Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Aswadi (2)

Aswadi (2)

اسودی (2)

رات اماں کے سو جانے کے بعد میں نے ڈرتے ڈرتے آصفہ کے کمرے میں جا کر اس سے پوچھا کہ تم کیا کہہ رہیں تھیں؟ اپنے بھیا کی شادی کے متعلق؟ کہنے لگی ہاں اماں کو ایک فیملی بہت پسند آئی ہے، کھاتے پیتے لوگ ہیں اور لڑکی بھی خوب صورت ہے۔ بھیا کو بھی ملوایا تھا اور بھیا نے منظوری دے دی ہے۔ میرا تو سر چکرانے لگا۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ کہنے لگی، لوبھلا کیوں نہیں ہوسکتا؟ بھیا کی پہلی بیوی پولیو زدہ تھی اس کو بھی تو بھیا نے طلاق دے دی تھی۔ تم بھی کالی توت ہو اور اماں کہہ رہیں تھیں کہ دو سال ہونے والے ہیں شادی کو، ایک چوہیا تک تو جن نہ سکیں اب تک۔

میں سن کھڑی سن رہی تھی۔ مجھے تنے کی طرح زمین میں گڑا دیکھ کر اس نے ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنے کمرے سے نکال دیا۔ مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں نے جو کچھ سنا ہے وہ سہی ہے اور یہ سب ممکن بھی ہو سکتا ہے؟ پھر ذہن نے واقعات اور شواہد جمع کرنے شروع کیے اور چشم زدن میں پونے دو سالہ شادی شدہ زندگی میری آنکھوں کے سامنے سے پھر گئی۔ مجھے اب اپنے سسرالیوں کی سازش سمجھ میں آ رہی تھی۔ مسائل کے شکار گھروں کی مجبور لڑکیاں لا کر ان کے جہیز پر قبضہ کرنا پھر انہیں دودھ میں پڑی مکھی کی طرح نکال دینا ان لوگوں کا پیشہ تھا۔

جب ہی یہ لوگ کسی آئے گئے کے سامنے مجھے آنے نہیں دیتے تھے حتیٰ کہ سبزی والے سے سبزی خریدنے کی بھی اجازت نہیں تھی اور جمعدار کو کچرے کی بالٹی بھی دروازے کی اوٹ سے دینے کی سخت تاکید تھی۔ میرے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اگر واقعی یہ بات درست ہے تو میں کرونگی کیا؟ میرے پاس تو پلٹ کر جانے کو کوئی دروازہ بھی نہیں؟ کیا کروں گی؟ کہاں جاؤں گی؟ کیا ایدھی ہوم چلی جاؤں؟ پتہ نہیں وہ جگہ جوان عورت کے لیے محفوظ ہے یا نہیں؟ میں کالی توت تھی یا کالی جامن بہرکیف جوان اور عزت دار تھی۔

میرا سر دکھ گیا تھا سوچ سوچ کر اور مجھے کچھ بھی نہیں سوجھ رہا تھا۔ مجھے شدت سے فہیم کا انتظار تھا۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ میں ان کے پیروں پر گر جاؤں گی اور ان سے اس گھر کے ہی کسی کونے میں پڑا رہنے کی درخواست کروں گی کہ باہر بہت بھیڑیے تھے۔ میرے دن ایک ذہنی اذیت میں گزر رہے۔ جیسے کسی سزائے موت کے مجرم کو پھانسی کی تاریخ ہولایا کرتی ہو گی ٹھیک ویسے ہی میں آنے والے وقت سے لرزاں و ترساں تھی۔ اس رات مجھے ڈراؤنے خواب آتے رہے تھے اور صبح ناشتے سے بھی پہلے میری تینوں بیاہی نندیں اپنے میکے نازل ہو گئی تھیں۔

