Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Dhool (1)

Dhool (1)

دھول (1)

وہ میری "اس" سے دوسری ملاقات تھی، نہیں ٹھہریے کیا اُسے ملاقات کہا جا سکتا ہے؟

"اس" کی بھابھی سے میری، میں یعنی عمارہ سے محض رسمی سی شناسائی تھی، کوئی دوستانہ نہ تھا۔ کسی محفل یا تقریب میں مل گئے تو علیک سلیک ہوگئی بس اتنا ہی سا تعلق تھا ہمارا۔ پردیس کی بھاگتی دوڑتی زندگی میں گھڑی کے ساتھ ریس لگی رہتی ہے۔ گھر، بچے اور ملازمت کی اس تکون میں کم از کم میرے پاس سوشل گیدرنگ کے لیے کوئی زاویہ بچتا ہی نہ تھا۔

اُس دن دفتر میں، ہم بمشکل لنچ سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ میری سہیلی رعنا کے فون پر "اس" کی بھابھی کا فون آیا اور میں بھی اپنے باس کو مطلع کرتی ہوئی ہڑبڑا کر رعنا کے ساتھ "اس" کی بھابھی کے گھر چلی آئی۔ وہاں لوگوں کا ازدحام تھا۔ رش میں راستہ بناتے ہوئے، میں نے زندگی میں دوسری بار اسے دیکھا اور زندگی سے عاری دیکھا۔ میں ٹھٹھک کر رک گئ، وہ کفن میں لپٹی انتہائی پرسکون تھی۔ ایک ہلکی سی مسکراہٹ اس کے زرد چہرے کا احاطہ کیے ہوئے تھی۔ اس نے طویل اور تکلیف دہ بیماری جھلیی تھی۔ اپنے پیچھے وہ اتنی ذمہ داریاں چھوڑے جا رہی تھی، پھر بھی اتنی شانت، اتنی پرسکون کیسے؟

میں نے رعنا سے اس کی علالت کے متعلق کافی کچھ سنا تھا۔ "وہ" میری کوئی نہ تھی، مطلق اجنبی مگر اس کی موت نے مجھے ہلا کر رکھ دیا تھا بلکہ جو سچ کہوں تو میں دہشت زدہ بھی۔ میں کسی بھی تدبیر سے اس کا زرد چہرہ اپنی یادداشت سے جھٹک ہی نہیں پا رہی تھی۔ جتنا جتنا اس کے سگے اسے بھولتے گئے اتنا اتنا ہی وہ میرے اعصاب پر سوار ہوتی گئی۔ میں رعنا سے کرید کرید کر اس کے متعلق پوچھتی پھر پہروں گھٹتی اور پچھتاتی۔

بڑی عجیب بے بس سی کہانی تھی اس تہی دست کی۔

اب مجھے یاد آتا ہے کہ برسوں پہلے ایک عزیز کے گھر میں نے اسے عید ملن کی تقریب میں دیکھا تھا۔ وہ بڑی نازک اور کامنی سی تھی۔ پستہ قد اور سانولی رنگت۔ اس کی واحد خوبصورتی اس کے سیاہ ریشمی گھنے اور دراز بال تھے۔ اس کا نام حدیقہ تھا۔ وہ نئی دلہن تھی لہذا سر سے پاؤں تک نک سک سے سجی ہوئی آراستہ پیراستہ۔ اس کے لہجے میں حقیقی خوشی کی کھنک تھی۔ اس کی نئی نئی شادی کا پتہ چلنے پر ڈرائنگ روم میں مبارک سلامت کا غلغلہ بلند ہوا۔ اُسے کراچی سے آئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا اور نئے نئے آنے والوں کی خوشی اور چہک اس کے روم روم سے ہویدا تھی۔ نئے سیٹ اپ میں اپنی جگہ بنانے کے چکر میں وہ ہر سرکل میں چکراتی پھر رہی تھی۔ وہ کراچی کے کسی غیر معروف میڈیکل کالج سے سند یافتہ تھی اور یہاں کینیڈا میں اس کا ڈاکٹری کا امتحان دینے کا ہر گز ہر گز کوئی ارادہ نہ تھا۔ فلحال تو وہ ہنی مون فیز میں تھی اور بری طرح غرق تھی۔ اُسی ظالمانہ و کافرانہ موسم کے نشاط میں غلطاں جب ساون کے اندھے کو ہر سمت ہرا ہی ہرا دکھتا ہے۔

جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو

اے جانِ جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو

مجھ پر اس کا تاثر محض ایک خوش باش، جزباتی اور سطحی لڑکی کا سا تھا کہ دوران گفتگو "میں" بکثرت مستعمل تھا۔

میں اپنی مصروف زندگی کی بھگڈر میں اسے کب کا بھول چکی تھی۔ رعنا سے پتہ چلا کہ حدیقہ کی شادی بھی پوری لولی وڈ فلم تھی۔ یہ لوگ یورپی کے نستعلیق اردو بولنے والے نجیب الطرفین سید اور لڑکا، تین بہنوں کا اکلوتا بھرا، بیوہ ماں کا اکلوتا سپوت، پنجاب دا پتر، راجپوت۔ ذات، قومیت اور کلچر کا تضاد پھر ملن کی صورت کیوں کر ہو؟

لڑکے یعنی فیضان کی اماں اور بہنیں ایک پارٹی اور لڑکا اکیلا۔ ادھر حدیقہ کے ماں باپ نے جب یہ گمبھیر صورت حال دیکھی تو وہ بھی بدک گئے اور بیٹی کو بہت سمجھایا کہ اتنی تندئی مخالف میں اس کا محبت بھرا آشیانہ نہیں بسنے والا۔ پر وہ محبت ہی کیا جو امتحان نہ لے۔

اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر جانا ہے

سو حدیقہ اور فیضان کے سچے جزبوں کے کچے گھڑے نے جیت لی ندی چڑھی ہوئی۔

دولہا دلہن دونوں کی والدہ محترماؤں نے شادی کا ٹوٹل بائیکاٹ کیا پر اپنی محبت، زور بازو اور دوستوں کی مخلصی کے دم پر نئے جوڑے نے اپنا گھروندا آباد کر ہی لیا۔ عرصے تک دونوں کی ماؤں کا منہ پھُلوّل چلا پر کب تک؟ کبھی ناخن اور گوشت بھی علیحدہ ہوئے ہیں؟

فیضان اکیلے ماں سے ملنے جاتا رہا، ماں مسلسل اسے جھٹکتی اور دھتکارتی رہیں پھر ممتا ہار گئ۔ ماں بھی بھلا کبھی اولاد سے جیت سکی ہے؟

بیٹے کے لیے بانہیں وا کرنے والی ماں ابھی بھی سخت دل ساس تھیں اور حدیقہ کو ان کی چوکھٹ پار کرنے کی اجازت نہ تھی۔ حدیقہ کے گھر والوں نے بھی بالآخر صبر شکر سے اس شادی کو قبول کرکے بیٹی کو گلے لگا لیا۔

نو سال کے عرصے میں حدیقہ اور فیضان کے گھر اللہ کی تین رحمتوں کا نزول ہوا۔ دونوں میاں بیوی کی محبت بھرپور اور توانا تھی اور وہ بڑی لگن و جتن سے اپنے کنبے کی آبیاری میں دن رات بھلائے بیٹھے تھے۔ بڑی بیٹی رائمہ اسکول جانے لگی تھی۔ دونوں چھوٹی آئمہ اور ناعمہ گھر ہی پر ہوتیں۔ حدیقہ محبت سے گڑھی مورت تھی جس کی پور پور سے محبت چھلکتی۔ وہ کلّی طور پر فیضان اور تینوں بچیوں پر نثار تھی۔ ان کا گھرانہ محبت کی چاشنی سے لبریز گھرانہ تھا۔ ابھی ناعمہ سال کی بھی نہ ہوئی تھی کہ پھرتیلی حدیقہ تھکنے لگی، سست پڑنے لگی۔ ڈاکٹروں کے کروائے گئے ٹسٹ کے نتیجے نے ہنسوں کے جوڑے پر بجلی گرا دی۔ حدیقہ کو پستان کا کینسر تشخیص ہوا۔

