Kya N League Phans Gayi?
کیا ن لیگ پھنس گئی؟
میں پی ٹی آئی کے لیے نرم گوشہ رکھنے کے باوجود اس ڈر اور خوف میں مبتلا تھا کہ پی ٹی آئی اپنے 5 سال پورے کر کے عوام میں کیسے جائےگی؟ الیکشن میں ووٹ کیسے مانگے گی اور پی ٹی آئی والے لوگ الیکشن کمپین میں کیا تقریریں کریں گے؟ چونکہ مہنگائی، بیروزگاری، ایک کروڑ نوکری اور 50 لاکھ گھروں کا وعدہ جو 5 سال میں نا وفا ہونا تھا نا ہوا اور لوگوں کی پی ٹی آئی اور کپتان سے بہت زیادہ امیدیں جو پوری بلکہ آدھی بھی نا ہو سکیں۔
لیکن پھر پی ٹی آئی کی لاٹری نکل آئی۔ تحریک عدم اعتماد کی صورت میں اور پھر ایک روٹین کی ڈپلومیٹک کیبل کو جس طرح کپتان نے اپنے حق میں استعمال کیا اور بھرپور کیا، اور اس سارے عمل میں پی پی پی (زرداری) کی شاطرانہ سوچ اور شاہد کچھ "سابقہ بدلے" اور ن لیگ کی بغیر سوچے سمجھے جلد بازی میں وزیراعظم پورے پاکستان اور وزیراعلیٰ آد ہے پاکستان (پنجاب) کی مصیبت گلے پڑ گئی یا گلے ڈالی گئی۔
یہاں قارئین اگر کچھ لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ اکتوبر، نومبر 2022 سے پہلے پہلے پی ٹی آئی اور کپتان کی حکومت ختم کرنی ضروی تھی۔ کیونکہ پاکستان کے اہم ترین عہدے کی تبدیلی ان تاریخوں میں ہونا تھی، اور جیسے ن لیگ سوچ رہی ہے بلکہ سیاسی زندگی کا سب سے بڑا رسک ن لیگ نے لیا ہی اس لیے ہے کہ اس پوسٹنگ سے پہلے پہلے ہر حال میں کپتان کی حکومت ختم کرنی ہے نہیں تو 2018 کی طرع 2023 کا الیکشن بھی پی ٹی آئی کو دیا جائے گا، اور کپتان 2023 سے 2028 تک سنسان گلیوں میں مرزا یار کی طرع وزیراعظم رہے گا۔
جی ہاں قارئین یہی وہ وجہ تھی جو بالعموم ساری سابقہ اپوزیشن جماعتوں نے اور بالخصوص ن لیگ نے سوچ کر عدم اعتماد والا کھیل کھیلا۔ بلکہ جوا کھیلا بلکہ رسک لیا، اس سارے عمل کی سب پارٹیاں بینیفشریز ہیں سوائے ن لیگ کے۔ چونکہ جو پاکستان کی معیشت کی حالت ہے ن لیگ کےلیے ایک طرف گہری کھائی اور دوسری طرف گہرا سمندر ہے مثلاً اس وقت جو انٹرنیشنل پٹرولیم پرائسس ہیں اور جو کپتان 150 روپ لیٹر پٹرول کی قیمت کر کے گیا اور ن لیگ کو مجبوراً 150 روپے پر ہی رکھنی پڑ رہی ہے۔
ہر ماہ ن لیگ کی حکومت کو کم از کم 2 ارب کا خسارہ ہو رہا ہے۔ اب اگر معیشت کو بہتر کرنے کے لیے ن لیگ پٹرول 220 یا 250 روپے لیٹر پر لے جاتی ہے تو اس بھوکی ننگی غریب ترین قوم 90 فیصد(10فیصد اشرافیہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا) آبادی کی زندگی اجیرن ہو جائے گی، اور لوگوں کو مریم نواز اور حمزہ شہباز شریف کا مہنگائی مکاؤ مارچ جس کو 2 ماہ بھی نہیں ہوئے بھولا نہیں۔
لوگ پھر یہ پوچھنے پر حق بجانب ہوں گے کہ مریم اور حمزہ کا مہنگائی مکاؤ مارچ سری لنکا کے لیئے تھا یا پاکستان کیلئے؟ اور جو کچھ دیوالیہ سری لنکا میں ہو چکا ہے اور ہونے والا ہے، اس کو ہمارے سیاستدان بہت باریکی سے دیکھ اور سمجھ رہے ہیں اوراسی لیے پھونک پھونک کر قدم کبھی لندن اور کبھی اسلام آباد میں رکھے جا رہے ہیں۔ ن لیگ ان ساری مشکلات کا کوئی حل ڈھونڈنے میاں نواز شریف صاحب کے پاس لندن گئی۔
میاں نواز شریف کی جو سوچ ہے لگتا ہے میاں نواز شریف کا یہی مشورہ ہو گا کہ عوام کو ریلیف جاری رکھا جائے۔ چونکہ آپ کو کسی بھی الیکشن میں جیت کے لئے 80، 90 فیصد ووٹ خود لینا ہوتا ہے اور 10، 15 یا 20 فیصد دھکہ۔ تھپکی یا سسٹم بٹھا کر "مدد" کی جاتی ہے، میاں نواز شریف اور اسحاق ڈار کو اچھی طرع علم ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے نا صرف ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھتے ہیں بلکہ آلو، پیاز، ٹماٹر، اینٹ، سیمنٹ، ریت، جوتے، کپڑے الغرض ہر چیز مہنگی ہوتی ہے۔
چونکہ یہ ساری چیزیں کھیتوں، منڈیوں اور فیکٹریوں سے دکانوں اور بازاروں تک پٹرول اور ڈیزل والی ٹرانسپورٹ سے پہنچتیں ہیں، اور جب الیکشن سر پر ہوں تو اس طرح کی مہنگائی کوئی سیاسی خود کش ہی کر سکتا ہے، اب قارئین آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر ان مسائل کا حل کیا ہے؟ کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نا ٹوٹے۔ مطلب معیشت بھی کچھ بہتر ہو اور بہتر ہوتی معیشت کے نتیجے میں جو مہنگائی کا طوفان آئے گا وہ بشمول ن لیگ کسی سیاسی جماعت کے گلے نا پڑے تو اس کی بھی ایک صورت ہے۔
وہ یہ کہ جلد از جلد نگران حکومت بنائی جائے جس کا مینڈیٹ الیکشن اور معیشت کو بہتر کرنا ہو، چونکہ نگران حکومت نے الیکشن نہیں لڑنا ہوتا تو وہ غیر مقبول فیصلے کر سکتے ہیں، یہی وہ واحد راستہ ہے جس سے ن لیگ بغیر سوچے سمجھے اور جلد بازی اور پی پی کی چال سے اپنے گلے میں پڑنے والا وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کا "طوق" نگران حکومت کے گلے میں ڈال سکتی ہے۔ اور کپتان کے مداخلت اور سازش والے بیانیے اور بھرپور اور بڑے جلسوں کی موجودگی میں الیکشن 2022 یا 2023 میں پی ٹی آئی سے اچھا مقابلہ کر سکتی ہے۔