میرا دل لرز اٹھا تھا کہ ان لوگوں کی یکجائی صرف اور صرف شر ہی لاتی تھی، ان فسادیوں سے خیر ممکن ہی نہ تھا۔ اماں نے کچے گوشت کی بریانی بنانے کا حکم صادر فرمایا کہ خیر سے فہمیدہ ماندے جی سے تھی۔ سب صحن میں دو چارپائیوں میں آڑی ترچھی پڑی خوش گپیوں میں مصروف تھیں۔ کھانے کے بعد میں سب کو چائے سرو کر رہی تھی کہ منجھلی نند نے کہا کہ"اماں اب بتا بھی دیجئے"اور میں ساری جان سے کانپ گئی مجھے لگا کہ قیامت سر پر کھڑی ہے اور ایسا ہی ہوا۔

اماں نے آصفہ کو آواز دےکر اپنا پرس منگوایا اور اس میں سے ایک براؤن رنگ کا کھلا لفافہ میری طرف پھینکتے ہوئے گویا ہوئیں کہ سن ری کلمونہی "تیرے میاں نے تجھے فارغ خطی بھیج دی ہے اب اپنی شکل گم کر۔ "میں! میں کہاں جاؤں گی اماں؟ میرا تو اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ میں اماں کے پیر پکڑتے ہوئے گڑگڑائی۔ انہوں نے بےدردی سے اپنے پیر جھٹکے اور کہااے نوج! ہم نے کیا جہان بھر کے لاوارثوں کا ٹھیکا لے رکھا ہے؟ جہاں سینگ سمائے وہاں جا۔ بڑی نند نے گھسیٹتے ہوئے مجھے دروازے سے باہر نکال دیا۔ میرے ہاتھوں میں ابھی بھی طلاق نامہ لرز رہا تھا۔ چھوٹی نند نے چھت پر سے میرا پرس نیچے پھینک دیا۔

میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں؟ بھابی کے گھر جانا جیتے جی کی موت تھی۔ کہاں جاؤں کیا کروں؟ اتنی بڑی دنیا اور میرا کوئی بھی نہیں۔ مردہ دلی سے رکشا کیا اور ڈرگ روڈ بھائی کا پتا سمجھایا۔ اب میرے آنسو خشک ہو چکے تھے اور دل آنے والے وقت کی بےعزتی اور دہشت سے سہما جاتا تھا۔ دروازے پر دیر تک گھنٹی بجاتی رہی، ہاتھوں سے بھی کواڑ پیٹا پر نہ کوئی سنوائی نہ دھائی، اتنے میں ایک گزرتے ہوئے بچے نے دروازے پر لگے قفل پر توجہ دلائی اور بتایا کہ آفتاب چچا تو فیملی کے ساتھ شادی میں شرکت کی غرض سے ساہیوال گئے ہیں۔

یا اللہ! اب میں کیا کروں؟ میرا دل چاہا کہ قریب بچھی ریل کی پٹری پر لیٹ کر اس زندگی سے نجات پا لوں۔ حرام موت اور موت کی اذیت کا احساس تو تھا پر زندگی کا کوئی مصرف اور تحفظ بھی تو نہیں تھا؟ اتنی بڑی دنیا اور کوئی جائے پناہ نہیں۔ مغرب ہونے والی تھی اور چڑھتی رات میری وحشت بڑھا رہی تھی۔ میں بالکل مایوس ہو گئی تھی کہ دفعتاً مجھے اپنی کالج کی ٹیچر مسز سلطانہ یاد آئیں۔ شاید آج کی رات گزاری جا سکتی تھی۔ وہ بھی ڈرگ روڈ پر ہی رہتی تھیں۔ میں گہری شام کے سائے میں ان کے دروازے پر کھڑی تھی اور میرا روم روم دعا کر رہا تھا کہ"اللہ میاں! مس گھر پر ہوں اور مجھے پناہ مل جائے"۔

