Shahbaz Hukumat Aur Awami Masail
شہباز حکومت اور عوامی مسائل
جس طرح پاکستانی عوام کے اندرمہنگائی کے ذریعے پی ٹی آئی اور عمران خان کے خلاف نفرت کا بیج بو دیا گیا۔ اور پی ٹی آئی کو مہنگائی کے ذریعے ایسے کنوئیں میں پھینکا جا رہا ہے جہاں سے شاہد پی ٹی آئی کبی بھی باہر نا آسکے۔ کچھ اندرونی اور کچھ بیرونی ان دیکھی قوتیں اور موجودہ کیبنٹ کے پیرا شوٹر وزیر بھی اس سازش میں شامل ہو سکتے ہیں۔ ٪90 غریب پاکستانی مہنگائی کی وجہ سے سیاست، جمہوریت، الیکشن سے نفرت کرنے لگے ہیں۔
2018 کے مقابلے میں آج 2021تک، مہنگائی200، 100، 500 فیصد تک بڑھی ہے۔ ہیلتھ کارڈ احساس پروگرام بھی مہنگائی سے پسی غریب عوام کو پی ٹی آئی سے قریب نہیں کر سکے گا۔ افسوس عمران خان کی 20 سالہ سیاسی جدوجہد مہنگائی نے صرف تین سالوں میں زیرو کر دی۔ ٪90 غریب عوام مہنگائی سے نجات دلانے والے کو سر پر بیٹھائے گی، چاہیے وہ اپوزیشن ہو، پاک فوج ہو؟
میں نے یہ کالم دسمبر 2021 میں لکھا تھا۔
کاش، کاش، ارب پتی اور کھرب پتی ایم این ایز، ایم پی ایز، وزراء اعلیٰ، گورنرز، وفاقی و صوبائی وزراء کی تنخواہ، مراعات، پٹرول ٹی اے ڈی اے اور تمام عیاشیوں پر مکمل پابندی لگا کر اس پیسے سے غریب عوام کو ریلیف دیا جاتا تو آج بھی نا صرف عمران خان پاکستان پر حکومت کرتا بلکہ پاکستانی عوام کے دلوں پر حکومت کرتا۔ اور جب کوئی حکمران اپنے عوام بالخصوص غریب عوام کے دلوں پر حکومت کرے تو کوئی فرق نہیں پڑتا امریکہ، یورپ یا کون اس کے خلاف ہے۔
طیب اردگان نے عوام کو ڈلیور کیا، تو ترکی کی عوام نے مٹھائی نہیں کھائی، بلکہ امریکہ کی مدد سے تیار کی گئی سازش کو اپنا خون دے کر نا کام کیا۔ اگر کوئی ارب پتی وزیر، ایم این اے 2 لاکھ یا ڈیڑھ لاکھ تنخواہ نا لے تو اس کو کیا فرق پڑتا ہے؟ جبکہ اس 2 لاکھ سے کئیں غریب گھرانوں کو ریلیف مل سکتا ہے، شہباز شریف گورنمنٹ بہت بری طرح پھنس چکی ہے۔
قارئین جیسا کہ آپ سب کو علم ہے سردیوں میں بجلی کی پیداوار بہت کم ہوتی ہے چونکہ ڈیمانڈ بھی بہت کم ہوتی ہے۔ فروری، مارچ سے گرمیوں کے لئے بجلی کی پیداوار میں اضافے کے لئے انتظامات شروع کر دیئے جاتے ہیں تب جا کر مئی سے لے کر ستمبر تک کی، 35 سے 37 ہزار میگاواٹ کی طلب پوری کی جاتی تھی۔ ان انتظامات میں فرنس آئل، کوئلہ، گیس کی بر وقت امپورٹ کے ساتھ ساتھ پاور پلانٹس کی سالانہ مینٹیننس وغیرہ وغیرہ کی جاتی۔
لیکن اس بار فروری مارچ میں گزشتہ عمرانی حکومت اور اس کے وزیر یہ سب انتظامات کے بجائے حکومت بچانے میں لگے ریےاور گزشتہ اپوزیشن کسی بھی طرح نومبر 2022 سے پہلے پہلے عمرانی حکومت کے خاتمے پر لگی رہی۔ غریب عوام کا شدید ترین گرمی اور رمضان المبارک کے مقدس ماہ میں آٹھ دس گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کا کسی نے سوچا ہی نہیں۔
اور سوچتے بھی کیوں؟ بنی گالہ، بلاول ہاؤس اور جاتی عمرہ کے جرنیٹر آنکھ چھپکنے کی سی دیر میں آن ہو جاتے ہیں۔ 24 گھنٹے بھی لوڈشیڈنگ ہو تو ان ارب پتی لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ قارئین ابھی آج کل اپریل کے آخری دنوں میں بجلی کی طلب 25000 میگاواٹ ہے تو لوڈشیڈنگ کی یہ حالت ہے۔ جب جون، جولائی میں طلب 37000 میگاواٹ ہو گی تو کیا ہو گا؟
شہباز شریف اور اتحادی صرف اور صرف عوام کو ریلیف دے کر ہی عوام میں جا سکتے ہیں، ورنہ ان سب سے زیادہ مقبول اور" منظور نظر "عمران خان جو 2023 سے 2028 تک کی پلاننگ کر چکا تھا۔ آج کہاں ہے؟ شہباز شریف اور اتحادیوں کا سروائیول صرف عوام کو ریلیف دینے میں ہے۔ نہیں تو عوام کی بد دعائیں، عمران خان کی مضبوط اپوزیشن، مہنگائی، لوڈشیڈنگ آپ کے اکھڑے قدموں کو کبھی بھی جمنے نہیں دے گا۔
مجھے تو ڈر ہے عمران خان کی حکومت کی طرع یہ اتحادی حکومت بھی اگر اس سال ڈیڑھ سال میں عوام کو ریلیف نہیں دے سکی تو عوام کا سیاست، الیکشن اور جمہوریت سے اعتبار اور اعتماد ہی ختم ہو جائے گا۔ اور پھر "عزیز ہم وطنو"اللہ نا کرے ایسا ہو، لیکن ہمارے سیاستدان پچھلے ایک دو ماہ سے اپنی حرکتوں سے ثابت کر چکے ہیں کہ وہ ابھی اس قابل نہیں ہیں کہ یہ ملک" مکمل" طور پر ان کے حوالے کیا جائے، چونکہ جب ملک جزوی طور پر ان کے حوالے کیا جاتا ہے تو ان کی یہ حرکتیں ہوتی ہیں۔
زرا سوچیں کی یہ ملک اگر کلی طور پر ان کو دیا جائے تو یہ کیا کیا کریں گے؟ مضبوط ادارے ہی پاکستان کی سلامتی کے ضامن ہیں۔