Atma Samarpan (2)
اتما سمرپن (2)
نواب صاحب بلاشبہ ہیرو آف ٹائیگر پاس تھے۔ اس ریسکیو آپریشن کا سہرا، نیوی کے کمانڈر اسلم اور بیس بلوچ ریجمنٹ کے کپتان حفیظ کے سر جاتا ہے، جنہوں نے کئی گھنٹوں کی جہدوجہد کے بعد ڈھاکہ ہیڈ کوارٹر سے اس آپریشن کا اجازت نامہ حاصل کیا اور یہ ریسکیو آپریشن کامیاب ہوا ورنہ شاید وہاں کوئی غیر بنگالی زندہ نہ بچتا۔ چاٹگام میں سب لوگ نقل مکانی کر رہے تھے، اردو بولنے والے تحفظ کے خیال سے ایسے علاقوں میں منتقل ہو رہے تھے جہاں غیر بنگالیوں کی کثرت تھی اور بنگالی اس غیر یقینی صورتحال میں اپنی رہائش کے لیے اپنے اکثریتی علاقوں کو ترجیح دے رہے تھے۔
ابا جان سترہ مارچ کو اپنے خاندان کو سمیٹ کر سگن باغ منتقل ہو گئے۔ بنگلہ نمبر E5 اپنے مالک کے دل ہی کی طرح کشادہ اور با ظرف تھا۔ وہاں ہم لوگوں کے علاوہ بھی چار پانچ خاندان پناہ گزین تھے۔ وہ بڑا خوفناک زمانہ تھا۔ گھر میں موجود جوان لڑکے اور مرد رات رات بھر ہاتھوں میں سریا، کلہاڑی یا بٹکی داؤ لیکر پہرا دیا کرتے اور گھر میں موجود لڑکیاں اور خواتین مرکزی کمرے میں تاریکی میں بت کی مانند بیٹھی زیر لب دعائیں پڑھتی رہتیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ دہشت کے باعث چھوٹے چھوٹے بچے رونا اور ضدیں کرنا بھی بھول چکے تھے۔
پانی کی ترسیل کاٹ دی گئی تھی لہٰذا گھر میں مقیم جوان جتھے کی شکل میں قریبی تالاب سے ضرورت بھر پانی بھر لاتے جیسے بہت ہی کفایت سے خرچ کیا جاتا۔ کھانے کی بھی تنگی تھی کہ بازار ہاٹ سب بند تھا اور گھر میں موجود راشن تیزی سے ختم ہو رہا تھا سو چچا نے کھانے کی راشن بندی کر دی تھی۔ سب کو دوپہر اور مغرب سے پہلے ایک درمیانی پلیٹ پتلی کھچڑی کی ملتی اور ہم بچوں کو صبح ایک مٹھی، چنا یا چوڑا بھی دیا جاتا۔ رات میں بتی اشد ضرورت کے تحت بھی نہیں جلائی جاتی تھی۔
آم باغ میں انیس سو پچاس میں پہلی بار زمین کا ٹکڑا کسی مقامی سے انضر ملک صاحب نے خریدا اور پھر بہت خوب صورت بنگلہ تعمیر کروایا، اس کے بعد یہاں کثرت سے بہاری ملک برادری نے گھر تعمیر کر کے بسنا شروع کر دیا، یہاں تک کہ یہ علاقہ ہی ملک پٹی کہلانے لگا۔ انیس سو باون میں یہاں ایک بہت شاندار اردو میڈیم اسکول تعمیر کیا گیا۔ اس اسکول کا افتتاح بنگال کے گونر نے کیا اور اسکول کا نام ان کے نام پر سردار بہادر اسکول رکھا گیا اور ساتھ ہی ساتھ ملک پٹی بھی سردار بہادر نگر کہلانے لگی۔ وہ اسکول آج بھی قائم ہے اور وہ علاقہ اب بھی سردار نگر کہلاتا ہے۔
تئیس مارچ کا دن جو ہر سال خوشیوں بھرا دن ہوا کرتا تھا اور جیسے ہم پاکستانی بڑے ولولے اور جوش سے منایا کرتے تھے۔ تب ہر عمارت پر پاکستانی پرچم لہرایا کرتا تھا مگر آج کہیں ڈھونڈے سے بھی پاکستانی پرچم نظر نہیں آ رہا تھا۔ چچا نے بھی حفاظت کے خیال سے اپنے بنگلے پر بنگلہ دیش کا پرچم لہرایا کہ اس دور پر آشوب میں بنگلہ دیشی پرچم حفاظت کی ظمانت تھا۔ بنگلہ دیش کا پرچم اپنی آنکھوں کے سامنے لہراتا دیکھنا بڑا ہی دل خراش اور عبرت انگیز منظر تھا۔
ڈھاکہ میں پچیس مارچ کے "آپریشن سرچ لائٹ" نے بظاہر بغاوت کچل دی تھی مگر یہ دیکھاوے کا امن صرف ڈھاکہ ہی تک محدود تھا کہ بنگال کے چھوٹے شہروں میں باغیوں نے پاکستانی محبان وطن کے خلاف کھل کے کاروائی شروع کر دی تھی۔ چاٹگام میں وسط اپریل سے پاکستان آرمی کی مسلسل پٹرولنگ کی وجہ سے ماحول کی کشیدگی قدرے کم تھی اور صورت حال بظاہر معمول پر آ رہی تھی۔ ابا جان بھی دفتر جانے لگے مگر وہ بھی سب کی طرح جلد ہی گھر وآپس لوٹ آتے تھے۔