قبولیت کی گھڑی تھی کہ مسجد سے نماز پڑھ کر وآپس آتے اپنے گھر کے دروازے پر مجھے کھڑا دیکھ کر انہوں نے مجھ سے پوچھا کس سے ملنا ہے؟ میں نے کانپتے لڑکھڑاتے مسز سلطانہ کا پوچھا؟ جی اماں گھر پر ہیں تشریف لائیں۔ مس نے مجھے اتنا سراسیمہ دیکھ کر کچھ بھی نہیں پوچھا؟ صرف اتنا کہا کہ منہ ہاتھ دھو لو، کھانے کے بعد آرام سے بات کرینگے۔ مدت بعد مجھ سے کسی نے اتنی نرمی اور اپنائیت سے بات کی تھی۔ میں تو بالکل ہی ضبط ہار گئی اور ان کے گلے لگ کر جو روئی تو اگلی پچھلی ساری کسر نکال دی۔

جب سنبھلی تو عشاء کی اذان ہو رہی تھی اور میں ان سے معذرت کر کے غسل خانے گئی اور وضو کرکے اس کی کبریائی کے آگے جھک گئی جو کسی کو بےآسرا نہیں چھوڑتا اور برداشت سے زیادہ نہیں آزماتا۔ مسز سلطانہ کے گھر پندرہ دن سکون اور عزت سے قیام پزیر رہی اور انہوں نے میرا نرسنگ کالج میں داخلہ کروا دیا اور میں ہوسٹل میں رہنے لگی۔ رفتہ رفتہ مسز سلطانہ کا خاندان ہی میرا خاندان بن گیا۔ نرسنگ کورس میں کامیابی کی خاطر میں نے جان لڑا دی کہ میری زندگی کا دارومدار ہی اس کورس پر تھا۔ چار سال کی انتھک محنت سے میں نے نرسنگ کورس اعزازی نمبر سے پاس کیا۔

یہاں بھی مسز سلطانہ جن کو اب میں خالہ کہتی ہوں، کے منجھلے بیٹے نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے نیشنل لیاقت ہسپتال میں میری نوکری لگوا دی۔ زندگی میں اب ٹھہراؤ اور سکون ہے۔ میں تین سالوں سے نیشنل لیاقت ہسپتال میں کام کر رہی ہوں اور بہترین نرس ہوں۔ ہر ڈاکٹر اپنے ساتھ میری ڈیوٹی لگوانا چاہتا ہے کہ میرے ساتھ کی وجہ سے ان کی زمہ داری آدھی رہ جاتی ہے۔ میں نہایت نفاست سے ٹانکے لگاتی ہوں۔ زچگی میرے ہاتھوں آسانی سے ہو جاتی ہے اور بچہ وارڈ تو میرا پسندیدہ ہے کہ تشنہ ممتا کو قرار آ جاتا ہے۔ مریضوں میں مقبول کہ درد آشنا ٹھہری۔

میں اس پروردگار کا جنتا بھی شکر ادا کروں کم ہے کہ اس نے مجھے اعجاز مسیحائی عطا فرمایا۔ خالہ سلطانہ چاہتی ہیں کہ اب میں شادی کر لوں اور یہ میری بھی دلی خواہش ہے کہ میں انتیسویں کے پائیدان پر کھڑی ہوں۔ اب زندگی مجھ پر بہت مہربان ہے اور کس قدر حیران کن بات ہے کہ مجھ اسودی کے دو چاہنے والے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ میں کس کو منتخب کروں؟ جس کو بھی رد کرتی ہوں اس کے لیے زندگی ادھوری ہو گی۔ کم از کم دعویٰ یہی ہے دونوں کا۔ مجھے اس الجھن سے نکلنا ہے۔

دونوں میرے ساتھ ہی کام کرتے ہیں۔ ہمارا روزانہ کا تقریباً نو دس گھنٹوں کا ساتھ ہوتا ہے سو میں دونوں کے مزاج اور طبیعت سے کلی طور پر آگاہ ہوں۔ دونوں ہی بہت اچھے ہیں اور مجھے پسند بھی مگر چننا تو بہرحال کسی ایک ہی کو ہے نا۔ مگر کس کو؟ یہ بہت کٹھن سوال ہے۔ اکبر خان قلات کا رہنے والا سرخ و سفید مردانہ وجاہت سے بھرپور۔ جزبات سے سرشار سچا اور کھرا۔ بےدھڑک اور برملا اپنے جزبات کا اظہار کرنے والا گرم جوش شخص جو بلا کا سخی اور مہربان بھی ہے۔ ہسپتال میں کم از کم تین نرسیں اس پر مرتی تھیں۔ جانے اسے مجھ آبنوسی میں کیا نظر آیا؟