ک۔ ی۔ ن۔ س۔ ر۔۔ یہ لفظ ہی اتنا بھاری اور ظالم ہے کہ انسان کی سوچنے سمجھنے اور سنبھلنے کی قوت ہی سلب کر لیتا ہے۔ مضبوط سے مضبوط اعصاب والے بھی اس جھٹکے پر لڑکھڑا جاتے ہیں۔ پہلے حدیقہ پھر فیضان اس صدمے سے باہر آئے اور ایک دوسرے کا ہاتھ مضبوطی سے تھام کر علاج کے کڑے اور جاں گسل مرحلے سے سرخ رو پار لگے۔ اس حادثے نے فیضان کی ماں کے دل کو ایسا موم کیا کہ ان چاہی بہو، من چاہی ہوئی۔ ساس اپنا گھر بار چھوڑ کر بیٹے بہو کے گھر آکر رہنے لگیں اور اس لگن سے بہو کی خدمت کی کہ حدیقہ کی ماں بھی پیچھے رہ گئیں۔ دونوں کی ماؤں نے مل کر گھر سنبھال لیا اور ان کی دعاؤں اور فیضان کی محبت کے طفیل، حدیقہ نے مہلک بیماری کو شکست دی اور کینسر فری کے سرٹیفکیٹ سے فیض یاب ہوئی۔

حدیقہ نئی زندگی پاتے ہی اپنی پوری توانائی سے اپنے بچوں اور گھر میں منہمک ہو گئ۔ ظاہر ہے جسے موت نے چھوا ہو اس سے بڑا زندگی کا قدر دان اور کون؟ اس نے اپنی صحت کی خوشی کو بڑے پیمانے پر سیلیبریٹ کیا۔

پر خوشیوں میں بس ایک ہی خرابی ہے کہ ظالم بڑی عارضی ہوتیں ہیں۔ حدیقہ فقط تین سال ہی صحت مند رہی۔ اس بار بیماری کا حملہ پیٹ پر تھا اور پوری شدت سے تھا۔ ڈاکٹروں نے نفی میں سر ہلا دیا کہ وقت بہت کم ہے۔ حدیقہ کی مختصر سی زندگی میں، مختصر ترین مہلت تھی۔ کرنے کے کام بہت اور وقت کی قلت۔ یہ تیزی سے گزرتے وقت کو پکڑنے کی سعی تھی۔ ماہر تیراک جانتے ہیں کہ بہاؤ کے مخالف تیرنا کیا معنی رکھتا ہے۔ کچھ ایسی ہی حالت حدیقہ کی بھی تھی۔ حدیقہ نے اس مختصر ترین وقفے میں بڑی دور رس منصوبہ بندی کی۔ کچھ معاملات میں فیضان سے اختلاف بھی ہوا بالآخر فیضان کو ہتھیار ڈالتے ہی بنی۔

" ایک مرتی ماں کی فریاد "سوشل میڈیا پر اس کھلے خط کا بڑا چرچا رہا اور شہر بھر میں تھرتھری مچ گئی۔ اس فریاد کے جواب میں حدیقہ کے پاس سینکڑوں خطوط آئے اور حدیقہ نے بہتیرے انٹرویوز بھی کیے۔ ان سیکڑوں خطوط میں ایک پژمردہ، پیلا لفافہ ایسا بھی تھا جو بہت دور کے براعظم سے آیا تھا اور وہی خط حاصلِ تلاش بھی۔ حدیقہ کو وہ خط تحریر کیا تھا فیصل آباد سے فوزیہ نے۔

اب فوزیہ کون ہے؟

فوزیہ، فیضان کی پھوپھی زاد اور اس سے بھی بڑی بات یہ کہ فیضان کی بچپن کی منگ بھی۔ حدیقہ اور فوزیہ کی فون پر لمبی لمبی گفتگو رہی اور جانے کتنی کوششوں سے بالآخر حدیقہ اسے یہاں بلانے میں کامیاب رہی۔ فوزیہ وزٹ ویزے پر کینیڈا آئی اور حدیقہ اور فیضان کے گھر تین ماہ قیام کیا۔ حدیقہ کو کمپنی دی اور تینوں بچیوں کی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے اٹھا لی۔ خوب صورت اور پڑھی لکھی فوزیہ جس نے نہ صرف بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کیا تھا، بلکہ مقامی کالج میں لیکچرار بھی تھی۔ گو فیضان اسے پندرہ سال پہلے ٹھکرا چکا تھا مگر اڑیل دل کا کیا کیا جائے کہ بچپن سے جس نام پر بندھ گیا تھا۔ اسی کی تال پر دھڑکتا رہا۔ وہ محبت کی ماری فیضان اور اس کی تینوں بچیوں کو دل سے اپنانے پر راضی تھی۔ گو اس کے اس فیصلے نے اس کی ماں اور بھائیوں کو نا خوش و ناراض کیا مگر یہ دل یہ پاگل دل میرا۔

کیا کیا جا سکتا ہے کہ دل کے کھیل نیارے۔

Check Also

Siyah Heeray

By Muhammad Ali Ahmar