظر ہی ہم لوگوں کا دم نکالنے کے لیے کافی ہوتی تھی۔ میں نے حوریہ چچی کو پہلی بار اپنی چھوٹی پھوپھی کی شادی پر دیکھا تھا۔

 

Check Also

Christmas

By Javed Chaudhry