Pakistan Taraqi Kar Sakta Hai
پاکستان ترقی کرسکتاہے
محترم قارئین میں یہ کالم صرف سچا پاکستانی بن کر لکھ رہا ہوں آپ بھی اسے ایک سچا پاکستانی بن کر پڑھیں گے تو سمجھ آئیے گا۔۔ اگر آپ اس کو کسی پارٹی کا وفادار، سپورٹر، ووٹر یا غلام بن کر پڑھیں گے تو سمجھ نہیں آئے گا۔
محترم قارئین جیسا کہ پاکستان میں گورنر جنرل سسٹم، ایوب، مشرف، ضیاء الحق مارشل لاء اور انہی کا مارشل لاء پلس صدارتی نظام اور پی پی پی اور پی ایم ایل ن کا دو پارٹی پارلیمانی نظام حکومت اور اپوزیشن کے تلخ ترین تجربات کے بعدپی ٹی آئی اور عمران خان کی قیادت میں تیسری پارٹی متعارف کروائی گئی۔ اور عمران خان اور پی ٹی آئی ایک سافٹ انقلاب کے طور پر حکومت میں آئے۔۔ جن سے پاکستان کی غریب عوام نے بہت توقعات وابستہ کر لیئں۔۔
یہ سافٹ انقلاب بری طرح ناکام ھوا۔۔ جس کی بہت سی وجوہات ہیں۔۔ جن میں مہنگائی، کرونا۔۔ بیرونی قرضے، نا، اہل مشیر، وزیر۔ نا تجربہ کاری، کرپشن۔ عمران خان کی ذات کے علاوہ ایمان دار اور دیانت دار لوگوں کی کمی، اداروں اور بیوروکریسی پر کمزور ترین گرفت۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔ یہ تو ایک سافٹ انقلاب تھا، جو روایتی اور کرپشن سے لتھڑی سابقہ حکومتوں کے خلاف تھا۔۔
اب آتے ہیں ھارڈ یا خونی انقلاب کی طرف۔۔ حالیہ تاریخ میں ایران یا خمینی انقلاب جو ہم میں سے بہت سے لوگوں نے دیکھا ھو گا۔ یا پڑھا ھو گا، اوراور ماضی بعید میں انقلاب فرانس، قارئین جو بھی انقلاب فرانس پر جب بھی کوئی کتاب پڑھےگا یا مووی دیکھےگا اس کے رونکھٹے کھڑے ہو جائیں گے۔۔
بہرحال۔ بات ہو رہی تھی پاکستان میں تجربات پر جو سب کے سب نا کام ہوئے۔ اور سب تجربات میں امیر، امیرسے امیر تر بلکہ امیر ترین ہوا۔۔ اور غریب، غریب سے غریب تر بلکہ غریب ترین ہوا۔
اس کا مطلب ہے ہم صرف کنوئیں سے پانی کے ڈھول نکالتے رہے۔۔ جبکہ مردہ جانور پانی سے نا نکال سکے۔ اس مردہ جانور کو پانی سے نکالنے کے لیے آئین پاکستان میں کچھ ترامیم کرنی ہوں گی۔۔
غریب عوام کو کوئی غرض نہیں کہ یہ ترامیم کوئی جنرل کرتاہے۔۔ اسٹیبلشمنٹ کرتی ہے یا کوئی منتخب حکومت کرتی ہے۔ بہرحال جو بھی یہ ترامیم کرے گا وہ پاکستان کے٪ 90 غریب لوگوں پر احسان کرے گا(دس فیصد خواص پر تو 1947 سے احسان بلکہ احسانات ہوتے آ رہے ہیں)اگر درجہ ذیل ترامیم کر دی جائیں تو پاکستان ترقی کی راہ پر چل بلکہ دوڑ سکتا ہے۔
1947سے آج دن تک جس نے بھی بنکوں سے قرضے معاف کرانے ہیں، سب سے سود سمیت قرضہ واپس لیا جائے اگر یہ ارب پتی لوگ قرضہ واپس نا کریں تو ان کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کسی بھی قسم کے انتخابات کے لئے نا اہل قرار دیا جائے، ان کی منقولہ و غیر منقولہ جائیدادیں بیچ کر قرضے کی رقم وصول کی جائے۔
1947 سے آج تک بڑے قرضے معاف کرانے والوں میں کوئی ایک بھی کروڑ پتی نہیں ہے، بلکہ سب ارب پتی ہیں۔ اور اسی پاکستان میں پچاس ہزار اور ایک لاکھ قرضے کے لیے غریب عوام کے گھر نیلام ہوتے ہوئے بھی دیکھیں ہیں۔