زیادہ تر باغی یا تو انڈر گراؤنڈ ہو گئے تھے یا پھر سرحد پار کر کے ہندوستان چلے گئے تھے۔ ہم لوگ اب سگن باغ سے جھاؤ تلہ منتقل ہو چکے تھے۔ یہاں سے بنگالی باشندے آہستہ آہستہ نقل مکانی کر رہے تھے کہ جھاؤ تلہ بہاری اکثریتی علاقہ تھا۔ یہاں سے الیاس خان صاحب جو بنگالی تھے اور بنگالی اکثریتی علاقے میں منتقل ہونا چاہ رہے تھے، ابا جان نے الیاس خان صاحب اور CBR سے کہہ سن کر باہمی رضا مندی کے تحت عارضی طور پر الیاس خان صاحب کے مکان میں سکونت اختیار کرلی۔
راشن کی سخت قلت تھی کہ راستے سارے بند تھے سو ہر چیز ناپید تھی۔ اس چلتے پاکستان آرمی نے غلے کے گوداموں کا تالا توڑ دیا اور لوگوں نے وہاں سے ضرورت بھر اناج لوٹ لیا۔ ان دنوں حالات بہت خراب تھے اور شمالی بنگال سے لٹے پٹے، زخمی غیر بنگالی چاٹگام اور ڈھاکہ کا رخ کر رہے تھے۔ گھر کے مردوں کی زندگیاں بہت محدود تھیں، دفتر سے جلدی وآپسی کے بعد قریبی بہاری محلے تک جا کر حالات حاضرہ سے آگہی اور مستقبل کی منصوبہ بندی کی جاتی۔ افواہ کا بازار گرم تھا اور شاہ ولی اللہ اور نوسٹرا ڈیمس کی پیشنگوئیاں بھی زبان زدِ عام تھیں۔
ایک دن ابا جان دفتر سے بہت مغموم وآپس آئے اور اماں کو بتایا کہ چیف میکینکل انجینئر اشفاق ملک اور یاسین ملک کی لاشیں مل گئی ہیں۔ دراصل ان دونوں صاحبان کو ایسٹ پاکستان رائفلز کے باغیوں نے ان کے گھروں سے اغواء کر کے گولی مار دی تھی۔ ایسٹ پاکستان رائفلز کے باغیوں نے اپنے ہی ساتھیوں جو پاکستان کے ہمنوا تھے، انہیں اور ان کے پورے کے پورے خاندان کو انتہائی بے دردی سے ذبح کر کے شہید کر دیا تھا۔
جون سے حالات مزید بگڑ گئے اور ان حالات کو دیکھتے ہوئے دور اندیش لوگ اپنے خاندان اور کاروبار کو مغربی پاکستان منتقل کر رہے تھے مگر کچھ سادہ لوح اسی گمان میں تھے کہ سب کچھ پہلے کی طرح نارمل ہو جائے گا۔ دس نومبر کی صبح سڑک کے کنارے دو نا معلوم افراد کی لاشیں پڑیں تھی جس نے پورے محلے میں ہراس پھیلا دیا تھا، دن چڑھے آرمی کی جیپ آئی اور انہوں نے ہاتھوں کے اشارے سے خون کا بدلہ خون کی ترغیب دی۔
محلے کے چند پرجوش اور بد عقلوں نے قریب کی بستی کیلا باگان سے چند مفلوک الحال، بے ضرر بنگالیوں کو پکڑ کر ذبح کر دیا اور اپنے تئیں انصاف کر کے محلے میں چوڑے ہو کر گھومتے رہے۔ مرنے والوں میں کوئی قلی، تو کوئی سبزی فروش اور کوئی سائیکل رکشے والا تھا۔ ابا جان اس واقعہ پر بہت افسردہ تھے، ان کا کہنا تھا یہ نری دیوانگی ہے، بھلا کبھی نفرت، نفرت سے ختم ہوئی ہے؟ ویسے بھی رمضان کا آخری عشرہ تھا اور اس متبرک مہینے کی حرمت میں بھی آدمی، انسان نہیں بن سکا تھا۔
بیس نومبر کو زندگی کی اداس ترین عید الفطر منائی گئی۔ وائرلیس جامع مسجد میں سنگینوں کے سائے میں عید کی جماعت ادا کی گئی۔ سرحدوں پہ جنگ شروع ہو چکی تھی اور تین دسمبر سے جنگ کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔ چار دسمبر کو ہماری فضائیہ نے جم کر ہندوستانی ائیر فورس کا مقابلہ کیا مگر اس کے بعد ہماری فضائیہ غیر فعال ہوگئی کہ رن وے بری طرح تباہ کر دیے گئے تھے۔ پاکستانی فضائیہ کے بیشتر جہاز اور ہیلی کاپٹر برما کے راستے پاکستان چلے گئے۔ ایک دن صبح بھارتی ہوائی جہاز آئے اور چاٹگام ریفائنری پر بم گرا کر چلے گئے اور وہاں دو دن تک آگ بھڑکتی رہی۔
زمین سے ہماری اینٹی ائیر کرافٹ گن جتنا مقابلہ کر سکتی تھی جم کر کرتی رہی، مگر کب تک؟ شکست کے آثار واضح تھے گو دل اور دماغ اس حقیقت کو قبول کرنے پہ آمادہ نہیں تھے مگر اب دل کے ساتھ ساتھ اعصاب بھی شکستہ ہو رہے تھے۔ جنگ کے دنوں میں ملک غیاث چچا پابندی سے بی بی سی سنا کرتے تھے اور لوگوں کو حالات کی سنگینی سے آگاہ کرتے مگر بیشتر خوش فہم اب بھی اپنے لا لا لینڈ میں تھے۔ زمینی حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے بیشتر لوگ اس خیال میں مگن کہ ہماری نا قابل شکست فوج جذبہ ایمانی کے بل بوتے پر جنگ جیت لے گی۔