December Ka Akhri Hafta
دسمبر کا آخری ہفتہ
دسمبر کا آخری ہفتہ ہمیشہ سے میرا پسندیدہ رہا ہے۔ جب خود طالب علم تھے تو سردیوں کی چھٹیاں دل کو گرماتی تھیں۔ جب میری بچیاں اسکول جانے لگیں تو ان کا سویرے سویرے سردی میں اسکول جانا دل کو تڑپاتا تھا۔ خاص طور پر جب سے بتول اور یسرا کو سانس کی تکلیف شروع ہوئی تھی، میری سردیاں انہیں ٹھنڈ سے بچانے کی تدابیر ہی میں گزرا کرتی تھیں۔ سردیوں کی چھٹیوں میں یہ احساس ہی پر سکون رکھتا کہ اب بچیاں آرام سے اٹھیں گی اور ٹھنڈ سے بچی رہیں گی۔
ان کی چھٹیوں کے سبب ہم بھی فجر پڑھ کر دوبارہ لحاف کی گرمائش کی عیاشی کر سکتے ہیں۔ ویسے کراچی میں ہوتا عین اس کے برعکس ہی تھا۔ سردی کی چھٹیوں میں درجہ حرارت معتدل اور چھٹیاں ختم ہوتے ہی دبا کے ہڈیوں میں اتر جانے والی کویٹہ ونڈ کی آمد۔ سردیوں کی چھٹیوں میں تقاریب، خاص کر شادیوں کی رونق ہی الگ ہوتی کہ ماں باپ تقریب سے لطف اندوز ہوتے کہ اگلے دن بچوں کے اسکول کی ٹینشن نہیں ہوتی تھی۔
میرے ان ایام کو پسند کرنے کی ایک اور وجہ پیٹ سے بھی جڑی ہوئی تھی۔ وہ تھی بکثرت تازہ سبزیوں کی فراہمی، تازہ مٹر، نیا آلو اور میری پسندیدہ سیم اور پھر پائے کھانے کا سیزن بھی یہی سردیاں۔ جی بھر کر ڈرائی فروٹ اور کافی سے لطف اندوز ہونے کا حسین موسم بھی یہی۔ جب تک کراچی میں تھے یہی وجوہات تھیں دسمبر کے آخری ایام میں خوش ہونے کی۔
جب کیلگری آئے تو یہاں دسمبر کا نیا روپ دیکھا۔ کرسمس کی بے پناہ سجاوٹ اور اس سے بھی بڑی بات کہ عمومی طور پر ایک خوشی کا احساس۔ ان ایام میں یہاں ہر آدمی خوش و خرم نظر آتا ہے۔ ہم اکثر دسمبر کے دوسرے یا تیسرے ہفتے، جب درجہ حرارت شدید نہیں ہوتا تو شاپنگ مال جاتے اور بیچ کوریڈور میں سجے کسی آرام دہ صوفے پر قبضہ علی امام کر لیتے۔ نہ بھئی نہ شاپنگ نہیں کرتے، کہ نہ لینا ایک نہ دینا دو۔ ہمیں تو بس مال کی چکا چوند، سجاوٹ اور گہما گہمی بہت مرغوب ہے۔
لوگوں کو شاپنگ بیگ اٹھائے اٹھائے پھرتے دیکھنا، خوشی سے چمکتے چہرے اور چہکتے لہجے، سننا اور دیکھنا بہت بھلا لگتا۔ کسی بھی دکان میں سب سے پہلے جو حصہ خالی ہوتا وہ ہے بچوں کے کھلونوں کا۔ لوگ ہاتھوں میں لمبی لمبی لسٹ پکڑے دیوانہ وار بچوں کے aisle میں سرگرداں پھر رہے ہوتے ہیں۔ گو اب آن لائن شاپنگ بہت زیادہ مروجہ، اس کے باوجود بازاروں میں بہت رش ہے۔ شاپنگ مال اور فوڈ کورٹ میں لوگوں کی گہما گہمی دیکھ کر زندگی کا احساس ہوتا ہے۔ خوش باش چہروں کی خوشی اور ہنسی خاصی contagious ہوتی ہیں اور یہ آپ کو تحریک اور توانائی فراہم کرنے کا باعث بھی بنتی ہے۔