گریڈ 16 سے 22 تک کے تمام ملازمین جی ہاں ملازمین (پبلک سرونٹ) پر پابندی لگائی جائے کہ نا تو وہ اور نا ان کے خاندان کا کوئی بچہ، بچی پرائیویٹ سکول میں پڑھ سکتاہے اور نا پرائیویٹ ھاسپیٹل میں علاج کروا سکتاہے۔ اور نا ہی فیملی کا کوئی مرد، خواتین پرائیویٹ ھاسپیٹل میں علاج کروا سکتا ھے۔۔ جس نے اپنے بچوں کو پرائیویٹ پڑھا نا ھو یا اپنے بڑوں کا پرائیویٹ علاج کروانا ہو وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر کرے۔۔
خود، بیوی یا بچے اگر بیرون ملک جائیدادیں رکھتے ہوں، اکاؤنٹ رکھتے ہوں یا پاکستان کے علاوہ کسی بھی دوسرے ملک کا پاسپورٹ رکھتے ہوں ایسے تمام اشخاص پرالیکشن لڑنے پر پابندی ہونی چائیے۔
اگر کسی بھی شخص یا فیملی کی منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد 50 کروڑ سے زائد ہے(جائز یا نا جائز) تو ایسی فیملی یا شخص کو الیکشن لڑنے کے لیے نا اہل قرار دیا جائے۔
ایم این اے اور ایم پی اے کے لیے لازمی قرار دیا جائے کہ وہ کبھی نا کبھی اپنی یو سی یا اپنے تحصیل کا منتخب نمائندہ رہا ہو۔ تاکی اس کو گراس روٹس لیول کی مشکلات کا اندازہ ہو۔
الیکشن لڑتے وقت بتائے گئے اثاثوں میں حکومت کے خاتمے پر اگر ایک روپے کا بھی اضافہ ہوا ھو تو ایسے شخص اور اسکی فیملی کی تمام جائیداد جو حکومت میں رہ کر بنائی یا پہلے سب ضبط کی جائے۔ اور ہر طرح کے انتخابات کے لئیے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نااہل قرار دیا جائے۔
ہر پارٹی کو پابند کیا جائے کہ پارٹی کے اندر الیکشن کروانے۔ حقیقی الیکشن۔ آج تک ہر پارٹی کے اندر ھونے والے الیکشن کے نام پر ڈرامے بازی نہیں، پھر یو سی، تحصیل، ضلع صوبے اور مرکز کی پارٹی قیادت پارٹی کے رجسٹرڈ لوگوں کے ووٹوں سے منتخب ہو۔۔ نا کہ سیلیکٹڈ جیسا کہ آج تک ہر پارٹی میں ہوتا رہا ہے۔ ہر حلقے سے ہر پارٹی ایم این اے اور ایم پی اے کے لئیے الیکشن سے تین ماہ قبل کم از کم تین تین امیدوار کڑھے کرے اور حتمی امیدوار کا فیصلہ پارٹی کارکنان اپنی ووٹ سے کریں۔
ہر پارٹی کو پابند کیا جائے کہ ہر پارٹی ہر شعبے کا ماہر آدمی رکھےان کو الیکشن کے لیے ٹکٹ دے اور اپنے شعبے میں پی ایچ ڈی اور اہل ترین لوگوں کو وزارت دی جائے۔۔ تاکہ یہ لوگ بھرپور اعتماد سے اپنی اپنی وزارتوں کو چلا سکیں، ورنہ میٹرک پاس یا فیل وزیر 22 گریڈ کے سیکرٹری سے کیسے کام لے گا۔
ہرادارے میں موجود کرپٹ اور شدید نوعیت کے جرائم پیشہ افراد کو سرعام پھانسی دی جائے تمام ادارے ٹھیک ہو جائیں گے۔ اگرسو دو سو کرپٹ اور جرائم پیشہ لوگوں کو پھانسی دینے سے 22 کروڑ کی تقدیر بدلتی ھے تو سودا مہنگا نہیں۔۔
پاکستان میں ٹیکس کی رقم کم۔ سے کم کی جائے اور ٹیکس نیٹ بڑھایا جائے۔ 5 کروڑ سے 8 کروڑ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جا سکتا ہے۔ لیکن کم سے کم ٹیکس اور بھر اعتماد سے۔
قارئین مجھے بہت یقین ہے کہ اگر یہ ترامیم کر دی جائیں تو پاکستان ترقی کر جائیے گا۔ غربت ختم ہو جائے گی۔۔ اور ہم کسی بڑےاور برے بلکہ بہت برے ایڈوینچر یا ہارڈ یا خونی انقلاب سے بچ جائیں گے، جوبھی ھو، اللہ کر پاکستان اور غربت پاکستانیوں کے لیے بہتر ھو۔