بقول اس کے"تم نے میری نظریں باندھ لیں ہیں۔ "

دوسرا امید وار محمد قدیر جو کراچی کا رہائشی ہے۔ محنتی اور کم گو، اس کی آنکھیں دل پر کمند اور پیروں میں زنجیر ڈالتی محسوس ہوتی ہیں۔ بےغرض اور بلا کا ہمدرد۔ یتیم خانے کا پلا بڑھا۔ زبانی اظہار تو ایک بار ہی کیا اور پھر سلطانہ خالہ کے حضور اپنی عرضی پیش کر دی۔ میرے آرام کا متمنی۔ اسٹاف روم میں میرے پہنچنے سے پہلے اپنا اور میرا کھانا گرم کر کے منتظر رہتا۔ مجھے سواری پر سوار کرائے بغیر سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ وہ اسٹاپ سے ہل بھی جائے۔

پر دنیا کی نظروں میں میری ہی طرح عیب دار بھی۔ بقول دنیا کہ میں کالی اور وہ ساڑھے چار فٹ کا گٹہ۔ ساری عمر میں بھی تمسخر کا نشانہ بنی اور لوگوں کے طنز سے محفوظ وہ بھی نہیں ہے۔ ہم میں ایک قدر مشترک تھی وہ یہ کہ ہم دونوں ہی محروم اور زمانے کے ستائے ہوئے تھے۔ ہے نا مشکل فیصلہ؟ پر جو میرے دل سے پوچھیں تو اتنی بڑی دنیا میں مجھے کبھی بھی کوئی شخص بدصورت یا عیب دار نظر نہیں آیا۔ میرے حساب سے میں مکمل اور بہت خوبصورت ہوں کہ میرے پاس ذہن ہے جو ہمیشہ بہتری کی سوچتا ہے۔ دل ہے جو دوسروں کے دکھ پر کلستا ہے۔

ہاتھ ہیں جو ہمیشہ دوسروں کو سہارا دینے کے لیے آگے بڑھتے ہیں۔ ایک انسان میں یہی وصف تو ہونا چاہیے نا؟ درد مندی ہی تو انسان کی شناخت اور اساس ہے۔ کیا ہوا جو رنگت میں فرق ہے؟ یہ رنگت تو محض pigmentationکا کھیل ہے۔ ہم کب تک لوگوں کو قد بت، رنگت، ذات پات اور مذہب کے خانوں میں بانٹ کر انسانیت کی تذلیل کرتے رہیں گے؟ دلوں کا قتل عام کریں گے؟ چلیے فیصلہ تو میں نے کر لیا اور اگلے مہینے کی چھبیس تاریخ کو سادگی سے میری شادی طے پائی ہے۔ شادی سلطانہ خالہ کے گھر سے ہی ہو گی کہ وہ اس شادی کو اپنا آخری فرض سمجھ کر نہایت خوش دلی سے ادا کرنے کو تیار ہیں۔

اس خاندان کے احسانات کا بدلہ تو میں مر کر بھی نہیں چکا سکتی، ان کے خلوص کی جزا صرف اور صرف وہ سخی داتا ہی دے سکتا ہے اور ان شاء اللہ دے گا۔ جی میں نے محمد قدیر سے شادی کا فیصلہ کیا ہے کہ وہ بھی میری طرح زمانے کا ٹھکرایا ہوا محروم تمنا انسان ہے۔ اکبر خان کو تو اور بہت مل جائیں گی پر شاید قدیر کے لیے کوئی دوسری نہ ہو۔ ہم دونوں معاشرے کے مسترد کردہ افراد یعنی منفی منفی (-) مل کر مثبت (+) بن جائیں گے۔ اپنے اور معاشرے کے لے سود مند افراد۔

Check Also

Richard Grenell Aur Pakistan

By Muhammad Yousaf