چوبیس دسمبر کو بازار ہاٹ سب پانچ بجے تک مکمل طور پر بند ہو جاتے ہیں۔ یہاں پاکستان کی عیدین کی طرح چاند رات کو ساری رات مال کھلا نہیں رہتا۔ شام سے رات گئے تک خالص فیملی ٹائم ہوتا ہے اور سب مل کر بہت اہتمام سے رات کا کھانا کھاتے ہیں پھر خوش گپیوں کا دور چلتا۔ اس کے بعد رات بارہ بجے ماس، یعنی عبادت کے لیے چرچ میں جمع ہوتے ہیں۔ پچیس کی صبح غیر معمولی خاموشی ہوتی ہے۔ اتنی جامد خاموشی کہ آپ اسے محسوس کر سکتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب سب گھر والے اور خاص الخاص لوگ مل کر ایک دوسرے کو دیا گیا تحفہ کھولتے اور خوشی اور تشکر سے سرشار ہوتے ہیں۔ لنچ کے وقت سے سڑکیں دوبارہ پر رونق ہو جاتی ہیں مگر بازار پچیس کو بھی بند ہی رہتے ہیں۔
ایک روایت جو ہمیں بہت زیادہ پسند ہے، وہ ہے"دینے" کی۔ کرسمس میں کثرت سے ڈونیشن دی جاتی ہے۔ مختلف مقامات طے کر دیئے جاتے ہیں جہاں ڈونیشن جمع کی جاتی ہے۔ بازار، فائر بریگیڈ اسٹیشن اور مختلف جگہوں پر تحائف کا انبار جمع ہو جاتا ہے جو پچیس سے پہلے پہلے تقسیم بھی کر دیا جاتا ہے۔ اسکول میں بچوں کو بڑھاوا دیا جاتا ہے کہ مفلوک الحال بچوں کے لیے بڑھ چڑھ کر سامان لائیں۔ عموماً موزے کے جوڑے میں چھوٹی چھوٹی چیزیں مثلاً گفٹ کارڈز، چیپ اسٹک، ویزلین، نیل کٹر، ریزر۔
ڈی اوڈرنٹ، پین اور اسی طرح کی ضروریات زندگی کی چھوٹی چھوٹی چیزیں اس موزے میں بھر دی جاتی ہیں اور کرسمس سے پہلے یہ بھی ضروت مندوں تک پہنچا دی جاتی ہیں۔ چوبیس اور پچیس دسمبر کو شیلٹر ہومز اور اسی طرح کے دوسرے خیراتی اداروں میں کھانے کا مینیو بہت زبردست ہوتا ہے۔ یونیورسٹی، چرچ اور مساجد کا ایک بہت اچھا پروگرام ان طالب علموں کے لیے، جن کا شہر میں کوئی اپنا نہیں ہوتا۔ مقامی لوگ ان کی تنہائی کو دور کرنے کے لیے اپنے دل اور گھر کے دروازے ان پر وا کر دیتے ہیں اور کھلے دل سے ان طالب علموں کی میزبانی کرتے ہیں۔ یہ بڑی خوب صورت روایت ہے اور اس کا انعقاد عید کے موقع پر بھی کیا جاتا ہے۔
سردیوں کی چھٹیوں کا ایک ایڈونچر، لمبی ڈرائیو بھی کہ دور دراز کے محلوں کی سجاوٹ اور رنگ برنگی لائٹ دیکھنا من پسند اور ڈاؤن ٹاؤن یاترا تو لازمی ہی ہے۔
چھبیس دسمبر کو باسنگ سیل ہوتی اور صبح چھ سات بجے ہی بازار کھل جاتے اور عوام ٹوٹی پڑتی ہے۔ بازاروں میں وہ رش کے الاماں الاماں۔
جب ہم کیلگری آئے تو شروع شروع کے دو تین سال تک لگاتار چھبیس دسمبر کو باسنگ سیل پر میرا جانا لازمی تھا کیوں کہ اس سیل میں اچھی بچت ہو جاتی تھی۔ ہمیں یاد ہے ہم نے اپنی پہلی سلائی مشین باسنگ ڈے سیل پر ہی لی تھی۔ بتول نے پہلے ہی فلائر میں مارک کر لیا تھا کہ ہم لوگوں کو کیا کیا خریدنا ہے۔ فجر پڑھتے ہی ہم اور بتول پیدل ہی coop چلے گئے تھے اور سیلائی مشین لے کر آئے تھے۔ سلائی مشین خرید کر میرا خوشی سے برا حال تھا۔
میری پیاری بتول نے ہمیں راستے بھر مشین اٹھانے نہیں دی تھی اور سارے راستے اسی نے مشین اٹھائی تھی۔ بتول، اللہ تمہارے درجات بلند فرمائے اور دنیا میں اٹھائی گئی ہر سختی کا تمہیں بے حساب اجر عطا فرمائے آمین ثمہ آمین۔ ہم نے سب سے پہلے اس مشین پر بتول کی سالگرہ کے لیے پستئی رنگ کی کرتی اور اسکرٹ سی تھی۔ کس قدر خوش ہوئی تھی وہ اس جوڑے کو پہن کر۔ اس نے جوڑے کے ساتھ گلے میں پوتھ کا چوکر بھی پہنا تھا۔ نا قابل یقین حد تک خوب صورت لگ رہی تھی وہ اس دن۔
سفید کرسمس گوروں کی کمزوری ہے۔ یہاں شاز و نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ سفید کرسمس نہ ہو۔ پچیس دسمبر تک ہر جگہ برف سے ڈھک چکی ہوتی ہے۔ شکر ہے کہ شدید سردی کا دورانیہ فلحال اب ختم ہوا اور کل سے درجہ حرارت ان شاءاللہ مثبت ہو جائے گا۔ الحمدللہ
میرا دسمبر کی چھٹیوں کا سب سے خبطی شوق، کرسمس سے متعلق رومینٹک کامیڈی فلمیں دیکھنا ہے۔ ہر کرسمس کی فلم میں آخری سین میں برفباری ضرور ہوتی ہے۔ کراچی میں بھی ہم یہ فلمیں بہت شوق سے دیکھتے تھے اور تب برفباری اس قدر رومینٹک لگا کرتی تھی کہ حد نہیں۔ اب یہاں تو حقیقی آنکھوں سے مستقل برف باری دیکھتے ہیں، ہلکی بھی اور شدید بھی مگر پھر بھی برفباری کی فسوں کاری ہنوز قائم ہے۔ خاص طور پر رات میں ہوتی برف باری بڑی سحر انگیز لگتی ہے۔ کھڑکی کے شیشے سے ٹکراتے اسنو فلیکس، اسٹریٹ لائٹ کی روشنی میں پگھل کر ہیرے کی کنی لگتے ہیں۔
کرسمس کی روم کوم فلمیں عموماً بہت ہی بے کار ہوتیں ہیں مگر جانے کیوں ہمیں اچھی لگتی ہیں۔ کل دیکھی تھی
Something from Tiffany
ایک دم بے کار فلم تھی۔
The Noel Diary، was good
۔ Serendipity، Home alone
بہت پرانی فلمیں اور کئی مرتبہ کی دیکھی ہوئیں بھی بلکہ اب تو ہوم الون کا بچہ کیون بھی جوان ہوگیا ہے مگر ہم اب بھی یہ فلم انجوائے کرتے ہیں۔
Castle for Christmas
ایسی ہی اوسط فلم تھی۔
البتہ Roman Holiday
Sleepless in Seattle
میری پسندیدہ فلمیں ہیں اور ہر چھ آٹھ مہینے پر ہم یہ دونوں فلمیں اکثر دیکھتے ہیں۔
تو دوستوں فلحال ہم بالکل فارغ موڈ میں چل رہے ہیں اور اتنے chill ہیں کہ اولی بولی فلمیں بھی انجوائے کر رہے ہیں۔